ہم کشتی میں سوار ہیں


اس سے زیادہ قابل رشک زندگی کیا ہو سکتی ہے! ملک ارشاد کو جب بھی دیکھتا، ذہن میں خیال آتا کہ کیا کامیاب شخص ہے! ملک کے تین شہروں میں اپنے گھر! چمکتا کاروبار! ایک فلیٹ دبئی میں! بیٹے دونوں بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے! مالی آسودگی! چہرے پر طمانیت کی روشنی! حسد تو اس سے کبھی نہیں کیا۔ خدا حسد سے بچائے۔ رشک ضرور کیا اور ہمیشہ کیا! پھر ایک دن ایک ریستوران میں چائے پیتے ہوئے ملک ارشاد، دیکھتے ہی دیکھتے ٹوٹنا شروع ہو گیا ٹوٹتے ٹوٹتے ریزہ ریزہ ہو گیا۔

ایک ایک رنگ بکھر گیا۔ پہلے رویا! پھر ہچکی بندھ گئی! کہنے لگا یار! میں بہت دکھی ہوں! کسی سے شیئر بھی نہیں کر سکتا۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے پاؤں تلے سے ریت سرکنے لگی! میں تو ارشاد کو اپنا آئیڈیل سمجھتا تھا۔ کامیابی کا سمبل! مالی آسودگی اور ذہنی اطمینان کا مرقع! مگر آج میری آنکھوں کے سامنے میرا آئیڈیل دھڑام سے نیچے گر گیا تھا! اس نے اپنا دکھ شیئر کیا۔ بڑے بیٹے کو تعلیم مکمل کرنے پر ایک بین الاقوامی ادارے میں ملازمت مل گئی تھی!

بہت اچھی ملازمت! ایک روسی عورت وہاں اس کی باس تھی! باپ کو اس نے بتایا کہ وہ اس سے شادی کر رہا ہے اور پھر دونوں میاں بیوی اپنا تبادلہ سینٹ پیٹرز برگ کروا رہے ہیں جہاں مستقل قیام رکھیں گے۔ باپ نے منع کیا۔ بیٹے نے ضد کی اور شادی کر لی۔ باپ نے عاق کرنے کی دھمکی دی! بیٹے نے کہا آپ کیا عاق کریں گے میں خود ہی آپ سے تعلق نہیں رکھنا چاہتا! نہ پاکستان آنے کا ارادہ ہے! گویا باپ نے بیٹے کو نہیں، بیٹے نے باپ کو عاق کر دیا!

آپ کا کیا خیال ہے جو درخت ہمیں جھومتے نظر آتے ہیں۔ اندر سے خوش ہوتے ہیں؟ ضروری نہیں! اندر سے کھائے ہوئے بھی ہو سکتے ہیں۔ ہر دمکتی چیز سونا نہیں! المیہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو دیکھتے ہیں! اپنے آپ کو نہیں دیکھتے! ہم پر جو قدرت کے انعامات ہیں، وہ نہیں نظر آتے! ہم سب نے یہ واقعہ سینکڑوں بار پڑھا! سنا اور سنایا کہ ایک صاحب بغیر جوتوں کے برہنہ پا سفر کر رہے تھے شاکی تھے کہ جوتے نہیں! ایک شخص کو دیکھا کہ پابریدہ تھا!

سجدہ شکر ادا کیا! یہ جو ہم چل پھر رہے ہیں یہ جو ہمارے اعضا سلامت ہیں! یہ جو سانس اندر جا کر باہر آ رہا ہے! یہ جو گردے کام کر رہے ہیں، یہ جو جگر صحت مند ہے۔ یہ جو پیروں کی انگلیوں میں درد نہیں ہو رہا۔ یہ جو بھوک لگ رہی ہے، یہ جو ہرے پودینے کی چٹنی اور اس کی مہک لطف دے رہی ہے، یہ جو سر چھپانے کے لئے چھت میسر ہے۔ یہ ساری نعمتیں وہ ہیں جن سے بہت لوگ محروم ہیں! مگر کیا ہم ان کا شکر ادا کر رہے ہیں؟

کبھی کسی ہسپتال جا کر گردوں کے مریضوں کو دیکھ کر آئیے! مشینوں سے ان کے گردے صاف کیے جا رہے ہیں! رنگ ان کے زرد ہیں۔ گال ان کے پچکے ہوئے ہیں! ہفتے میں تین بار اس دردانگیز عمل سے گزرتے ہیں! کبھی کسی ایسے شخص سے ملیے جس کے گھٹنے مصنوعی لگ رہے ہیں اس سرجری میں درد اس قدر ظالم ہوتاہے کہ کوئی پین کلر کام نہیں کرتا! چھ لاکھ یا آٹھ لاکھ کا ایک گھٹنا لگتا ہے! ہم ہمیشہ دوسروں کی آسودگی پر نظر رکھتے ہیں!

فلاں کے پاس فلاں گاڑی ہے فلاں کے اتنے محلات ہیں! فلاں کا زبردست کاروبار ہے! فلاں اقتدار میں ہے مگر یہ نہیں دیکھتے کہ لامحدود دولت کا مالک، جس کے اثاثے کرہ ارض پر ٹڈی دل کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ کھانے میں ذرا سی بھنڈی اور آدھا پاؤ دہی کھاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے کچھ راس نہیں آتا! ٹرک ہوٹل کے اس مزدور کو دیکھیے جو تین روٹیاں کنگ سائز سالن کی پلیٹ کے ساتھ کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے! ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے بچے دوسرے ملکوں کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر، کوئی جاپان میں بزنس کر رہا ہے کوئی برطانیہ میں اعلیٰ منصب پر فائز ہے!

کوئی آسٹریلیا میں طبیبِ حاذق ہے اور کوئی امریکہ کی سلی کان ویلی میں امریکہ کے لئے اتنا ہی ضروری ہو گیا ہے جتنی جسم کے لئے ریڑھ کی ہڈی! مگر اپنے اس، معاشی لحاظ سے، کمتر، رشتہ دارکو بھی دیکھیے کہ وہ کتنا خورسند ہے جس کے بیٹے دس بارہ جماعتوں سے آگے نہیں بڑھے۔ معمولی ملازمتیں کر رہے ہیں، کوئی دکان ڈالے ہے، کوئی کسی وکیل کا پیش کار ہے۔ مگر شام کو سب ایک ہی صحن میں ہیں، ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔

بہو سسر کی خدمت کر رہی ہے۔ بیٹا ہر روز سونے سے پہلے ماں کے پاؤں دابتا ہے! تو فائدے میں کون رہا؟ اورگھاٹے میں کون؟ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بیرونی ملکوں میں مقیم بچے بھی اللہ کی نعمت ہیں۔ شکر اس پر بھی واجب ہے مگر کسی آسودگی کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خوش ہے اور کسی کی کم آمدنی یا کم حیثیت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ناخوش ہے یا کم خوش قسمت ہے! کلام پاک میں اللہ تعالیٰ نے جس شخص (ولید بن مغیرہ) کو اپنی نعمتیں گنوائی ہیں اسے مال اور اقتدار کے ساتھ یہ بھی جتلایا کہ اسے ایسے بیٹے عطا کیے جو اس کے پاس حاضررہنے والے ہیں!

اس کالم نگار کے دادا نے اپنے چاروں بیٹوں کو پڑھایا لکھایا۔ اس زمانے میں جس کے چار بیٹے ہل چلاتے تھے۔ اسے بڑا زمیندار سمجھا جاتا تھا۔ مگر وہ پڑھ لکھ کر ہل کیا چلاتے، گاؤں سے دور مختلف شہروں میں ملازمتیں کرنے لگ گئے۔ گاؤں میں موچیوں کا ایک خاندان تھا۔ گاؤں کے شروع میں ایک کمرے میں یہ پانچ چھ بھائی اکٹھے بیٹھ کر جوتے بناتے تھے۔ ہمارے تایا مرحوم جب بھی چھٹی آتے، ان کا ذکر رشک کے ساتھ کرتے کہ ہم سے یہ ان پڑھ موچی اچھے ہیں کہ سب ایک جگہ اکٹھے بیٹھ کر کام کرتے ہیں اور شام کا کھانا اپنے والد کے ساتھ کھاتے ہیں۔

اس پر بھی غور کیجیے کہ ہمیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے، کوئی دھچکہ لگتا ہے تو اس کا مثبت پہلو کیا ہے؟ ہم قدرت کی عطا کردہ نعمتوں میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ ان کی قدر کرتے ہیں نہ ان کی موجودگی کا احساس رہتا ہے! ہماری نماز کھوکھلی، بے اثر اور روٹین ہو جاتی ہے! ہم اردگرد کے سسکتے ہوئے ضرورت مندوں سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ پھر خدا وندقدوس، ہمیں اپنے نزدیک لانے کے لئے ہمیں جھنجھوڑتا ہے۔ ہمارا یا ہمارے کسی پیارے کا خون کا ٹیسٹ مشکوک نکلتا ہے۔

کوئی عزیز بیمار پڑ جاتا ہے، ہمیں کوئی مالی ٹھوکر لگتی ہے، تب ہم جھرجھری لے کر، ہڑ بڑا کر اپنے آپ میں آتے ہیں۔ تب ہماری دعاؤں میں رقت پیدا ہوتی ہے! ہماری نمازوں میں خشوع کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ ہم اپنے مال، اپنی خوراک میں مستحقین کو حصہ دار بناتے ہیں! تب ہمیں یاد آتا ہے کہ ایک شق خدائی آئین کی ”طعامُ المسکین“ بھی ہے جس کا معمول کی زکوٰۃ، صدقات، خیرات اور فطرانے سے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ اس کا ذکر، ان سب سے الگ کیا گیا ہے اور اصرار کے ساتھ کیا گیا ہے! سعدی یاد آ گئے، کشتی دریا میں محو سفر تھی۔ ایک شخص خوف زدہ تھا۔ بدن کانپ رہا تھا اورنالہ و فریاد کر رہا تھا کہ ڈوب جاؤں گا۔ ایک عقل مند مسافر نے اسے دریا میں ڈالا۔ غوطے کھلائے۔ پھر بالوں سے کھینچ کر واپس کشتی میں بٹھایا تو آرام سے بیٹھ گیا۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).