میدانِ کربل میں تنہا حسینؑ!


تاریخ میں ذکر ہے کہ جب یزید نے مدینہ میں حضرت امام حسینؑ پر بیعت کے لیے دباؤ بڑہایا تو امامؑ، مدینہ کو چھوڑ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں پر 4 ماہ سے زائد عرصہ قیام کیا اور جب حج کا ارادہ کرتے ہوئے احرام بھی باندھ لیا تو یزید نے عمرو بن عاص کو ایک لشکر کے ساتھ حاجیوں کے لباس میں مکہ بھیجا اور اسے حکم دیا کہ اگر حسینؑ خانہ کعبہ کے پردوں میں بھی ہوں، تب بھی انہیں قتل کردو۔ امامؑ تک جب یہ خبر پہنچی تو انہوں نے 8 ذی الحج کو حج تمتع کو عمرہ مفردہ میں بدل دیا اور احرام حج کھول دیے، تاکہ ان کے خون سے کعبہ کی حرمت پامال نہ ہو۔

آٹھ ذوالحج کے دن کو یومِ ترویہ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور اس دن مکہ میں لاکھوں مسلمان حج کے لیے موجود تھے۔ وہاں پر امامؑ نے ان سے مدد مانگی اور کہا کہ آؤ میرے ساتھ چلو اور میرا ساتھ دو، لیکن حاجیوں نے نظر انداز کردیا۔ یہ سن 60 ہجری کے حج کا واقعہ ہے کہ جس دن نبیؐ کا نواسہ مکہ ترک کر کے کوفہ کی جانب روانہ ہوا تو اُسی دن نبیؐ کی امت عبادت انجام دینے کے لئے میدانِ عرفہ کی طرف روانہ ہوئی!

قصہ مختصر، مختلف منازل طے کرتے ہوئے جب امام حسینؑ کربلا کے مقام پر پہنچے تو وہیں پر اپنا پڑاؤ ڈالا۔ دونوں فریق مدمقابل تھے، اس دوران بات چیت چلتی رہی، تمام کوششیں ناکام ہوئیں اور بالآخر بات جنگ پر آن پہنچی۔ روایت ہے کہ 9 محرم بوقت عصر میدانِ کربلا میں عمر بن سعد کی فوج کی نقل و حرکت بڑھ گئی اور اس نے اپنی سپاہ کو حضرت امام حسینؑ کے خلاف جنگ کی تیاری کا حکم دیتے ہوئے لشکر میں منادی کروادی کہ ”یا خیل اللہ ارکبی و بالجنۃ ابشری“

ترجمہ: اے خدا کے لشکریو، سوار ہوجاؤ کہ میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں۔

امامؑ نے ایک دن کی مہلت مانگی۔ 10 محرم کی صبح ہوئی تو میدان کربلا میں ایک طرف امام حسینؑ کی امامت میں نماز ادا کی گئی تو دوسری طرف امت نے عمر سعد کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ امام حسینؑ نے اتمام حجت کے لیے دشمن کی صفوں کی طرف رخ کیا اور ان سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ ”اے لوگو! میں تمہارے نبیؐ کا نواسہ اور اس کے چچیرے بھائی علیؑ کا بیٹا ہوں، میرے ساتھ جلدی نہ کرو، پہلے میری بات سن لو۔ کیا تمہیں رسول اللہ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ دونوں جوانانِ جنت کے سردار ہوں گے اور کیا تم اس حدیث کی موجودگی میں بھی میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے؟ “

لیکن ان تمام باتوں کا مخالفین اور ان کے سرداروں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جنگ شروع ہوئی، 30 ہزار کے لشکر کے سامنے 72 مدمقابل تھے، شہادتیں ہوتی رہیں اور نماز ظہر کا وقت ہوگیا۔ روایت ہے کہ نماز ظہر کا وقت ہوتے ہی ابو ثمامہ صائدی نے امامؑ کو نماز کا وقت ہونے کی یاد دہانی کرائی۔ امامؑ نے سر آسمان کی طرف اٹھایا اور اس کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: ”ان سے کہو کہ ہمیں نماز پڑھنے کی مہلت دیں“ اس وقت ابن سعد کی فوج میں سے حصین بن نمیر نامی شخص نے بلند آواز سے کہا: ”حسین کی نماز قبول نہیں ہوگی“ حبیب بن مظاہر کو اس بات پر غصہ آیا اور چلایا اور کہا: ”تم یہ خیال کرتے ہو کہ آل رسولؐ کی نماز قبول نہیں ہوگی اور تم گدھے کی نماز قبول ہوگی“

بعد ازاں نبیؐ کے نواسے اپنی ہی امت کے ہاتھوں شہید کردیے گئے اور امت کی وحشتوں کا یہ عالم تھا کہ شہدا کے سر تن سے جدا کرکے ابدان پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ لالچ کا یہ عالم کہ سروں کی تقسیم کے لیے آپس میں لڑنے لگے۔ بلاذری، دینوری، طبری، شیخ مفید، خوارزمی اور ابن نما، نے سروں کی تعداد امام حسین کے سر مبارک کو شامل کیے بغیر 72 لکھی ہے، جن کو لشکر یزید میں شامل قبائل بنو کندہ، بنو ہوازن، بنو تمیم، بنو اسد، بنو مذحج و دیگر میں کارکردگی کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا۔ یہ سب شہداء کے سروں کو غنیمت کے طور لیتے تھے تاکہ انہیں ابن زیاد اور یزید کے روبرو پیش کرکے انعام پائیں۔

تاریخ میں آیا ہے کہ جب شام کے دربار میں حسینؑ ابن علیؑ کا سر مبارک طشت میں رکھ کر یزید کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے امام حسینؑ کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوئے اپنے کچھ اشعار پڑھے، جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے :

کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے، شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کا انتقام لے لیا
۔ دمع السجوم ص 252

پہلی تاریخ اشاعت: Sep 10, 2019


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).