سچن ملہوترہ کی پیشن گوئیاں اور عمران خان کا مستقبل!


مذہبی جماعتوں کے زیر اہتمام حال ہی میں منعقدہ کسی ایک تقریب میں مرحوم جنرل حمید گل کے صاحبزادے کو نہایت ولولہ انگیز لہجے میں سول اور ملٹری قیادت کو ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کا نعرہ یاد کرواتے ہوئے سنا۔ پوچھا گیا کہ جہاد سے خوف اور شرمندگی کیوں!

عالمی سیاست کے ادنیٰ طالب علم کی رائے میں وزیراعظم پاکستان کی نیویارک میں حالیہ مصروفیات سے مترشح ہونے والا لائحہ عمل ہی وہ واحد راستہ ہے کہ جس پر ہمیں پوری یکسوئی سے اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔ اندریں حالات مذہبی جماعتوں اور نام نہاد جہادی عناصرکا یوں میدان میں اترناوہ آخری کیل ہے کہ جو کشمیریوں کے حق خودارادیت کے تابوت میں گاڑا جاسکتا ہے۔

عمران خان سے محبت کرنے والے بے شمار ہیں تو ٹوٹ کر نفرت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے مگر میری رائے ہے کہ وزیراعظم پاکستان حالیہ امریکی دورے میں بھارت کو دفاعی پوزیشن میں لانے میں کامیاب رہے ہیں۔ سمت کا تعین درست ہوتو دل سے نکلی ہوئی بات سیدھی دلوں میں اترتی ہے۔ پاکستان کشمیریوں کا مقدمہ نیک نیتی اور بے خوفی سے لڑتے ہوئے معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے اور اس کی اہمیت اجاگر کرتے میں کامیاب ہوا ہے۔ اقوامِ عالم کی بظاہربے اعتنائی کی مادی وجوہات اپنی جگہ، مگر میرا خیال ہے کہ بہت عرصے کے بعد دنیا ہمیں سن رہی ہے۔

صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کے مابین ’کیمسٹری‘ حیران کن حد تک میل کھاتی نظر آتی ہے۔ ہر پتا کھڑکنے پر دل اگرچہ دھڑکتا ہے کہ قدرت نے دونوں رہنماؤں کو سیمابی فطرت اور اکھل کھرے مزاج سے نوازا ہے۔ جہاں ٹرمپ کسی لمحے کچھ بھی کہہ گزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہیں نریندرا مودی کی طرح بے ہودہ ریچھ کی صورت عالمی رہنماؤں کی گردنوں سے لٹکنا عمران خان کے مزاج میں نہیں۔ صدر ٹرمپ سے طے شدہ ملاقات سے عین ایک روز قبل وہ صدر ٹرمپ کو طالبان کے ساتھ معاہدے کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔ اگلے ہی روز ایک صحافی نے ٹرمپ سے ملاقات کے باب میں سوال کیا تو لپک کر عمران خان نے پوچھا، ”بھیک؟ کیا کہا میں نے ٹرمپ سے مدد کی ’بھیک‘ مانگی ہے؟ “ دل کے کسی نہاں گوشے میں ایک خدشہ نمو پاتا ہے کہ کوئی صبح آتی ہے کہ ایک ٹویٹ کھڑا ہمارا منہ چڑا رہا ہو۔

گئے سالوں، خفیہ ایجنسی کے ایک افسر نے ذاتی تجربہ سے آگاہی بخشی تھی۔ اب بھی کہیں اعلیٰ عہدے پر متمکن ہیں، عین عروج کے زمانے میں جنرل مشرف کی حکومت کے ایماء پر جو ناراض شخص کو پیغام رسانی کے لئے بنی گالہ پہنچے تھے۔ وسیع لان میں ٹانگیں پسارے تنہا شخص نے بات کرنا تو درکنار، دور اشارے سے ہی افسر کو چلے جانے کو کہا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل مشرف ایک دفعہ تو وزارت عظمیٰ سونپنے تک کو آمادہ تھے۔ اسی شخص سے امریکہ میں کونسل فار فارن افیئرز کے لوگوں نے پوچھا، ’جناب وزیراعظم کیا طاقت آپ ہی کے ہاتھ میں ہے؟ ‘ اطمینان سے اس نے جواب دیا، ’فوج میرے ساتھ ہے۔ ہر معاملے میں حکومت کی پشت پر کھڑی ہے۔ ہم مل کر نیا باب لکھ رہے ہیں‘ ۔

سچن ملہوترا ایک معروف بھارتی آسٹرولوجسٹ ہیں۔ انسٹیٹیوٹ آف آسٹرالوجی بھارتیہ ودیا بھون، نیو دہلی سے انہوں نے جدید آسٹرالوجی سے متعلقہ مضامین میں اسناد گولڈ اور سلور میڈلز کے ساتھ وصول پا کر قدیم جینمی آسٹرالوجی کے میدان میں تحقیق سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ علم نجوم سے متعلق جدید عالمی جریدوں میں تواتر سے ان کے مضمون چھپتے ہیں۔ دعویٰ ان کا یہ ہے کہ دسمبر 2016 ء میں انہوں نے اپنے ایک مضمون میں عمران خان کی انتخابی کامیابی کی پیشن گوئی کی تھی کہ جسے جولائی 2018 ء میں انہوں نے دہرایا بھی تھا۔

18 اگست 2018 ء میں منعقدہ تقریبِ حلف برداری کو انہوں نے اپنے علم کی کسوٹی پر پرکھا اور نتائج کی روشنی میں اپنی آراء حسب معمول ایک اورمضمون میں مرتب کی ہیں۔ سچن کا کہنا ہے کہ ملکی وسائل کی کمیابی کی بناء پر اپنائی گئی سادگی اور بدعنوانی کے مرتکب سابقہ حکمرانوں کے خلاف عمران خان کے اقدامات ان کی پیشن گوئیوں کے عین مطابق ہیں۔ سچن کا خیال ہے کہ آنے والے سالوں میں وزیراعظم عمران خان تاریخ کے سب سے کامیاب، قابلِ احترام اور دوراندیش پاکستانی رہنما ثابت ہوں گے۔

اس دوران وہ اپنے انتظامی، معاشی اور احتسابی اقدامات کو پورے پانچ سال پر پھیلانے میں بھی کامیاب رہیں گے۔ اپنے عرصہ اقتدار میں ان کو ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی غیر مشروط حمایت حاصل رہے گی۔ سچن کے تجزیے کے عین مطابق وہ تمام سیاسی پارٹیاں کہ جن کے خلاف عمران خان انتخابات میں دھاندلی کے نام پر احتجاج کرتے رہے، اگرچہ وہ سب کی سب اب ان کے خلاف صف آراء ہیں، تاہم سال 2021 ء کے بعد بلاول بھٹو ہی عمران خان کے سامنے موثر مزاحمت کرنے والے واحد رہنما کے طور پر رہ جائیں گے۔

2021 ء میں ہی عمران خان غیر معمولی انتظامی اصلاحات کا اعلان کریں گے۔ مضمون نگار کی تمام تر گنجلک، میرے لئے ناقابل فہم اور اکتا دینے والی طویل تکنیکی تاویلات سے قطع نظر مذکورہ بالا پیشن گوئیاں قطعاً چونکا دینے والی نہیں ہیں، بلکہ ان معلومات کو عمران خان کے کسی بہی خواہ کی معصومانہ خواہشات سے تعبیر کر کے یکسرنظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس مضمون میں چند پیشن گوئیوں کو میں بہرحال دلچسپی کے ساتھ دیکھتا ہوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2