ملائشیا: سکول کی لڑکیاں بد روحوں کے چنگل میں یا ذہنی دباؤ کا شکار
جب سنہ 2016 میں یہ کِٹ متعارف کرائی گئی تو اس پر کئی لوگوں نے تنقید کی تھی۔ مثلاّ ایک سابق وزیر خیری جمال الدین نے اسے ’دقیانوسی معاشرے کی علامت‘ قرار دیا تھا۔
’یہ ایک احمقانہ قسم کی توہم پرستی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملائشیا سائنس کو مانے اور نئی ایجادات کرے، نہ کہ مافوق الفطرت چیزوں پر یقین کرتا رہے۔‘
لیکن جہاں تک اجتماعی ہسٹیریا کے مسئلے کا تعلق ہے، یونیورسٹی پُترا ملائشیا سے منسلک ماہرِ نفسیات، عمرہ اسماعیل جیسے ماہرین مافوق الفطرت عوامل پر یقین کو رد نہیں کرتے۔
عمرہ اسماعیل کہتے ہیں کہ ’ملائشیا میں اس حوالے سے لوگوں کی ایک خاص سوچ ہے اور اس مسئلے کا بہتر عملی حل یہ ہے کہ اسے روحانی نظریات اور دماغی امراض کے علاج کو ملا کر دیکھا جائے۔
اگر ملائشیا کو دنیا میں اجتماعی ہسٹیریا کا سب سے بڑا مرکز کہا جائے تو ملک کے شمال مشرقی ساحل پر واقع کیلنٹان کے صوبے کو اس مرکز کا دل کہنا غلط نہیں ہوگا۔
رابرٹ بارتھلمیو کے خیال میں ’ہمیں یہ جان کر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اجتماعی ہسٹیریا کے واقعات ملائشیا کے اس صوبے میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں جو مذہبی اعتبار سے سب سے زیادہ قدامت پسند علاقہ ہے۔
کیلنٹان کو ملائشیا میں اسلام کا گڑھ سمجا جاتا ہے اور یہ ملک کے ان دو صوبوں میں سے ایک ہے جہاں حکومت حزب اختلاف کی قدامت پسند جماعت ’ملائشین اسلامِک پارٹی‘ کے ہاتھ میں رہی ہے۔
باقی ملک کے برعکس، سنیچر اور اتوار کے بجائے کیلنٹان میں ہفتہ وار چھٹی جمعرات اور جمعہ کو ہوتی ہے۔
مقامی بازار میں ٹھیلہ لگانے والی 82 سال روحیدہ راملی کہتی ہیں کہ ’یہ علاقہ ملائشیا کا ایک دوسرا رخ ہے۔ یہاں زندگی بہت سادہ ہے۔ دارالحکومت کوالالمپور کے برعکس، یہاں لوگ بہت زیادہ مصروف یا ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہوتے۔‘
کیا مذہب اور مافوق الفطرت عوامل پر یقین، ان دونوں کا آپس میں تعلق ہے؟
اس حوالے سے دانشور عفیق نور کہتے ہیں کہ کیلنٹان جیسے صوبوں میں، جہاں اسلامی قوانین کا سختی سے اطلاق کیا جاتا ہے، وہاں ہسٹیریا وبائی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس قسم کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔
’ملے برادری کی مسلمان لڑکیاں جن سکولوں میں جاتی ہیں وہاں مذہب پر سختی سے عمل کرایا جاتا ہے، ان لڑکیوں کو مخصوص لباس پہننا ہوتا ہے اور انہیں موسیقی سننے کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ موسیقی کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔‘
ایک خیال یہ ہے کہ ہو سکتا ہے یہاں دماغی بے چینی کے زیادہ ہونے کی وجہ سکولوں کا سخت ماحول ہے۔
اجتماعی ہسٹیریا کے اس قسم کے واقعات میکسیکو، اٹلی اور فرانس کے کیتھولک مسیحیوں کے کانونٹ یا لڑکیوں کے مدرسوں اور کوسوو کے سکولوں میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کے دیہی علاقوں کے لڑکیوں کے گروپس (چیئر لیڈرز) میں بھی اجتماعی ہسٹیریا کے واقعات ہو چکے ہیں۔
ان تمام کیسز میں ہر کسی کا اپنا ثقافتی ماحول ہے اور اس لحاظ سے ہر جگہ اجتماعی ہسٹیریا مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے۔ لیکن بنیادی طور یہ ایک ہی چیز ہے، اور ماہرین کے خیال میں سخت ماحول اور قدامت پسند روایات جیسے عوامل اور اجتماعی ہسٹریا میں واضح تعلق موجود ہے۔
نفسیاتی علاج کے سٹیون ڈائمنڈ جیسے ماہرین سمجھتے ہیں کہ اجتماعی ہسٹیریا کی درد، خوف اور شرمندگی جیسی علامات اس بات کا عکاس ہو سکتی ہیں کہ ہسٹیریا کا شکار شخص اصل میں توجہ چاہتا ہے اور توجہ نہ ملنے کی صورت میں اس کی پریشانی کا اظہار ہسٹیریا کی صورت میں ہوتا ہے۔
سنہ 2002 میں مشہور جریدے ’سائیکالوجی ٹوڈے، میں ایک مضمون میں سٹیون ڈائمنڈ کا کہنا تھا کہ عین ممکن ہے کہ درد اور شدید خوف جیسی علامات سے ہسٹیریا میں مبتلا لوگ یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے اصل جذبات کیا ہیں، وہ جذبات جن کا اظہار وہ کرنا نہیں چاہتے یا الفاظ میں اظہار کر نہیں سکتے۔‘
سنہ 2019 کا سال سیتی نورالنسا کے لیے قدرے پرسکون رہا ہے۔
’میں اس عرصے میں ٹھیک رہی ہوں، میں پرسکون رہی، اور اب کئی مہینوں سے میں نے کوئی بری چیز نہیں دیکھی ہے۔‘
سکول سے فارغ ہونے کے بعد سے سیتی نورالنسا کا اپنی زیادہ تر پرانی دوستوں سے رابطہ ختم ہو گیا، لیکن وہ اس پر پریشان نہیں ہیں کیونکہ سیتی نے مجھے بتایا کہ سکول کے دنوں میں بھی ان کی سہیلیوں کا گروپ چھوٹا ہی تھا۔
وہ جلد ہی یونیورسٹی جانا چاہتی ہیں، تاہم آج کل انہیں پڑھائی نہیں کرنا پڑتی۔
جس دن میں سیتی نورالنسا سے ملی، اس نے مجھے سیاہ رنگ کا ایک چمکدار مائیکروفون بھی دکھایا۔
’میں فارغ وقت میں ہمشیہ موسیقی سے لطف اندوز ہوتی ہوں اور مجھے مشہور دھنوں پر گانا یا ’کیری اوکی` بہت پسند ہے۔ کیٹی پیری اور ملائشیا کی مشہور گلوکارہ سیتی نورالہدیٰ میری پسندیدہ سنگرز ہیں۔‘
ہسٹیریا کے مشکل دنوں میں ذہنی دباؤ کو ختم کرنے میں گانے نے سیتی نورالنسا کی بہت مدد کی اور اس ڈراؤنے تجربے کے بعد خود پر دوبارہ اعتماد بحال کرنے میں ان کے لیے گانے گانا بہت اچھا ثابت ہوا۔
’ذہنی دباؤ سے میرا جسم کمزور پڑ جاتا تھا، لیکن اب میں نے ذہنی دباؤ پر قابو پانا سیکھ لیا ہے۔ میرا ہدف یہ ہے کہ میں نارمل اور خوش زندگی گزاروں۔‘
سیتی نورالنسا کی یہ بات سن کر میں نے ان سے پوچھا کہ مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہیں۔
’پولیس وومن بننا چاہتی ہوں۔ پولیس افسر بہادر ہوتی ہیں اور انھیں کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا۔‘
۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).