ٹرمپ اور’’ آنے والی تھاں ‘‘


یہ ہفتہ شروع ہوتے ہی میں نے بہت سوچ بچار کے بعد یہ دعویٰ کیا تھا کہ جنوبی ایشیاء کے حوالے سے یہ ہفتہ ’’تاریخی‘‘ ثابت ہوسکتا ہے۔تاریخ فقط ناخوش گوار واقعات ہی نہیں بناتے۔بسااوقات تبدیلیاں نسلِ انسانی کے مقدر کو خوش گوار انداز میں سنوار بھی دیتی ہیں۔اس ہفتے کا آخری کالم لکھتے ہوئے بہت دُکھ سے مگر یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ نیویارک سے اچھی خبریں نہیں آئی ہیں۔نام نہاد عالمی برادری نے مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال کی بدولت نمایاں ہوئے انسانی المیوں پر کماحقہ توجہ نہیں دی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کا آغاز ہمیشہ امریکی صدر کی تقریر سے ہوتا ہے۔اپنی افتتاحی تقریر میں لیکن ڈونلڈٹرمپ نے کشمیر کا اشارتاََ ذکر بھی نہیں کیا۔ساری توجہ ایران کی مبینہ طورپر پھیلائی ’’دہشت گردی‘‘ کی جانب موڑدی۔ چین کے عالمی منظر نامے پر مسلسل بڑھتے قد کاٹھ کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔پاکستان کے وزیر اعظم سے اس افتتاحی تقریر سے قبل امریکی صدر کی ایک ملاقات بھی ہوئی تھی۔ یہ بات عیاں ہے کہ عمران خان صاحب اس ملاقات میں ٹرمپ کو کشمیر پر توجہ دینے کی جانب مائل نہ کر پائے۔

اس نے کمال مکاری سے بلکہ پاکستان کو ایران سے بات چیت کا ’’مینڈیٹ‘‘ دے دیا۔ اس سے قبل وہ طالبان کو افغانستان میں امریکی ترجیحات کے مطابق ’’امن‘‘ کے قیام کے لئے رضا مند کرنے کا ’’ٹھیکہ‘‘ بھی پاکستان کو دے چکا ہے۔پاکستان کو ان دو کاموں کے عوض کیا ملے گا اس کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ FATF کی تلوار ابھی تک ہمارے سرپر لٹک رہی ہے۔ IMF نے پاکستان کی معیشت کو بحال کرنے کے نام پر جو بیل آئوٹ پیکیج تیار کیا ہے وہ آئندہ 39 مہینوں تک بازار میں مندی کی کیفیت کو برقرار رکھے گا۔ روزگار کے نئے امکانات کی گنجائش نظر نہیں آرہی۔

ہمارے متوسط اور تنخواہ دار طبقات کی اکثریت ہر دن اپنی سفید پوشی برقرار رکھنے کی سکت سے محروم ہورہی ہے۔آفت کی اس گھڑی میں 80لاکھ کشمیریوں پر نازل ہوئی اذیتوں کے ازالے کی پاکستان کے ذریعے کوئی صورت نکالنے کی راہ نظر نہیں آرہی۔اندھی نفرت وعقید ت میں تقسیم ہوئے ماحول میں جذبات سے مغلوب ہوکر عمران خان صاحب کو ہماری بے بسی کا واحد ذمہ دار ٹھہرانا مگر ناانصافی ہے۔ بجاطورپر اگرچہ یہ شکوہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ٹرمپ اور امریکی ریاست کے فیصلہ ساز اداروں کو ہماری تشویش اور مشکلات کا احساس نہ دلواپائے۔

ہمارے وزیر اعظم کی شخصیت یقینا کرشماتی ہے۔پُراعتماد آدمی ہیں۔وہ دیگر ممالک کے سربراہان اور عالمی اداروں یا میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے خود کو ’’پرچیوں‘‘ کے محتاج نہیں سمجھتے۔ خارجہ امور مگر ایک خاص مہارت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ٹرمپ ان کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ مگر دُنیا کی واحد سپرطاقت تصور ہوتے ملک کا سربراہ ہے۔پنجابی محاورے والے گدھے کی طرح وہ بھی بالآخر گھوم گھماکر لیکن آنے والی تھاں پر آجاتا ہے اور یہ وہی ’’تھاں‘‘ ہے جو امریکی ریاست کے دائمی اداروں نے طے کررکھی ہے۔

امریکی ریاست کے دائمی اداروں نے اسے جھٹکا دینے کے لئے اب ٹیلی فون پر ہوئی ایک گفتگو بہت مہارت سے لیک کردی ہے۔یہ بات عیاں ہوگئی کہ یوکرین کے صدر سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈٹرمپ بضد رہا کہ اس کے سیاسی حریف جوبائیڈن کے بیٹے کے خلاف کاروباری حوالے سے ’’کچھ نکالا‘‘ جائے۔ ٹرمپ نے بہت رعونت سے ازخود مذکورہ گفتگو کو سرکاری طورپرنشرکردیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ بنیادی طورپر یوکرین میں پھیلی کرپشن سے پریشان تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ یوکرین کے لئے بھیجے امریکی ڈالر کرپشن کی نذر ہوجائیں۔ ان سے یوکرین کے عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچے۔امریکہ کے ایوانِ زیریں میں ڈیموکریٹ اکثریت میں ہیں۔انہیں یقین ہے کہ یوکرین کے صدر کے ساتھ ہوئی گفتگو ٹرمپ کے مواخذے کا ٹھوس مواد فراہم کرچکی۔

اب فقط کارروائی رہ گئی ہے۔ٹرمپ مگر ڈھیٹ آدمی ہے۔سینٹ میں اس کے حامی اکثریت میں ہیں۔ امریکی معیشت میں رونق بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ٹرمپ کے حامی شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ یہ رونق America Firstکے نعرے کی بدولت میسر ہوئی۔ واشنگٹن پر قابض ’’نظام کہنہ‘‘ سے جڑی اشرافیہ اور دائمی ادارے لیکن اس ’’سادہ‘‘ اور بنیادی طورپرامریکی عوام سے ’’مخلص‘‘ صدر کو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہے۔

میڈیا بھی ہاتھ دھوکر اس کے پیچھے پڑگیا ہے۔ٹرمپ اپنے حامیوں کی معصومیت کو خود کومظلوم دکھانے کے لئے استعمال کرے گا۔ اس کے خلاف مواخذے کی تحریک ناکام ہوگئی تو آئندہ صدارتی انتخاب میں اسے شکست دینا ناممکن ہوجائے گا۔صدر کلنٹن کے خلاف جب مونیکا لیونسکی والے قصے کی وجہ سے مواخذے کی تحریک چل رہی تھی تو اس نے اُسامہ بن لادن کو ختم کرنے کے ارادے سے افغانستان پر کروز میزائل برسادئیے تھے۔ وہ اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔مواخذے کی تحریک اگرچہ ناکام ہوگئی۔ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی بھی ایران کے خلاف کسی بڑی واردات کا سبب ہوسکتی ہے۔

ایسا ہوا تو دُنیا میں کسی کے پاس مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں رہے گی۔عالمی میڈیا کا بغور جائزہ لیں تو کشمیر سے جڑی کہانیاں ویسے بھی اب دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ایران عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ایران کی جانب مبذول ہوئی توجہ مودی سرکار کے لئے آسانیاں پیدا کررہی ہے۔وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر پر 5 اگست 2019سے مسلط کمیونی کیشن لاک ڈائون کو جاری رکھے گی۔ سردیوں کی شدت اور برف باری ویسے بھی نومبر سے مارچ تک زندگی کو مقبوضہ کشمیر میں مفلوج بنادیتی ہے۔

اپنے گھروں میں محصور ہوے 80 لاکھ کشمیریوں کی اکثریت اب یہ سوچنے کو مجبور ہونا شروع ہوجائے گی کہ پاکستان آفت کی اس گھڑی میں ان کا ٹھوس اعتبار سے مددگارنہ بن پایا۔ بے بسی کے احساس کی شدت حبیب جالب کے بیان کردہ ’’یہ جیون بھی کیا جیون ہے۔آگ لگے اس جیوان کو‘‘ والے جذبات اُکساتی ہے۔پاکستان ان سے لاتعلق رہ نہیں سکتا۔نہایت دیانت داری سے میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ 5اگست 2019کے بعد ہماری قیادت یکسوہوکر مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں کوئی مؤثرحکمت عملی تیار نہیں کر پائی۔5اگست 2019کے بعد اصل سوال 80 لاکھ انسانوں کے ’’بنیادی حقوق‘‘ کا تھا۔

ان پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے ہم آزادکشمیر پر حملے کی باتیں کرنا شروع ہوگئے۔ممکنہ حملے کو ٹالنے کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا ذکر شروع ہوگیا۔مجھ بدنصیب کو ہرگز سمجھ نہیں آتی کہ راولپنڈی کے بقراطِ عصر کی فطانت کی بدولت ہم کشمیر کے حوالے سے ہوئی گفتگو کو فوراََ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی جانب کیوں موڑدیتے ہیں۔فروری میں پلوامہ والے واقعہ کے بعد سے ہم نے دُنیا کو دکھادیا ہے کہ بھارت کی جانب سے فضائی جارحیت ہوئی اور ہم نے مؤثر جواب دیا۔اس کا مگ طیارہ ہماری حدود میں گرا۔بھارتی پائلٹ گرفتار ہوا۔اس واقعہ نے ثابت کردیا کہ پاکستان روایتی جنگ تک محدود رہتے ہوئے بھی مؤثرانداز میں اپنا دفاع کرسکتا ہے۔

بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کے بعد ہمیں ایٹمی جنگ کے خطرات کا ذکر کرتے ہوئے دُنیا کی توجہ حاصل کرنے کی روش ترک کردینا چاہیے۔ اس ہفتے کے دوران نیویارک میں پاکستانی وزیر اعظم کی جو مصروفیات رہی ہیں ان کا بغور جائزہ لیتے ہوہے ہمیں دریافت کرلینا چاہیے کہ عالمی برادری میں ایٹمی جنگ کے خطرات پر مشتمل بیانیے کا کوئی Taker نہیں ہے۔

عمران خان صاحب کو میڈیا اور تھنک ٹینک والوں نے کشمیر کے بجائے افغانستان میں الجھائے رکھا۔ ہمارے وزیر اعظم کرکٹ کی اصطلاحات بہت استعمال کرتے ہیں۔انہیں Well Left والی ترکیب کا بھی بخوبی علم ہوگا۔ اسامہ بن لادن یا القاعدہ کے بارے میں سوالات آئیں تو ان کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کے بارے میں بہت کچھ بتایا جاسکتا ہے۔پاکستان کے لئے فوری طورپر پریشان کن مگر کشمیر کی تازہ ترین صورت حال ہے۔ برائے مہربانی فی الوقت اس پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔کشمیر -کشمیر-کشمیر- نیویارک میں ہمارا یک نکاتی ایجنڈا ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں کمال ہوشیاری سے افغانستان اور ایران میں الجھادیا گیا۔میری مایوسی بے سبب نہیں ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).