ازدواجی ریپ کا شکار بھارتی خاتون کی تنہا جنگ


بھارت کے کچھ سیاسی رہنماؤں کی اس رائے کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ ازدواجی ریپ (شوہر کی جانب سے بیوی کو جنسی تعلقات پر مجبور کرنا) کو قابل جرم سزا قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بھارت میں میں شادیوں کو متبرک سمجھا جاتا ہے۔ بی بی سی ہندی کے پارول اگروال کی رپورٹ۔

چہرے کو کپڑے سے ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی شناخت کو چھپاتی رشمی، جنھیں ہم نے کیمرے پر انٹرویو دینے کے لیے تیار کیا۔ رشمی (جو اُن کا فرضی نام ہے) کا کہنا ہے کہ ’اگر میرے شوہر نے مجھے دیکھ لیا تو وہ مجھے اُٹھا کر باہر پھینک دے گا۔‘

ازدواجی ریپ کا شکار ہونے والی 25 سالہ رشمی انصاف کے حصول کی جنگ تنہا ہی لڑ رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اُس کے لیے صرف ایک کھلونا ہوں جسے وہ رات میں مختلف طریقوں سے استعمال کر سکے۔ جب کبھی بھی ہماری لڑائی ہوتی ہے وہ مجھے بیڈ پر لے آتا ہے۔ ایسے اوقات بھی آئے، جب میں نے اُسے سے کہا کہ میرے قریب نہ آؤ کیونکہ میری طبعیت خراب ہے لیکن وہ اس نہ کو نہیں سمھجتا، یہاں تک ماہواری کے دنوں میں بھی۔‘

بھارت میں شوہر کی جانب سے اپنی بیوی کو جبراً ہم بستری پر مجبور کرنا جرم نہیں ہے۔ کئی افراد کا خیال ہے کہ شادی مردوں کے لیے جنسی خواہشات کی تشفی کا ذریعہ ہے اور اس خواہش کو پورا کرنے کے خواتین کو ہر دم تیار رہنا ہے۔

رواں سال فروری میں بھارت کی سپریم کورٹ نے ازدواجی ریپ کو جرم قرار دینے کے لیے رشمی کی جانب دائر کی گئی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت کا کہنا ہے کہ کسی ایک فرد کے لیے قانون تبدیل کرنے ممکن نہیں ہے۔

رشمی کی طرح بھارت کی ایک اور تعلیم یافتہ خاتون کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں ہے، جس نے دفتر میں کام کرنے والے اپنے ساتھی کے ساتھ محبت کی شادی کی۔ وہ کہتی ہی کہ ’اُن کا تعلق کبھی بھی مرضی اور برابری کی بنیاد پر قائم نہیں ہو سکا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’مجھے 14 فروری 2014 کی رات ابھی تک یاد ہے۔ میرے سالگرہ بھی اسی دن ہوتی ہے۔ ہماری تکرار ہوئی اور پھر اُس نے زبردستی کرنا شروع کر دی۔ میں جتنی مزاحمت کر سکتی تھی میں نے کی۔ لیکن وہ نہیں رکا۔اُس کے بعد مجھے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔‘

چند بعٓرس قبل میں بھارت کی سپریم کورٹ نے ازدواجی ریپ کو جرم قرار دینے کے لیے رشمی کی جانب دائر کی گئی درخواست مسترد کر دی۔ بھارت میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کا مطالبہ ہے کہ ازدواجی ریپ کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔

دسمبر 2012 میں دلی ریپ کے بعد ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے ریپ اور ازوادجی ریپ کے خلاف قوانین میں تبدیلی کی تجاویز دیں۔ اُس وقت کی حکومت کانگریس نے کمیٹی کی تجاویز رد کر دی تھیں۔ لیکن ریپ کا شکار ہونے والی خواتین نے اپنی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔

پوجا، جو تین بیٹیوں کی ماں ہیں، کہتی ہیں کہ انھوں نے 14 سال خاموشی سے گزارے لیکن اب انھوں نے اپنے شوہر کے خلاف گھریلو تشدد کا مقدمہ درج کروایا ہے۔ اپنے شوہر سے علیحدگی وجہ ’جبری اور پرتشدد جنسی تعلق قرار دیتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مجھے ’’نہ‘‘ کہنے کا کوئی حق نہیں کی کیونکہ میں بیوی ہوں۔ میں اکیلے گھر اور بچوں کی ذمہ داری سنبھالتی ہوں لیکن مجھے اہمیت نہیں دی گئی۔‘ پوجا نے شوہر سے علیحدگی اختیار کی ہے لیکن انھوں نے قانونی طور پر طلاق لینے سے انکار کیا ہے کیونکہ اُن کے خیال میں طلاق کے بعد ان کے شوہر دوبارہ شادی کر سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں اپنے آپ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ ہی وہ (شوہر) کسی دوسری عورت کی زندگی تباہ کرے۔ میں طلاق نہیں چاہتی۔ میں اُسے سزا دینا چاہتی ہوں۔‘

انسانی حقوق کے قوانین اور صنفی انصاف پر سپریم کورٹ کے وکیل کرونا نیندی کا کہنا ہے کہ بھارتی قانون ازدواجی ریپ کا شکار ہونے والوں کو ریلیف دیتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’کوئی خاتون گھریلو تشدد کے خلاف مقدمہ درج کروا سکتی ہے اور سول عدالتیں ایسے معاملات کو سنتی ہیں۔ قانون خواتین کو شوہر سے علیحدگی کا حق دیتا ہے۔‘

لیکن سوال ہے کہ اس جرم کے مرتکب افراد کو سزا کیسے دلوائی جا سکتی ہے؟

’کوئی بھی جنسی تعلق، جس میں زبردستی کی جائے اور خاتون کی مرضی شامل نہ ہو، وہ جرم ہے۔ اس ضمن میں خاتون کا اُس سے مرد سے تعلق کیا ہے وہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘ بھارت میں ہونے والے کئی عوامی جائزے بتاتے ہیں کہ ملک میں شادی شدہ افراد کے درمیان جنسی تشدد بڑھ رہا ہے۔

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 2005 تا 2006 کے مطابق بھارت کی 29 ریاستوں میں ایک لاکھ 24 ہزار 385 خواتین میں سے صرف دس فیصد خواتین نے جنسی تعلق کے دروان شوہر کے نازیبا رویے کی شکایت درج کروائی۔

بھارتی معاشرے میں اکثر خواتین پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ شادی خراب کر رہی ہیں

ازدواجی ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ یہ قانونی جنگ تنہا لڑ رہی ہیں کیونکہ بھارتی قانون میں اُن کی شنوائی نہیں ہے۔ دوسری جانب مردوں کے حقوق کی تنظیم سیو فیملی فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ وہ ازدواجی ریپ کو جرم قرار دینے کے معاملے پر کافی محتاط ہیں۔

تنظیم کے ترجمان نے کہا کہ ’ہم نے دیکھا کہ جہیز کے خلاف قانون کے ذریعے خواتین نے مردوں اور اُن کے خاندانوں کو نشانہ بنایا۔ سینٹرل ویمن کمیشن آف انڈیا نے تسلیم کیا ہے کہ ہر سال ریپ کے مقدمات میں کچھ جھوٹے بھی ہوتے ہیں۔ تو پھر کوئی ازدواجی ریپ کو کیسے ثابت کر سکتا ہے۔ بیڈ روم کو عدالتوں تک لانا خطرناک ہے۔‘

جب ہم نے رشمی سے انٹرویو ختم کیا تو رشمی نے چہرے سے نقاب ہٹاتے ہوئے کہا کہ ’عدالت کی ہر پیشی پر میں دیکھتی ہوں کہ میرے شوہر اور اُس کے خاندان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انھیں کوئی پشیمانی نہیں ہے۔‘

’تو پھر ایک خاتون کو اپنی شناخت کیوں چھپانا پڑتی ہے؟ کیوں مجھے سر جھکا کر دنیا کو بتانا پڑتا ہے کہ مجھے میرے شوہر نے ریپ کیا؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp