مقدس مندر کے منحوس پجاری کا بیچارا بت


اس وقت دنیا بھر میں کم و بیش دو سو مندر تھے جن میں سے ایک مندر میں اس وقت پرتعیش کمرے میں مندر کا پجاری اس کے چیلے کھانے پینے کے ساتھ ساتھ بہت پریشانی کے عالم میں بیٹھے ہوئے تھے۔

دنیا بھر کے ان دو سو مندروں میں الگ الگ قسموں اور صورتوں کے بت رکھے ہوئے تھے لیکن ان سب مندروں کے پجاریوں کا عقیدہ ایک ہی تھا اس عقیدہ کے مطابق طاقت ہی اصل مذہب تھا اور اس طاقت کو حاصل کرنے کے لئے یہ پجاری طاقتور مردوں کو بہترین ہتیھار سے آراستہ کرتے اور طاقتور مردوں کو ان کی طاقت اور ان کی عددی قوت کے لحاظ سے پیسہ زمین جائیداد عورت دیتے اور زمین پیسہ عورت ہی ان پجاریوں کی کمائی اور ان کا کاروبار تھا اس مندر میں یہ جو پجاری بیٹھے ہوئے تھے ان میں ایک ان کا بڑا پجاری تھا اور اس کے ساتھ اس کے مددگار پجاری تھے ہر مندر کا اپنا نظام تھا کسی مندر میں بڑا پجاری منتخب ہوتا تھا کسی مندر میں طاقت کے زور پر بڑا پجاری بن جاتا تھا اور چند مندروں میں بڑا پجاری زائرین کی مرضی سے بنایا جاتا تھا۔

اس مندر میں بڑا پجاری تین سال کے لئے بنایا جاتا تھا لیکن جو بھی بڑا پجاری بن جاتا پھر وہ کسی اور کو اپنی جگہ دینے کو تیار نہی ہوتا تھا اس وقت بھی اس اجلاس میں یہی مسئلہ درپیش تھا موجودہ پجاری نے ایک چال چلی تھی اس نے بڑا پجاری بنتے کے ساتھ ہی زائرین کو باور کروایا کے مندر میں پڑے پرانے بت بے اثر ہوچکے ہیں اور شاید ایشور بھی چاہتا ہے کہ نیا شاندار بت اس مندر میں لگایا جائے۔

پجاری نے زائرین کو بتایا کہ نیا بت لگانے سے باقی مندروں کے زائرین بھی اس مندر میں آنا شروع ہو جائیں گے کیونکہ اسے خواب آیا ہے کہ یہ نیا بت بہت خوبصورت ہوگا اور ایشور کو بہت پسند ہوگا اور پھر میں اس بت کو بناتے وقت بہت خاص پوشیدہ عمل کرونگا جس سے جو زائر بھی اس بت سے جو بھی مانگے گا وہ اس کو فوراً مل جائے گا۔

پجاری نے بت بنایا اور لوگوں کو بت پسند بھی بہت آیا خاص طور پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تو اس بت پر فدا ہو ہو جارہی تھیں۔

اس بت کو شہر شہر قصبہ قصبہ گھمایا گیا لوگوں نے خوب جشن منایا نوجوان خوبصورت لڑکیوں کا چڑھاوا چڑھایا گیا سونے چاندی ہیروں جواہرات کو دان کیا گیا پجاری بہت خوش تھا کہ لوگ مر مٹے ہیں اس بت پر اب جب تک اس کی زندگی ہے وہ اس مندر کا پجاری رہے گا کیونکہ یہ بت تو اس کا ذاتی ہے اس کو امید تھی کہ اب ساری زندگی پیسہ لڑکیاں زمین اس کے مندر میں دان کی صورت اکٹھی ہوتی رہے گی۔

لیکن پھر جب اس نے بھرپور جشن کے ساتھ اس بت کو مندر میں نصب کیا تو اس سے اگلے ہی دن کوئی لمحہ ایسا نہیں تھا جب کوئی بڑے نقصان تباہی یا آفت کی خبر نا آرہی ہو مندر کی صدیوں پرانی زمین تک ساتھ کے مندر کے پجاریوں نے ہتھیانی شروع کر دی تھی مندر کے بہت پوشیدہ خزانوں میں پر اسرار چوریاں ہونی شروع ہوگئی تھیں۔

سب سے بھیانک بات یہ تھی کے جو اثاثے جمع شدہ تھے وہ مندر کی دیکھ بھال اور مندر کے رکھوالوں کی خاطر داری پر خرچ ہوتے جارہے تھے جبکہ زائرین جیسے مندر آنا بھول گئے تھے ایسا لگتا تھا کے زائرین کو جیسے مندر سے نفرت ہوگئی تھی۔

یہ ساری صورتحال بڑے پجاری کے لئے بہت خوفناک تھی اس کو اپنی سیٹ حتیٰ کہ زندگی بھی خطرے میں محسوس ہورہی تھی۔

اس اجلاس میں بڑا پجاری اپنے مددگار پجاریوں سے اس درپیش مسئلہ کا حل پوچھ رہا تھا کیونکہ اس کو اب کچھ سمجھ نہی آرہا تھا اس کو یہ تو یقین ہوگیا تھا کے یہ بت بہت منحوس ہے لیکن وہ اب اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ اس بت کو بدل سکتا جس کے ایشور کو پسند ہونے کی اس نے خود قسم کھائی تھی۔

جبکہ اس کے مددگار پجاری اس اجلاس میں بس کھانے پینے اور جی حضوری کے لئے آئے تھے ورنہ ان سب کا مشترکہ یقین تھا کہ صرف بت ہی منحوس نہیں ہے یہ پجاری بھی منحوس ثابت ہوا ہے اور ان کو ڈر تھا کہ ہزاروں سال سے چلتا یہ نظام ہی تباہ نا ہو جائے اور کہیں زائرین کو یہ سمجھ نا آجائے کہ پجاری اور بت کسی کام کے نہیں ہوتے الٹا یہ ہماری طاقت پیسہ اور عورتوں کو اپنی عیاشی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

یہ مددگار پجاری دل میں دعا کر رہے تھے کہ بڑا پجاری یا تو خود بھاگ جائے ڈر کے یا کوئی مایوس زائر اس کو مار ڈالے یا پھر آخر تنگ آکر ہم کو ہی اس کو مارنا پڑے گا۔

تھوڑے دنوں کے بعد اس مندر کہانی کا انجام بھی میں سوچ لونگا تب تک قارئین دوسرے مندروں کے نظام کو بغور پڑھیں، سنیں اور دیکھیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).