آزاد نگاہیں


رشیدہ کو نقاب پہننے سے سخت نفرت تھی لیکن وہ اپنے شوہر عمران کے اصرار پر گھر سے باہر برقعہ اور نقاب کی پابندی کرتی تھی۔ آج اچانک عمران نے رشیدہ کو بتایا کہ اسے نقاب سے منہ ڈھانکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن رشیدہ نے جواب دیا کہ وہ نقاب پہن کر ہی باہر جائے گی۔ کل اس کو نقاب نے جو آزادی بخش دی تھی اسے وہ کسی بھی صورت میں کھونا نہیں چاہتی تھی۔ پھر رشیدہ کو ایک دم خیال آیا کہ شاید کل عمران نے اس کی حرکت کو نوٹ کر لیا تھا۔

رشیدہ کو عمران سے کوئی خاص انسیت نہیں تھی۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ رشیدہ کو فضول خرچی کی عادت تھی اور عمران کی آمدنی اسے اپنی عادت پورا کرنے کی اجازت دیتی تھی۔ اس کے علاوہ عمران بھی اسے کبھی فضول خرچی سے منع نہیں کرتا تھا۔

کبھی رشیدہ کو خیال آتا کہ شاید اسی لئے اس کے ماں باپ نے اس کی شادی عمران سے کر دی تا کہ وہ پیسے کی فراوانی میں جیئے۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اسے پیسے کے علاوہ محض ایک شوہر کی نہیں بلکہ ایک ساتھی کی بھی ضرودت ہے۔ انہوں نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا کہ اس کی اور عمران کی دلچسپیوں اور مزاج میں کوئی قدر مشترک ہے یا نہیں۔

رشیدہ کو عمران کا الھڑ پن اور بے رخی بہت بری لگتی تھی۔ اس کو شروع سے ہی ریّان پسند تھا۔ لکھا پڑھا سلجھا ہوا، بات چیت میں نرم، چہرے پر مسکراہٹ لیکن اس کی آمدنی اوسط درجے کی تھی۔ رشیدہ کبھی سوچتی تھی کہ اس کے ماں باپ کو یہ نہیں پتا تھاکہ وہ اپنے شوہر میں ان خوبیوں کے عوظ ایک اوسط درجے کی گھریلو عورت بن کر ہنسی خوشی جی سکتی تھی، اپنی فضول خرچی کی عادت پر قابو پا سکتی تھی، سادگی سے زندگی گزار سکتی تھی۔ ایک حقیقی ساتھی کے ساتھ، ایک ساتھی کی ذہنی قربت کے لئے۔ پھر وہ سوچ میں پڑ جاتی کہ اس کے ساتھ اچھا ہوا یا برا اور کیا وہ واقعی کم آمدنی میں خوش رہ سکتی تھی!

ریّان رشیدہ کا دور کا رشتے دار تھا۔ کبھی کبھار خاندان میں شادیوں کی محفلوں میں اس کا ریّان سے آمنا سامنا ہو جاتا تو وہ نظر جھکا کر سلام کر دیتی۔ اس سے آگے کوئی بات کبھی نہ ہی رشیدہ نے کی اور نہ ہی ریّان نے۔ شاید ریّان کو یہ پتا بھی نہ تھا کہ رشیدہ کے دل میں اس کے لئے ایک چنگاری تھی جسے وہ ساتھ لئے پھرتی تھی۔ وہ اس چنگاری کو بجھنے سے بچانے کے لئے پنکھا جھلکتی رہتی تھی کوئی رومانی افسانھ پڑھ کر، کوئی ڈرامہ یا فلم دیکھ کر۔ وہ کسی نہ کسی طرح کہانی کے ہیرو کا موازنہ ریّان سے کرنے لگتی تھی۔ رشیدہ نے اس کو ایک راز ہی رکھا خود تک محدود۔ وہ کسی بھی صورت میں اس راز کو اپنی شادی پر اثر انداز نہیں کرنا چاہتی تھی۔

ریّان اور اس کی بیوی رشیدہ کو ہمیشہ پرسکون نظر آتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرتے ہوئے یا خاموش بیٹھے ہوئے لیکن دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ رہتی تھی۔ رشیدہ انہیں دیکھ کر بے قرار ہو جاتی لیکن پھر اپنی شادی سے سمجھوتہ کر کے پریشانی کم کر لیتی۔

کل کا دن کتنا خوبصورت تھا! رشیدہ عمران کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پر اپنے بھائی کو لینے کے لئے گئی تھی۔ دور سے ایک جانی پہچانی شکل نظر آرہی تھی۔ وہ قریب آیا تو ریّان ہی تھا۔ رشیدہ کے دل کی دھڑکن تیز ہو چلی تھی۔ ریّان نے قریب آ کر عمران اور رشیدہ کو سلام کیا اور پھر کچھ رسمی جملوں کے بعد عمران کو بتایا کہ اس نے ہمارے گھر کے آس پاس ایک چھوٹا سا مکان خرید لیا ہے اور پھر دونوں آپس میں ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگ گئے۔

رشیدہ خاموشی سے ریّان کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ زندگی میں پہلی بار اسے نقاب اچھا لگ رہا تھا۔ آج کے بعد وہ چہرے پر نقاب خوشی سے پہنے گی۔ اگر ریّان اسے کبھی گھر کے آس پاس نظر آجائے تو وہ جی بھر کر اسے دیکھ سکتی تھی!

عمران کی عقابی نظر نے رشیدہ کی اس حرکت کو دیکھ لیا تھا۔ ایک الھڑ انسان ہونے کے باوجود اس نے کوئی رد عمل نہیں کیا۔ رات کو پلنگ پر لیٹے کافی دیر تک اس پر غور کرتا رہا۔ اس کو یہ اطمینان تھا کہ ریّان نے رشیدہ کی طرف صرف سلام کرتے ہوئے ایک بار ہی دیکھا تھا۔ یہ جو کچھ بھی تھا یک طرفہ تھا۔ لیکن وہ سوچتا رہا کہ اس میں کیا کمی ہے اور ریّان میں کیا خوبی ہے جو رشیدہ اس کی طرف اس طرح دیکھ رہی تھی۔

”کیا مجھے رشیدہ سے اس بارے میں بات کرنی چاہیے؟ لیکن اس سے دل کی بھڑاس نکالنے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ “

”یہ بلا ریّان ہمارے گھر کے پاس آکر بس گیا ہے۔ کیا مجھے رشیدہ کے اکیلے باہر جانے پر پابندی لگا دینی چاہیے؟ لیکن یہ ممکن نہیں۔ رشیدہ کو روز باہر کہیں نہ کہیں جانے کی عادت ہے۔ میں اسے گھر میں باندھ کر نہیں بٹھا سکتا۔ “

”کیا ہم خود دوسرے علاقے میں منتقل ہو جائیں؟ لیکن یہ بہت ہی مشکل اور مہنگا قدم ہے۔ “

اگلی صبح عمران نے ناشتے کے دوران رشیدہ سے کہا۔ ”تم نے ہمیشہ نقاب پہننے پر ناخوشی کا اظہار کیا ہے۔ آج سے تمہیں نقاب پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔ “

رشیدہ سٹپٹا سی گئی۔ ”لیکن اب مجھے نقاب اچھا لگتا ہے! “

”کل تک تو تمہیں اس سے نفرت تھی۔ جب ہم اسٹیشن جانے کے لئے نکلے تھے تو تم نقاب پہنتے ہوئے کچھ بڑبڑا رہی تھی۔ اب تمہیں ایک دم نقاب اچھا لگنے لگ گیا! “

پھر دونوں خاموش ہو کر ایک دوسرے کو گھورنے لگ گئے۔ رشیدہ عمران کی پر معنی نظروں کی تاب نہ لا سکی اور نگاہیں نیچی کر لیں۔

”تمہیں ریّان پسند ہے تو مجھے چھوڑ اس سے شادی کر سکتی ہو۔ “

”مجھے معاف کر دیں۔ میں نے آپ کا دل دُکھایا۔ مجھے اپنی حرکت پر ندامت ہے۔ “

”تم مجھے اپنے آنسؤوں سے بے وقوف نہیں بنا سکتی۔ میں تمہیں زبردستی اپنی بیوی بنا کر نہیں رکھنا چاہتا۔ “ عمران زور سے چلّا رہا تھا۔

رشیدہ کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ ”نہیں نہیں، میں ہمیشہ آپ کی بیوی بن کر رہنا چاہتی ہوں۔ “ وہ زندگی میں پہلی بار خود آگے بڑھ کر عمران سے لپٹ گئی۔ عمران نے اس کو آہستہ سے الگ کیا اور چپ چاپ دفتر چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).