بڑودہ میں سیلاب، ریلوے کی تعمیر نو اور بھگت کبیر کا جزیرہ


اس جگہ کی ایک اور چیز قابل دید ہے کیونکہ وہاں دریا نربدا ایک جزیرہ کی شکل میں بہتا ہے۔ وہاں وہ جگہ بڑ بھگت کبیر کے نام سے موسوم ہے۔ کبیر بڑھ کا رقبہ قریباً چار مربع میل ہے۔ کشتی میں بیٹھ کر وہاں جانا پڑتا ہے۔ وہاں پر بڑ کے درخت اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ اصل بڑ کا پتہ ہی نہیں چلتا یعنی اصل بڑ کا پیڑ کونسا ہے۔ سنا گیا ہے کہ بھگت کبیر صاحب نے بڑ کی مسواک کرنے کے بعد وہاں پر گاڑ دی جو کچھ عرصہ بعد درخت کی شکل اختیار کر گئی۔

 خیر یہ بات قابل قبول ہے کہ بڑ کی شاخ لگانے سے درخت بن جاتا ہے۔ ویسے بھگت کبیر مسلمانوں اور ہندوؤں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور تھے بھی فقیر اور عبادت گزار۔ لیکن ہندوؤں نے اب ان کا بت بنا کر وہاں پر مندر بنا کر اس میں رکھا ہوا ہے جس پر چڑھاوے چڑھتے ہیں اور مرادیں طلب کی جاتی ہیں جیسا کہ ہم ہندوستانیوں کا عام رواج ہے۔

1930 ء کے شروع میں میں نے اپنی فیملی بھی وہاں منگا لی تھی۔ بڑودہ میں میں نے دو دفعہ سینما دیکھا۔ اس سے پہلے 1920ء میں ایک بار بصرہ میں دیکھا ورنہ اتنے شہروں اور علاقوں کی سیر کی لیکن سینما وغیرہ سے بچتا ہی رہا۔

بڑودہ کی اور کوئی خاص قابل تعریف چیز نہیں ۔ بیوپار اور کاروبار کے لحاظ سے باقی دوسرے شہروں سے بہت پیچھے ہے۔ البتہ وہاں کی ریاست کا چڑیا گھر اور مردہ جانوروں کی کھالوں کا عجائب گھر قابل دید ہے۔ ہر ہفتہ اور اتوار کی شام کو وہاں کی قوالی دیکھنے سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ بڑودہ ریاست کا اپنا کالج اور سکول ہے۔ وہاں پر لڑکے لڑکیوں کی تعلیم مشترکہ ہے۔ سکول اورکالج کے لڑکے لڑکیوں کا ناچ گانا، جس کو گجراتی میں گربا کہتے ہیں ، دل کو بہت لبھانے والا ہوتا ہے۔

 بڑودہ شہر کی آبادی دن بدن بہت بڑھتی جا رہی ہے۔ ریاست تعلیم کے لحاظ سے میرے خیال میں سب ہندوستان سے بالاتر ہے۔ دسہرہ اور محرم کے روز ریاست کی طرف سے ہاتھیوں کا جلوس نکلتا ہے۔ سونے اور چاندی کی توپیں بھی جلوس کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ جلوس بڑا شان دار اور پررونق ہوتا ہے۔ بڑودہ شہر کے ٹانگے بہت عمدہ اور نفیس ہوتے ہیں ۔ بڑودہ میں تمام لوگ اکثر کرکے بارہ ماہ مکانوں کے اندر ہی سوتے ہیں کیونکہ رات کو شبنم بہت پڑتی ہے۔ ریاست کے راجہ کے محل بہت اعلیٰ اور خوبصورت ہیں ۔ ریاست کی اپنی ڈھائی فٹ کی ریلوے لائین ہے جس کی کل لمبائی جمع کرنے پر تقریباً 900 سے 1000 میل کے برابر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3