سیانے چوہے کی شادی اور ڈیل کرنے سے توبہ


”یہ تو میرا ایک لقمہ بھی نہیں ہے۔ اور مجھے چاول، روٹیاں، انڈے اور شکر چاہیے۔ مجھے یہ سب نہ ملا تو میں مر جاؤں گی“۔ دلہن روہانسی ہو کر بولی۔
چوہے کو بہت غصہ چڑھا اور وہ بولا ”یہ بیویاں بھی کتنی بڑی مصیبت ہوتی ہیں۔ ایسی بات ہے تو تم جنگلی آلوچے کھا لو“۔

”میں جنگلی آلوچے کھا کر زندہ نہیں رہ سکتی۔ کوئی بھی نہیں رہ سکتا۔ ویسے بھی یہ پھل کچے ہیں اور میں انہیں نہیں کھا سکتی“ دلہن رونے لگی۔
”کچے ہوں یا پکے، آج تمہیں یہی کھانے ہوں گے۔ اور کل تم ان کی ٹوکری بھر کر شہر لے جا سکتی ہو اور انہیں بیچ کر شکر، انڈے اور جو جی چاہے سب الم غلم خرید لینا۔ “ سیانے چوہے نے کہا۔

اگلی صبح سیانا چوہا آلوچے کے درخت پر چڑھا اور اس نے بہت سے کچے آلوچے دلہن کی جھولی میں گرا دیے۔ دلہن انہیں لے کر شہر گئی اور آوازیں لگا کر بیچنے لگی ”کچے آلوچے، کچے آلوچے لے لو، میں شہزادی ہوں اور چوہے کی دلہن بھی“۔

جب وہ شاہی محل کے پاس سے گزری تو اس کی ماں، یعنی ملکہ نے اس کی آواز پہچان لی۔ وہ شہزادی کے جنگل میں گم جانے پر رو پیٹ رہی تھی کہ اسے جنگلی جانور کھا پی کر برابر کر چکے ہوں گے۔ ملکہ بھاگی بھاگی باہر آئی اور شہزادی کو محل کے اندر لے گئی اور سب خوشیاں منانے لگے۔

چوہا کچھ فاصلے سے اپنی دلہن کا تعاقب کر رہا تھا۔ پہلے پہل تو وہ خوش ہوا کہ دلہن تمام آلوچے بیچنے محل میں گئی ہے لیکن جب بہت دیر ہو گئی اور دلہن باہر نہ نکلی تو وہ پریشان ہونا شروع ہو گیا۔

وہ محل کے دروازے پر پہنچا اور ایک ڈنڈے سے دروازہ کھٹکھٹانے اور شور مچانے لگا۔ ”مجھے میری دلہن واپس کرو۔ مجھے میری دلہن واپس کرو۔ میں نے ڈیل کر کے اسے حاصل کیا ہے۔ میں نے ایک چھوٹی سی لکڑی کے بدلے آٹے کے پیڑے کی ڈیل کی، آٹے کے پیڑے کے بدلے مٹی کی بہترین ہنڈیا کی ڈیل کی، مٹی کی ہنڈیا کے بدلے ایک خوب پلی ہوئی بھینس کی ڈیل کی، اور بھینس کے بدلے یہ دلہن لی ہے۔ مجھے میری دلہن واپس کرو“۔

چالاک ملکہ نے دروازے کے پیچھے سے کہا ”تم کتنے فسادی ہو داماد جی۔ اور یہ فساد بھی بلاوجہ کا ہے۔ تمہاری دلہن لے کر کون بھاگا جا رہا ہے۔ ہم تو تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہیں اور دروازے پر تمہیں اس لئے انتظار کروا رہے ہیں تاکہ ہم تمہارے راستے میں پھول بچھا سکیں اور شایان شان طریقے سے تمہارا استقبال کریں“۔

یہ سن کر سیانے چوہے کو کچھ تسلی ہوئی اور وہ صبر سے باہر انتظار کرنے لگا۔ اندر مکار ملکہ نے اس کے استقبال کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس نے ایک کرسی میں سوراخ کیا، اس کے نیچے ایک توا رکھا اور اس کے نیچے آگ جلا کر اسے لال کر دیا۔ کرسی پر اس نے ایک خوبصورت کپڑا بچھایا اور پھر اس نے جا کر دروازہ کھولا اور سیانے چوہے کو نہایت عزت اور احترام سے اندر لا کر اس سے کرسی پر بیٹھنے کی التجا کی۔

سیانا چوہا اپنا اتنا شاندار استقبال دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ وہ خود سے کہنے لگا ”واہ واہ، میں کتنا سیانا ہوں، میں کتنا خوش قسمت ہوں، میں کتنی اچھِی ڈیل کرتا ہوں۔ اب میں ایک اصلی ملکہ کا داماد بن گیا ہوں۔ میرے سارے ہمسائے مجھ پر کتنا رشک کریں گے“۔

وہ پھول کر کپا ہو گیا اور سینہ پھلا کر بہت فخر سے کرسی کے کنارے پر ٹک کر بیٹھ گیا۔ لیکن کنارہ بھی گرم ہو رہا تھا، کچھ دیر میں اس کے پسینے چھوٹنے لگے۔ اس نے ملکہ کو کہا ”ملکہ ملکہ تمہارا محل کتنا گرم ہے۔ جس چیز کو بھی میں چھوتا ہوں وہ جلتی ہوئی لگتی ہے“۔

مکار ملکہ بولی ”تمہیں ٹھیک سے ہوا نہیں لگ رہی ہے داماد جی۔ کرسی کے درمیان میں بیٹھو، وہاں ہوا ٹھیک سے لگے گی۔ “

دلہن پاس ہی بیٹھی تھی، وہ کہنے لگی ”میرے میاں بہت بہادر ہیں، انہیں تھوڑی بہت گرمی سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ یہ تو اتنے جی دار ہیں کہ ایک پوری بھینس کو جنگل میں لئے لئے پھرے تھے، پھر بھلا معمولی سی گرمی سے کیوں گھبرائیں گے؟ “

سیانا چوہا یہ سن کر اور اکڑ گیا۔ وہ کھسک کر کرسی کے درمیان ہوا اور سیدھا جلتے ہوئے توے پر بیٹھ گیا۔ اس کی دم اور کولہے جلنے لگے مگر سسرال میں عزت کا معاملہ تھا، اس کی نئی نویلی دلہن بھی اسے دیکھ رہی تھی، وہ کیسے اٹھتا اور اپنی بے عزتی کرواتا۔

وہ جلن برداشت کرتا رہا۔ لیکن جب اس کی دم جل کر جھڑ گئی، کولہوں اور کمر کھال اتر گئی اور ہر طرف جلنے کی بو پھیل گئی تو معاملہ اس کی برداشت سے باہر ہو گیا۔ وہ اپنی دلہن کو وہیں چھوڑ کر درد سے چیختا ہوا باہر بھاگا اور اس نے دوبارہ شہر میں آنے اور آئندہ کوئی بھی ڈیل کرنے سے توبہ کر لی۔

پس پیارے بچو، اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر وقت ڈیل لینے یا دینے کے بارے میں نہیں سوچتے رہنا چاہیے۔
ایک قدیم دیسی حکایت۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar