جناب وزیراعظم آپ نے ہم غریبوں کو مایوسی اور بھوک دی ہے


پچھلے کالم میں شاید تھوڑاجذباتی ہوگیا تھا، میں واقعی غصے میں تھا، غصہ پر بمشکل قابو پایا تھا اور کالم کا رخ اصل موضوع سے ہٹا کر،، جہانگیر کی کہانی،، کی جانب لے گیا تھا، لیکن کب تک؟ کب تک کوئی اپنے جذبات پر قابو رکھ سکتا ہے؟ ہم ان لوگوں کی اگلی نسلیں ہیں جو عمر بھر یہ کہتے اور یہ سنتے قبروں میں اترتے رہے کہ حالات جلد ٹھیک ہو جائیں گے، عمران خان صاحب! آپ ’’ہم عوام‘‘ کی شاید آخری امید تھے، آپ نے امیدوں کے ادھ بجھے چراغ مکمل بجھا دیے ، مگر،ہاں! جو لوگ اس امید اور آس میں ہیں کہ زرداری اور نواز شریف کے ادوار واپس آ سکتے ہیں وہ بھی خواب دیکھ رہے ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ کم از کم مستقبل قریب میں نواز لیگ یا پیپلز پارٹی کے اقتدار میں واپس آنے کا کوئی امکان ہی نہیں۔ دوسرا سچ یہ ہے کہ اگر ایسا ہو بھی جائے تو عوام کو مشکلات کے جس کنویں میں دھکیل دیا گیا ہے اس کنویں سے انہیں اب الہ دین کا چراغ لے کر بھی نہیں نکالا جا سکے گا۔ بعض لوگوں کے خیال اور اندازوں کے مطابق اگر تین چار سال بعد معیشت میں کوئی بہتری آ بھی گئی تو اس کے ثمرات سے بھی وہ محکوم محروم ہی رہیں گے جو آج کے متاثرین ہیں، میں نے اور مجھ جیسے لاکھوں کروڑوں لوگوں نے موجودہ حکومت کے معرض وجود میں آنے سے پہلے بھی بھوک دیکھی ہے، بھوک کا مقابلہ بھی کیا ہے۔
مجھ جیسے لوگوں کا تعلق نسل در نسل اس نام نہاد لوئر مڈل کلاس سے ہے، جسے نچلے طبقے سے زیادہ اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جانتا ہوں کہ بھوک کے بطن سے معاشرے میں کیا کیا پیدا ہوتا ہے؟ بے شک بھوک تمام معاشرتی بیماریوں کی ماں ہوتی ہے۔ پہلی حکومتیں بھی قرض دینے والے عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط مانا کرتی تھیں، اب فرق یہ ہے کہ معیشت کا شعبہ ہی آئی ایم ایف کے براہ راست کنٹرول میں دیدیا گیا ہے، نئی حکومت تو اب اپنی مرضی سے نئے کرنسی نوٹ چھاپنے اور افراط زر پھیلانے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہی، لوگ ایک سال سے ایک دوسرے سے سوال کرتے پھر رہے ہیں کہ آخر راتوں رات کیا ہوا کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے جن نے کروڑوں عوام کے سانس کھینچ لئے؟
یہ وہ ہونی ہے جو ہو کر رہتی ہے۔ پچھلی حکومتوں سے پاکستانی عوام ہی نہیں وہ عالمی مالیاتی ادارے بھی تنگ تھے جن کے دیے ہوئے قرضوں سے ملک بھی چل رہا تھا، حکومتیں بھی چل رہی تھیں اور حکمرانی کے مزے بھی لوٹے جا رہے تھے۔ دو ہی راستے تھے، پاکستان کو دیوالیہ قرار دے دیا جاتا یا اس کی معاشی پالیسیاں معطل کر دی جاتیں، بآلاخر دوسرا راستہ چنا گیا اور حکومت کو صرف اس اختیار اور حکم کے تابع کر دیا گیا کہ وہ ٹیکس پر ٹیکس لگاتی رہے.
حکومت اتنی بے خبر ہے کہ جو ٹیکس اداروں اور تاجروں پر لاگو کئے جا رہے ہیں وہ براہ راست عوام سے وصول کئے جا رہے ہیں، ہر چیز کی قیمت تین گنا بڑھ چکی ہے، اسکول کے بچوں کے بستے اور کتابیں تو کجا، ان کے لئے ایک شارپنر خریدنا بھی ناممکن ہو گیا ہے، کوئی بچی اپنے لئے کپڑوں کا جوڑا خریدنے چلی جائے تو وہ خالی ہاتھ گھر واپس لوٹ آتی ہے کیونکہ اس کے ہاتھ میں نئی قیمت کے مطابق پیسے ہی نہیں ہوتے ، دودھ تو دودھ ننھے بچوں کے لئے ٹافیاں اور کینڈیاں خریدنا بھی ناممکن ہو گیا ہے،،، بھوک تو ہے ہی، شرمندگی بھی بہت ہے۔
ضرورت جب گھنگرو باندھ لیتی ہے،، یہ تھا ہمارے پچھلے کالم کا عنوان، موضوع کو ادھورا چھوڑ دینے کے باوجود اس کالم پر جس شدت سے ردعمل آیا، اس نے مجھے مہنگائی اور مجبوری پر مزید لکھنے پر مجبور کر دیا، پچھلے کالم کی تائید کے لئے ہر راستے سے فیڈ بیک ملا، قارئین نے کالیں کیں، میسیج بھجوائے، ای میل پر رد عمل ملا، آڈیو، وڈیو پیغامات بھی ملے، ایک وڈیو ای میل کے ذریعے بھجوائی گئی ہے، جس میں ایک رکشہ ڈرائیور دھاڑیں مار مار کر روتا اور چیختا چلاتا دیکھا اور سنا جا سکتا ہے، وہ بیچ سڑک کے رکشہ پر بیٹھا ماتم کر رہا ہے۔
(بیٹی رو رہی ہو، بیٹا رو رہا ہو، وہ دس روپے مانگ رہے ہوں اور باپ کی جیب خالی ہو، کیا اسی لمحے باپ کو مر نہیں جانا چاہئیے؟ اب ڈینگی نے کیا مارنا ہے؟ ،،حکمران،،، پہلے ہی ہمیں مار چکے ہیں۔ یہ کون سی تبدیلی آگئی ہے؟ جب سے یہ آئی ہے ایک دن بھی سکھ نہیں دیکھا۔ میں دو دن سے اپنے گھر نہیں گیا، بچے بھوکے بیٹھے ہیں۔ ہم سے ہماری چھت بھی چھین لی گئی ہے، کسی نے کیا تبدیلی لانا ہے؟ ٹیکس پر ٹیکس، بھائی! امیروں سے لو، غریبوں سے کیا لینا ہے؟
ان حالات میں مائیں، بہنیں کیا کریں؟ انہوں نے بچے پالنے ہیں،اچھی بیٹیاں بھی اس طرح خراب ہوجاتی ہیں۔ میرے تین بچے ہیں، دو بیٹے ایک بیٹی، کسی کے پلاٹ میں رہ رہے ہیں۔ پہلے تاج باغ منظور کالونی کے قریب رہتا تھا وہ گھر بھی گرا دیا گیاہے۔ روزی کمانے کیلئے گھر سے نکلتے ہیں تو سب سے پہلے سارجنٹ ٹکرتے ہیں، پہلے بیٹی کی گالی دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں، دفع ہوجاو۔ حکمرانوں کے لئے میرا پیغام ہے کہ موجودہ زندگی سے بہتر ہے کہ ہمیں موت دیدی جائے،ہمیں پھانسی دیدی جائے، حکمرانوں نے ڈینگی سے زیادہ ہمارا خون چوس لیا ہے۔)
 یہ تو تھیں ایک رکشہ ڈرائیور کی حالت زار، یہ ایک مزدور کے جذبات تھے، کوئی اداکاری نہیں کر رہا تھا، بندہ مزدور کے اوقات آج پی ٹی آئی کی حکومت میں ہی بہت تلخ نہیں ہوگئے ہیں، ہر دور حکومت میں لوگ اسی طرح بلبلاتے نظر آئے ہیں۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ خان صاحب نے مسند اقتدار پر بیٹھنے سے پہلے پاکستان کے عوام کو یقین دلایا تھا کہ غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے ان کا ہوم ورک مکمل ہے، ان کے پاس ہر شعبہ کے کاریگروں کی ٹیم موجود ہے، وہ بے گھروں کو ایک کروڑ مکان دیں گے۔
وہ پچاس لاکھ افراد کو روزگار دیں گے، لیکن جب ان کی حکومت بن گئی تو سب نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ خالی تھے، ان کے پاس کوئی ہنر مند بھی نہ تھا۔ میری طرح سبھی لوگ غصے میں ہیں۔ لیکن مدھم سی امید اب بھی موجود ہے، حکومت کا دوسرا سال بھی پہلے سال کی طرح کورا گزر گیا تو یہی لوگ شاید انہیں تیسرے سال کی مہلت نہ دیں، مولانا فضل الرحمان کا دھرنا ہوتا تو دکھائی نہیں دے رہا، عوام نے دھرنا دیدیا تو اسے ختم کرانا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ وزیر اعظم جناب عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بلاشبہ عالمی سطح پر جنگ جیت لی ہے۔
انہوں نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے الزام کا مقدمہ بھی دبنگ لہجہ میں لڑا ہے۔ لیکن اب وزیر اعظم کو پاکستان میں بھوک، غربت، بے روزگاری، پولیس گردی، اور کرپشن کے خلاف جنگ بھی اسی جذبہ سے جیتنا ہوگی۔ میں اس کرپشن کی بات نہیں کر رہا جس کے الزام میں زرداری اور نواز شریف جیل میں بند ہیں۔ میرا اشارہ اس عام کرپشن کی جانب ہے جس کا شکار ماضی کی طرح لوگ آج بھی ہیں، اب عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سرکاری محکموں میں رشوت کے ریٹ مہنگائی کے تناسب سے بڑھے ہیں۔
بازار آرزو کی نوا، دام چڑھ گئے
ہر چیز قیمتوں سے سوا، دام چڑھ گئے
ہر دن لٹ رہی ہے غریبوں کی آبرو
چڑھنے لگا ہلال قضا دام چڑھ گئے
ہےاحتساب زیست کی لٹکی ہوئی صلیب
ہر روز جیسے روز جزا، دام چڑھ گئے
اے وقت! مجھ کو غیرت انساں کی بھیک دے
روٹی میں بک گئی ہے ردا، دام چڑھ گئے۔
بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).