عراق میں نکاحِ متعہ: ’کتنی بار شادی ہوئی اب صحیح تعداد بھی یاد نہیں‘


بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ عراق میں غیرقانونی ہونے کے باوجود کاظمین میں نکاحِ متعہ کی سہولت عام موجود ہے۔ بی بی سی کے صحافی نے بھیس بدل کر جن دس مولویوں سے رابطہ کیا ان میں سے آٹھ نے ایسے نکاح کروانے کی حامی بھری۔

ان آٹھ میں سے دو تو ایسے تھے جو نو برس کی بچی سے بھی ایسا نکاح کروانے پر آمادہ دکھائی دیے تاہم یہ بات جاننا ناممکن ہے کہ عراق میں کمسن بچیوں سے نکاحِ متعہ کا عمل کتنے وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے۔

کربلا سے تعلق رکھنے والے ایک سابق شیعہ عالم غیث تمیمی کا کہنا ہے کہ انھوں نے سینکڑوں متعہ نکاح ہوتے دیکھے ہیں لیکن ان میں سے کوئی کسی کمسن بچی سے نہیں کیا گیا۔ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ سنّی بھی اس قسم کا نکاح کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ چونکہ شیعہ مولوی صاحبانِ اقتدار کے قریب ہیں اس لیے وہ بے فکر ہو کر ایسا کرتے ہیں۔

بی بی سی نے اس معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ عراقیوں کی جانب سے یہ معاملہ اٹھائے جانے کے بعد کیا۔

بی بی سی کی عراقی اور برطانوی ٹیم نے گیارہ ماہ تک تحقیقات کیں جس دوران انھوں نے خفیہ طور پر ملاؤں کی عکس بندی کی اور ان خواتین سے رابطہ کیا جن کا جنسی طور پر بے جا فائدہ اٹھایا گیا تھا اور ان مردوں سے بھی بات کی جنھوں نے علما کو پیسے دیے کہ وہ انھیں ایسی دلہنیں ڈھونڈ کر دیں۔

کاظمین میں واقع شادی دفاتر میں مولویوں نے ان سے بھیس بدل کر ملنے والے بی بی سی کے صحافی کو اس بارے میں بتایا۔

بغداد سے تعلق رکھنے والے ایک ملا سید رعد نے بتایا کہ شرعی قانون میں متعہ کے لیے وقت کی قید نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک شخص جتنی خواتین سے چاہے شادی کر سکتا ہے۔ آپ ایک لڑکی سے آدھے گھنٹے کے لیے شادی کر سکتے ہیں اور اس کے اختتام پر کسی اور سے شادی کر سکتے ہیں۔ ‘

انھوں نے یہ پیشکش بھی کی کہ وہ نکاحِ متعہ کے بعد صحافی اور ان کی اہلیہ کے لیے ہوٹل کے بہترین کمرے کا انتظام بھی کر سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ عراق میں غیرشادی شدہ جوڑوں کے لیے ہوٹل میں بطور جوڑا کمرہ لینا غیرقانونی نہیں۔

کچھ مولوی اس بات سے بھی بے فکر دکھائی دیے کہ دلھن کی عمر اتنی کم ہے۔

عراق میں شادی کی قانونی عمر 18 برس ہے تاہم جج مخصوص معاملات میں 15 برس کی لڑکیوں کو شادی کی اجازت دے دیتے ہیں۔ شریعہ کے مطابق کسی بھی لڑکی کی شادی اس کے سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد ہو سکتی ہے۔

شریعہ کے مطابق مولوی پر لازم ہے کہ وہ کمسن بچی کے معاملے میں اس کے والدین کی اجازت لے لیکن سید رعد نامی مولوی صحافی کی اس لڑکی سے نکاحِ متعہ کروانے پر تیار تھا جس کے بارے میں رپورٹر نے یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ 13 برس کی کنواری بچی ہے۔

مولوی نے اس معاملے میں صرف بچی سے جنسی تعلق قائم نہ کرنے کی صلاح دی اور متبادل کے طور پر ’اینل سیکس‘ کی تجویز دی۔ وہ یہ نکاح اس بچی سے ملاقات کیے بغیر فون پر پڑھانے کو بھی تیار تھا۔

اس نے صحافی سے چند منٹ کے اس عمل کے 200 ڈالر طلب کیے اور یہ پیشکش بھی کی کہ وہ ایک اور لڑکی بھی فراہم کر سکتا ہے۔

’میں اس کی تصویر آپ کو بھیج سکتا ہوں۔ پھر آپ اس سے معاملہ طے کر لیں۔ پھر جب آپ آئیں گے تو وہ آپ کی ہو گی۔ ‘

سید رعد نے نکاحِ متعہ کے لیے دستیاب ایک نوجوان لڑکی کی بی بی سی کے انڈر کور صحافی سے ملاقات بھی کروائی۔ مولوی کا کہنا تھا کہ وہ 300 ڈالر کے عوض اس کے ساتھ شب بسری کر سکتا ہے۔ جب رپورٹر نے نکاحِ متعہ کرنے سے انکار کر دیا تو سید رعد نے پیشکش کی وہ اس کی مدد سے رپورٹر کے لیے مزید نوجوان دلھن ڈھونڈ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ممکن ہے کہ یہ میرے لیے چودہ، پندرہ یا سولہ برس کی لڑکی ڈھونڈ لائے۔ میں اس کے ساتھ جا کر لڑکی کو دیکھوں گا اور اگر وہ نوجوان ہوئی تو میں اسے آپ کے پاس لے آؤں گا۔ ‘

بہت سی لڑکیوں اور خواتین کے نکاحِ متعہ کرنے کی وجہ غربت بھی ہے

بغداد سے 120 کلومیٹر جنوب میں واقع ایک اور مقدس شہر کربلا میں شریعہ شادی دفتر کے سب سے سینیئر مولوی شیخ عماد السعدی سے جب بی بی سی نے دریافت کیا کہ وہ نکاحِ متعہ کے حق میں ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ شریعت میں اس کی اجازت ہے لیکن وہ کبھی ایسا نکاح نہیں پڑھائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا کرنے والے کو جیل بھیج دیا جائے گا چاہے وہ مولوی ہی کیوں نہ ہو۔ ‘

لیکن عماد السعدی کے برعکس مقدس مزارات کے اردگرد کی گلیوں میں کچھ مولوی اور ہی مشورے دیتے دکھائی دیے۔

سید مصطفیٰ سلاوی نے کہا کہ وہ بخوشی ایسی شادی کروانے پر تیار ہیں جس میں لڑکی کے بارے میں انھیں بتایا گیا کہ اس کی عمر 12 برس ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا ’نو برس سے زیادہ ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ شریعت کے مطابق کوئی مسئلہ نہیں جو دل چاہے کریں۔ ‘

چند دن بعد جب ان سے دوبارہ رابطہ کیا گیا کہ وہ کیا کوئی اور لڑکی فراہم کر سکتے ہیں، وہ تیار دکھائی دیے۔

ان کا کہنا تھا ’وہ آپ کو تصویر نہیں بھیجیں گی لیکن جب آپ ان سے بالمشافہ ملاقات کریں گے تو دیکھیں گے وہ اچھی لڑکیاں ہیں، خوبصورت لڑکیاں ہیں۔ اگر آپ کو ایک لڑکی پسند نہ آئی تو دوسری ہو گی اور پھر تیسری۔ ‘

بی بی سی نے ان مولویوں سے جن کی خفیہ عکس بندی کی گئی تھی جب بعدازاں رابطہ کیا تو سید رعد نے نکاحِ متعہ کروانے سے انکار کیا جبکہ باقیوں نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔

سید رعد نے بتایا تھا کہ وہ عراق کے سب سے با اثر اور بارسوخ شیعہ عالم آیت اللہ العظمیٰ علی سیستانی کے مقلد ہیں۔

بی بی سی نے نجف میں آیت اللہ سیستانی کے دفتر سے ثبوتوں کے ہمراہ رابطہ کیا اور نکاحِ متعہ پر ان کا موقف دریافت کیا۔

اس سلسلے میں آیت اللہ سیستانی کے دفتر کی جانب سے کہا گیا کہ ’اگر ایسا کچھ اس طریقے سے ہو رہا ہے جو آپ نے بیان کیا ہے تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ نکاحِ متعہ کو جنسی عمل کی فروخت کے لیے اس طرح استعمال نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے کسی خاتون کی ناموس پر حرف آئے۔ ‘

جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ ’کسی لڑکی کے ولی یا سرپرست کو اس کی اجازت کے بغیر اس کی شادی کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور اگر شادی قانون کے خلاف ہے تو اسے شادی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس سے وہ مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ ‘

علی ایک 40 سالہ عراقی ہیں جو مولویوں کو نکاحِ متعہ کے لیے لڑکیاں تلاش کرنے کی ذمہ داری دیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’یہ کوئی گناہ نہیں۔ یہ دستیاب ہے اور ارزاں بھی اور اس میں کوئی برائی نہیں۔ ‘

انھوں نے بتایا ’بہت سے (مولوی) یہ کام کرتے ہیں لیکن میں صرف دو کی خدمات حاصل کرتا ہوں کیونکہ وہ میری مرضی کی لڑکیاں فراہم کرتے ہیں۔ ‘

صدر سٹی کی عدالت میں بی بی سی کی رپورٹر ایک مولوی کے ہمراہ

ان کا کہنا تھا کہ ’مولوی کے پاس تصاویر کا البم ہوتا ہے۔ بعض اوقات ان کے دفتر میں کئی لڑکیاں موجود ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو ان میں سے کوئی پسند ہے تو آپ اسے لے جا سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو پھر البم دوسری چوائس ہے۔ ‘

علی کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر 16 برس اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ تجربہ کار ہوتی ہیں اور کمسن لڑکیوں کے مقابلے میں ان پر خرچ بھی کم آتا ہے۔

انھوں نے کہا ’12 سالہ لڑکیاں کنواری ہوتی ہیں اس لیے زیادہ مہنگی ہوتی ہیں اور مولوی ان کے نکاح سے 800 ڈالر تک کماتا ہے۔ ‘

روسل بھی تسلیم کرتی ہیں کہ کنواری لڑکیوں کی مانگ زیادہ ہے۔

’بہت سے مولوی نوجوان کنواری لڑکیوں کی تلاش میں ہوتے ہیں کیونہ بہت سے گاہک ان کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ لوگ ان کے لیے زیادہ رقم دیتے ہیں۔ ‘

روسل کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولویوں کے لیے کام کرنے والی لڑکیوں کے لیے حتمی عمر 20 برس ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp