جب میں اس کی بہن سے ملا


”آج میری بہن کا برتھ ڈے ہے“ پیٹر کا لہجہ کچھ الجھا ہوا تھا۔

”یہ تو خوشی کی بات ہے، تم کچھ پریشان لگ رہے ہو؟ “ میں نے حیرت سے کہا۔

”میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ میں اس کے لیے کیا گفٹ خریدوں“ وہ بولا۔

”بس اتنی سی بات ہے، یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، مارکیٹ میں جاؤ وہاں جو چیز پہلی نظر میں اچھی لگے خرید لو، تحفہ خریدنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ پہلے سے سے کچھ نہ سوچو۔ “ میں نے فوراً کہا۔

”ہوں اچھا مشورہ ہے مگر تمھیں میرے ساتھ چلنا پڑے گا۔ “ پیٹر نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

”بسر و چشم“ میں نے جھکتے ہوئے کہا۔

چند منٹ بعد میں اس کی کار میں بیٹھا تھا۔ وہ ڈرائیو کر رہا تھا۔ ہماری منزل سپر مارکیٹ تھی۔ میں اس شہر میں ملازمت کی غرض سے آیا تھا۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مجھے جاب ملی تھی۔ دفتر میں یوں تو کئی لوگ تھے مگر پیٹر وہ رفیق تھا جس سے میرے مراسم چند دنوں میں ہی دوستی کی حدوں تک جا پہنچے تھے۔ وہ تئیس چوبیس برس کا ایک پروقار شخص تھا۔ اس نے بھی چند مہینے پہلے اس کمپنی کو جوائن کیا تھا۔ شاید دوستی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ میرا ہم عمر تھا۔

اس نے کئی بار مجھے دعوت دی تھی کہ میں کوئی شام اس کے گھر گزاروں اور میں نے بھی اس سے وعدہ کیا تھا کہ میں اس کے در دولت پر ضرور حاضری دوں گا مگر ابھی تک اس کی نوبت نہیں آئی تھی۔

سپر مارکیٹ میں ہم سب سے پہلے ایک ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان میں داخل ہوئے۔ اتفاق سے پیٹر کو پہلی نظر میں ہی ایک ڈریس بھا گیا۔ چناں چہ دس منٹ کے اندر وہ یہ ڈریس گفٹ کے طور پر خرید چکا تھا۔ اس نے میرا شکریہ ادا کیا کہ میری وجہ سے اسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوئی۔ اس نے مجھے دعوت دی کہ میں اس کی بہن کی برتھ ڈے پارٹی میں شرکت کروں۔ میں نے پس و پیش سے کام لینے کی کوشش کی مگر اس کے اصرار پر انکار نہ کر سکا۔ واپسی سے پہلے میں نے بھی ایک عمدہ پرفیوم خرید لیا۔

پارٹی کا وقت شام سات بجے تھا۔ میں وقتِ مقررہ پر اس کے گھر کے گیٹ پر پہنچ چکا تھا۔ گھر کو باہر سے ہی دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اس کے والد اچھا خاصا پیسا کما لیتے ہیں کیوں کہ گھر شاندار تھا۔ اس کے والد بزنس میں تھے لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کو ہنوز بزنس میں شامل نہیں کیا تھا۔ بقول پیٹر وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا کہیں اور کام کر کے زمانے کی اونچ نیچ سمجھ لے پھر اپنا بزنس سنبھالے گا۔

بہر حال میں نے ڈور بیل بجائی تو ایک ملازم نے دروازہ کھولا۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس نے سلام کیا اور بولا۔

”سب لوگ بڑی شدت سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تشریف لے آئیے۔ “

میں سر ہلاتے ہوئے اندر داخل ہوا۔ اس کوٹھی میں ایک پراسرار سی خاموشی طاری تھی لگتا ہی نہیں تھا کہ یہاں پارٹی ہے۔ میں ملازم کی رہنمائی میں لاونج میں پہنچا تو پیٹر نے میرا اسقبال کیا۔ سلام و دعا کے بعد اس نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں گداز صوفے پر بیٹھا تو انتہائی راحت کا احساس ہوا۔

”یار گھر میں بڑی خاموشی ہے کہیں پارٹی کینسل تو نہیں ہو گئی۔ باہر میں نے کسی اور مہمان کو بھی آتے ہوئے نہیں دیکھا۔ پیٹر مسکرا اٹھا۔

”ایسی بات نہیں ہے میرے دوست! دراصل اس پارٹی کے واحد مہمان تم ہو، باقی سب گھر کے لوگ ہیں۔ “

”اوہ! مجھے اس بات کا علم نہیں تھا خیر بہت شکریہ کہ تم نے مجھے اس قابل سمجھا کہ اپنی نجی پارٹی میں مجھے شریک ہونے کا موقع فراہم کیا۔ “

”میں روز تمہاری باتیں گھر میں کرتا ہوں غائبانہ طور پر تم اس گھر کے فرد بن چکے ہو۔ “ پیٹر نے لب کشائی کی۔

میں حیران رہ گیا۔ پیٹر نے اس بارے میں مجھے کبھی نہیں بتایا تھا۔

”ٹھیک آٹھ بجے کیک کاٹا جائے گا، میں نے تمہیں اس لیے پہلے بلوایا تھا کہ گپ شپ ہو جائے گی۔ “ پیٹر نے کہا۔ ملازم جوس لے آیا تھا۔ پیٹر نے اسے بھیج دیا۔ ہماری گفتگو کا سلسلہ چل پڑا۔ ہم باتوں میں محو تھے کہ اسی ساعتِ بے خودی میں بنفشی پردوں کے پیچھے سے ایک پر شباب دوشیزہ نمودار ہوئی اور سیدھی میری طرف بڑھی۔ وہ نیلگوں عمدہ لباس پہنے ہوئے تھی۔ میں پیٹر کے ساتھ اس کے استقبال کو اٹھ کھڑا ہوا۔

”یہ میری بہن سینڈرا ہے۔ “ پیٹر نے مجھ سے کہا پھر سینڈرا سے مخاطب ہوا۔

”ان سے ملو سینڈی یہ میرے وہی دوست ہیں جن کا تذکرہ میں روز کیا کرتا ہوں۔ “ اسی لمحے سینڈرا نے میری طرف یوں دیکھا جیسے اس بات کا یقین چاہتی ہو کہ ان کے گھر میں واقعی کوئی مہمان آ سکتا ہے۔

حیرت و استعجاب کے عالم میں سینڈرا نے اپنا مرمریں ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ اُس کے پھول ایسے کومل ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہی مجھے یوں لگا جیسے دل میں کوئی پھانس سی چبھ گئی ہو۔ ہم خاموشی سے بیٹھ گئے۔ ایسا لگتا تھا جیسے سینڈرا کے روپ میں کوئی آسمانی روح ہمارے سامنے اتر آئی ہے جس کے سامنے خاموش بیٹھنا احترام کا تقاضا ہے۔ آخر اس نے خود ہی مہر سکوت توڑتے ہوئے کہا۔

”میرے بھائی نے بتایا تھا کہ آپ اس شہر میں اجنبی ہیں اور بہت تنہا تنہا رہتے ہیں۔ “

”پیٹر نے کچھ غلط نہیں کہا در اصل میں دوست بنانے میں بہت دیر کر دیتا ہوں۔ ابھی تک فقط پیٹر سے ہی میری دوستی ہو پائی ہے۔ “ میں نے دھیرے سے کہا۔

”تب تو آپ بالکل میرے جیسے ہیں میں تو ابھی تک کسی دوست سے محروم ہوں۔ “

عین اسی وقت قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ پھر تین افراد کمرے میں داخل ہوئے۔ ایک ادھیڑ عمر مرد جو پیٹر کا باپ تھا۔ پیٹر کی ماں اور ایک بوڑھی عورت جس کے بارے میں پتا چلا کہ وہ پیٹر کی دادی ہیں۔ اسب سے تعارف کا مرحلہ طے ہوا تو ادھر ادھر کی باتیں شروع ہو گئیں۔ ابھی تک کسی نے برتھ ڈے کیک کی بات نہیں کی تھی شاید کسی کا انتظار تھا۔ میں نے پیٹر سے پوچھا تو اس نے سمارٹ فون چیک کرتے ہوئے کہا۔ ”بس ایک منٹ انتظار کرو، وہ باہر پہنچ گئی ہے۔ “

آنے والی دلکش لڑکی کا نام جیسیکا تھا۔ وہ پیٹر کی گرل فرینڈ تھی۔ ہم سب باہر لان میں آ گئے۔ برقی قمقمے روشن تھے اور لان بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ ملازم میز پر کھانا چن رہے تھے۔ ایک میز پر بڑا خوبصورت کیک رکھ دیا گیا تھا۔ موم بتیاں روشن کر دی گئیں تھیں۔ ایک کونے میں ساونڈ سسٹم وغیرہ اور سنگرز کا ایک گروپ موجود تھا۔ مین سنگر گٹار بجا رہا تھا۔ فضا میں بڑی دل فریب انگریزی دھن بج رہی تھی۔

سینڈرا نے موم بتیاں بجھائیں اور ایک نئی موم بتی روشن کر دی۔ پھر کیک کاٹا۔ فضا میں ہیپی برتھ ڈے ٹو یو کا گانا گونجنے لگا۔ میری آواز بھی ان سب کے ساتھ شامل تھی۔ سینڈرا کو تحائف دیے گئے۔ میں نے بھی گفٹ اس کی طرف بڑھایا۔

”یہ معمولی تحفہ قبول کیجیے اور سلامت رہیے۔ “

وہ مسکرا اٹھی اور مجھے یوں لگا جیسے ارد گرد کی ہر شے مسکرا رہی ہو۔ کھانے کا دور چلا تو اس دوران بھی خوشگوار ماحول میں گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ پیٹر کے والد مسٹر ڈیوڈ تو وائن کا گلاس تھامے ہوئے تھے باقی افراد نے کولڈ ڈرنک پر اکتفا کیا تھا۔ میری ان سے بھی گفتگو ہوئی۔ پیٹر کی والدہ اور دادی بھی بڑی محبت سے ملیں۔ دھیرے دھیرے چھوٹے چھوٹے گروپ تشکیل پا گئے۔ پیٹر اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ گپ شپ کر رہا تھا۔ اس کی والدہ اور دادی آپس میں گفتگو کر رہی تھیں۔ مسٹر ڈیوڈ وائن سے دل بہلا رہے تھے۔ سینڈرا میرے قریب آ گئی۔

”نائیس ایوننگ“ میں نے اسے دیکھ کر کہا۔

”واقعی یہ شام بہت خوبصورت ہے۔ “

میوزک گروپ بھی کھانا کھا چکا تھا۔ اسی وقت سنگر نے گانا شروع کیا۔ ہم کرسیاں گھسیٹ کر بیٹھ گئے۔ وہ ایک نیا انگلش گانا تھا۔ اس کی شاعری بہت عمدہ تھی۔ کچھ اس طرح کہ: مجھے عہد شباب میں ایک اجنبی سے محبت ہو گئی ہے، افسوس کہ میں اسے اپنا نہیں کہ سکتا، میں اپنی آنکھیں پہاڑوں کی طرف اٹھاوں گا، میں خدا سے دعا کروں گا کہ وہ اس کے دل میں میری محبت کا بیج بو دے، مگر وہ شاید ہی پروان چڑھ سکے کیوں کہ اس کا دل بہت سخت ہے پتھر کی طرح، محبت کی کونپل پھوٹی بھی تو کملا کر ختم ہو جائے گی۔

”شاید اسے آج یہ نغمہ نہیں گانا چاہیے تھا۔ “ میں نے کہا۔

”نہیں نہیں یہ مجھے بہت پسند ہے، میں نے فرمائش کی تھی کہ وہ یہ بھی گائے۔ “ سینڈرا نے فوراً کہا۔ وہ میرے بالکل قریب بیٹھی تھی اور میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اس کے وجود کی رعنائیوں پرنظر رکھوں یا اس کی آواز کی مٹھاس میں کھو جاؤں۔ میرے ارد گرد حسن و جمال کا نور پھیلا تھا اور میں اس میں تحلیل ہو رہا تھا۔ بے خودی کی نشاط انگیز ساعتوں میں وہ مجھ سے ہم کلام تھی۔

شاید دو گھنٹے گزر گئے محفل برخواست کرنے کی گھڑی آ گئی تھی اور مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے ابھی دو پل بھی نہ گزرے ہوں گے۔

جب مسٹر ڈیوڈ، پیٹر اور خواتین مجھے الوداع کہنے کے لیے آئیں تب سینڈرا مجھ سے یوں باتیں کر رہی تھی جیسے برسوں کی شناسا ہو۔

میں نے اذن رخصت لیا تو سینڈرا نے بڑے پیار سے کہا۔

”آپ صرف ایک شرط پر جا سکتے ہیں، یہ طے کر کے جائیں کہ دوبارہ کب آئیں گے؟ “

اس کی بات پر سب مسکرا اٹھے۔

”اگر یہ بات ہے تو میں کل ہی حاضر ہو جاؤں گا۔ “

”بیٹے میں ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ سینڈرا بہت جذباتی ہے۔ وہ ہر شے کو دل کی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ اگر وعدہ کیا ہے تو پورا بھی ضرور کرنا۔ “ اس کی والدہ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

اس روز میرے دل میں ایک انجانا سا جذبہ اترا تھا۔ میرا غم اور میری مسرت اسی روز پیدا ہوئے۔ سو اس طرح سینڈرا سے پہلی ملاقات اختتام کو پہنچی مگر اسی دن میرے دل کا دروازہ کھلا اور محبت دل کی مکین بن گئی۔

بہار کا موسم قریب قریب بیت چکا تھا میں پیٹر کے گھر جاتا رہا اور سینڈرا سے ملاقات ہوتی رہی۔ میں پہروں اس کے ملکوتی حسن میں کھویا رہتا۔ مجھے ایسا لگتا تھا جیسے کوئی غیر مرئی قوت مجھے اس کے قریب لیے جا رہی ہے۔ سینڈرا کی روح بھی حسین تھی اور جسم بھی۔ شاید میں لفظوں سے اس کے حسن کو بیان نہ کر پاؤں کیونکہ الفاظ اس کے حسن کا احاطہ نہیں کر سکتے۔

اس کے سنہری بال، نیلگوں آنکھیں، گلابی ہونٹ اور بے نقص وجود اپنی جگہ بے مثال تھا مگر اس کا اصل حسن اس کے سراپے کے تقدس، آنکھوں کی روشنی، لہجے کی مٹھاس اور شریف النفسی میں تھا۔

سینڈرا ہر وقت اتھاہ اداسی کا لبادہ اوڑھے ہوئے رکھتی تھی کہ جس سے اس کے حسن و جمال میں اور بھی اضافہ ہو جاتا تھا۔ بالکل مغربی افق کی طرح جو غروبِ آفتاب کی لالی سے اور بھی دلکش دکھائی دیتا ہے۔

سینڈرا سے ملاقاتیں جاری تھیں۔ ایک تعجب خیز بات تھی کہ پیٹر اور اس کے والدین ان لمحات میں دانستہ وہاں موجود نہیں رہتے تھے۔ بلکہ میں کبھی فون بھی کرتا تو رسیور سینڈرا کے حوالے کر دیا جاتا۔ ایک روز پیٹر نے مجھے ڈنر پر انوائٹ کیا۔ میں نے اس کی دعوت قبول کر لی۔ میں وقت سے کچھ پہلے پیٹر کے مکان پر پہنچا تو سینڈرا کو لان میں پایا۔ شام کا وقت تھا وہ ایک بنچ پر ٹیک لگائے چپ چاپ بیٹھی تھی۔ سفید ریشمی پیرہن میں وہ کسی دلہن کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ میں خاموشی سے آگے بڑھا اور اس کے قریب بیٹھ گیا۔ وہ میری طرف دیکھ کر دھیرے سے مسکرائی مگر خاموش رہی۔ ہم چپ چاپ نہ جانے کتنی دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔

تب میں نے سوچا کہ وہ بات کہہ دوں جسے ادا کرنے کے لیے میرے لب بے قرار ہیں۔ شاید سینڈرا بھی وہ الفاظ سننے کی منتظر ہو۔ میں نے اس کا مرمریں ہاتھ تھام کر اس سے کہا۔ ”سینڈرا میں چاہتا ہوں کہ تمہاری رفاقت مجھے عمر بھر کے لیے مل جائے۔ “

میرا خیال تھا کہ یہ بات سن کر اس کی آنکھوں کی قندیلیں روشن ہو جائیں گی لیکن اس کا رد عمل میری توقع سے یکسر مختلف تھا۔ اس نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں سے چھپا لیا اور لرزیدہ آواز میں بولی

”کاش ایسا ہو سکتا لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ “

”کیوں؟ میں اس انکار کی وجہ جاننا چاہتا ہوں۔ “

اس نے اپنا مرمریں ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا تو اسی لمحے میرے ہاتھ کی پشت پر ایک گرم گرم آنسو ٹپکا۔ میں نے نظریں اٹھائیں تو اس کی آنکھیں اشکوں کے موتی بکھیر رہی تھیں۔ مجھ پر المناک لرزہ طاری تھا۔ مجھے اپنا دل شدتِ غم سے ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ پھر وہ کسی زخمی پرندے کی طرح چیخ اٹھی۔ تڑپتی، کانپتی اور رندھی ہوئی آواز اس کے حلق سے ابھری۔

”کاش ہم ملے نہ ہوتے، ہم ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہی رہتے۔ “

میں عجیب و غریب کیفیت کا شکار تھا۔ یہ محبت کا کیسا روپ تھا۔ سینڈرا میرے لیے ایک معما بن گئی تھی۔ ”آخر وجہ کیا ہے؟ کیا تمہارے والدین کو اعتراض ہے یا پھر پیٹر؟ “ میں حد درجہ بے قرار تھا۔

”نہیں مجھے اعتراض ہے۔ وعدہ کریں کبھی مجھ سے ایسی بات نہیں کریں گے۔ میں بہت کمزور ہو چکی ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنے فیصلے پر قائم نہ رہ سکوں۔ “

”سینڈی میں تمہاری بات سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں یا شاید میری سمجھ بوجھ جواب دے چکی ہے لیکن خدارا ایسے مت کرو۔ “

”ٹھیک ہے میرے ساتھ آئیں“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

وہ میرا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھتی چلی گئی۔ پھر ہم ایک خواب گاہ میں داخل ہوئے۔ بہت خوبصورت کمرہ تھا جو انتہائی نفاست سے سجایا گیا تھا۔ دیواروں پر سینڈرا کی تصویروں کے ساتھ ساتھ چند مشہور گلوکاروں کی تصویریں بھی لگی تھیں۔ درمیان میں ایک بیڈ تھا۔ سینڈرا نے میرا ہاتھ چھوڑا اور بولی۔

”میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں۔ آپ جو بھی کہیں گے میں بالکل انکار نہیں کروں گی۔ آپ چاہیں تو میرے رگ و پے میں آگ بھردیں، چاہیں تو میرے جسم کا ریشہ ریشہ الگ کر دیں، چاہیں تو اپنے بازوؤں میں دبا کر مار ڈالیں میں اف تک نہیں کروں گی۔ “ وہ میرے سینے سے لگ گئی۔ اس کے بدن پر کپکپی طاری تھی۔

میرے حلق میں نمکین ذائقہ گھلنے لگا۔ میں نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔

”سینڈی تمہیں میرا ذرا بھی خیال نہیں، تم اگر مجھے نہ ملیں تو میں مر جاؤں گا۔ “

اس نے اپنا ہاتھ میرے ہونٹوں پر رکھ دیا۔ پھر اپنے آنسو پونچھ کر خود کو نارمل کیا اور آہستہ سے بولی۔

”کھانے کا وقت ہو گیا ہے، آئیں چلیں۔ “

ہم ڈائینگ روم میں آئے تو میز پر تکلف طعام اور مشروبات سے سجی ہوئی تھی۔ پیٹر، اس کی دادی اور والدین بھی آ چکے تھے۔ سینڈرا میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی۔ پیٹر کے والد نے دعا کی اور کھانا شروع کیا گیا۔ مجھ سے ایک نوالہ بھی نگلا نہیں جا رہا تھا۔ سینڈرا اصرار کر کے ایک چیز مجھے کھلاتی رہی۔

دمِ رخصت میں نے ذکر کیا کہ مجھے دو تین ہفتے کے لیے بیرونِ ملک جانا پڑے گا۔ پیٹر جانتا تھا کہ کمپنی کی طرف سے یہ بزنس ٹرپ تھا۔ سینڈرا کی آنکھیں نم آلود ہو گئیں۔ اس کے گلابی ہونٹ کپکپائے۔

”آپ اپنا پروگرام مؤخر نہیں کر سکتے۔ آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ روز مجھ سے ملنے آئیں گے۔ “

”میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر الفاظ لبوں کے درمیان گھٹ کر مر گئے۔ میں چپ چاپ واپس چلا آیا۔ فلائیٹ تین دن بعد کی تھی۔ کچھ انتظامات کرنے تھے۔ کئی بار دل چاہا کہ اسے فون کروں لیکن نمبر نہیں ملاتا تھا۔ اس کی کال آتی تو رسیو نہیں کرتا تھا۔ سوچتا تھا کہ اس سے کیا کہوں گا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ ابھی اس سے بات نہیں کروں گا۔ اس کے بارے میں نہیں سوچوں گا۔

تین ہفتے گزر گئے۔ وطن واپسی پر میری عجیب حالت تھی۔ میں جو کچھ سوچتا رہا تھا سب فضول لگ رہا تھا۔ بس ایک ہی خواہش تھی کہ فوراً سینڈرا سے ملوں اسے دیکھوں۔ ائیر پورٹ سے ہی ٹیکسی لی اور اپنے گھر کے بجائے اس کے گھر کا پتا بتایا۔

جب میں گیٹ سے اندر داخل ہوا تو فضا پر نامانوس سا سکوت طاری تھا۔ میں لان میں داخل ہوا تو میرا دل کسی انجانے خوف سے بری طرح دھڑک رہا تھا۔ گھر کے اندر داخل ہوا تو بہت سے لوگ دکھائی دیے۔ سب نے سیاہ لباس پہنے ہوئے تھے اور سب خاموش تھے۔ میری بے تاب نگاہیں سینڈرا کو ڈھونڈ رہی تھیں اور پھر میں نے اسے دیکھ لیا۔ وہ سب کے درمیان میں تھی۔ سفید لباس پہنے تابوت میں سوئی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر فرشتوں کی سی معصومیت تھی۔ موت بھی اس کا حسن نہ چھین سکی تھی۔

تب پیٹر آگے بڑھا اور میرے کندھے کا سہارا لے لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو قطار کی صورت گر رہے تھے۔

”وہ چلی گئی۔ ہم اسے روک نہیں پائے۔ اسے جانا تھا اور وہ چلی گئی۔ وہ موت سے نہیں ڈرتی تھی، رتی برابر بھی نہیں۔ موت سے چند لمحے پہلے تک بھی وہ مسکرا رہی تھی۔ اسے لنگز کینسر تھا، ڈاکٹرز نے بتا دیا تھا کہ محض چند ہفتے اور جئیے گی مگر اس نے کبھی کسی کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ اسے کیا روگ لگا ہے۔ آہ۔ “

پیٹر رندھے ہوئے لہجے میں نہ جانے کیا کہہ رہا تھا مگر مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ مجھے سب کچھ سمجھ آ رہا تھا۔ پیٹر کا رویہ، سینڈرا کا انکار۔ وہ مجھے دکھ سے بچانا چاہتی تھی اور میں اس کے لیے کچھ بھی نہ کر سکا۔ میرا دل بیٹھنے لگا۔ پیٹر نے مجھے سنبھالنے کی کوشش کی مگر میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).