فنون عالیہ کے سرپرست: پاویل تریتیاکوو


بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ روس کے دارالحکومت کے مرکز میں دنیا بھر میں جانی پہچانی سرکاری تریتیاکوو گیلری واقع ہے، جو روسی مصوری کے شاہکاروں کی قومی گیلری ہے۔ عالمی اہمیت کا حامل یہ میوزیم روسی تاجر پاویل تریتیاکوو نے بنایا تھا۔ پاویل تریتیاکوو ابھی انیس برس کے تھے کہ انہوں نے فن پارے خرید کرنا شروع کر دیے تھے اور وہ شروع سے ہی جانتے تھے کہ وہ یہ اپنا پورا مجموعہ شہر اور ”روس کی کے تمام عوام“ کو تحفے میں دے دیں گے۔ ان کا یہ بے لوث تحفہ ایک بہت بڑا مجموعہ ہے جس میں 1276 پینٹنگز، 471 ڈرائنگز، 62 کہنہ روسی شبیہات اور نو مجسمے ہیں، اس سب کی قیمت کا اندازہ لگایا جانا دشوار ہے۔

مختلف نوع کے بشمول فن پاروں کے مجموعے جمع کیا جانا اس وقت کی تاجر برداری میں عام تھا کیونکہ ایسا کیا جانا پیسہ اچھی جگہ پہ لگایا جانا سمجھا جاتا تھا، جس سے بعد میں اچھا منافع ملتا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ فن پاروں کی قیمت فزوں تر ہو جاتی ہے۔ مگر تریتیاکوو، مجموعہ کرتے ہوئے بالکل بھی یہ طریق اختیار کیے ہوئے نہیں تھے۔ ان کا مقصد کچھ اور تھا جو کہیں زیادہ قیمتی اور منافع بخش تھا۔ بلاترددکہا جا سکتا ہے کہ پاویل تریتیاکوو دنیا کے پہلے ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنی زندگی اور اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ اپنے ہم عصر، انیسویں صدی کے روسی مصوروں کے فن پارے خرید کر جمع کرنے پر صرف کیا تھا۔

روسی مصوروں کے کام کو آئندہ نسلوں کے لیے جمع کرنے کے مشکل کام، جن میں مادر وطن کی تاریخ کے شجیع اور ڈرامائی واقعات، اس میں بسنے والی قوموں کے تمام طبقات کی زندگیوں کے عکس، روس کی معروف شخصیات کے پورٹریٹ اور اس ملک کے حسین مناظر مصور تھے، کو سرانجام دینے کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کی وجہ سے روس کے معروف مصور ایلیا ریپین نے پاویل تریتیاکوو کو ”روس کا قومی ہیرو“ قرار دیا تھا۔

تریتیاکوو گیلری میں کل گئے اور آج جانے والے اکثر لوگوں کو یہ جاننے میں دلچسپی رہی ہے کہ اتنے مہنگے مجموعے کی خریداری کے لیے لاکھوں کی رقوم کہاں سے آئی تھیں؟ تریتیا کوو نے اپنے اور اپنے کنبے کی تعیش پر کیوں خرچ نہیں کیا؟ یاد رہے کہ تریتیا کوو کی ازدواجی زندگی خوش تھی۔ مگر کنبہ غم و اندوہ میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہا تھا۔ تریتیا کوو کا ایک بیٹا آٹھ برس کی عمر میں مر گیا تھا، دوسرا بیٹا ذہنی طور پر بالکل ہی معذور پیدا ہوا تھا جو کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔ مخیّر شخص نے اپنی چاروں بیٹیوں کو اچھی تعلیم دلا کر بیاہ دیا تھا۔ ان کو باپ سے وراثت میں کچھ زیادہ نہیں ملا تھا کیونکہ تریتیاکوو سمجھتے تھے کہ ہر شخص کو زندگی بنانے کے لیے خود محنت کرنی چاہیے، کسی اور پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے چاہے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔

خود پاویل تریتیاکوو کامیاب صنعتکار تھے اور ریشے سے کپڑا بنانے والے ملک کے سب سے بڑے کارخانے کے مالک تھے۔ انہوں نے انیسویں صدی کے وسط میں ہی مزدوروں کے لیے اچھے حالات پیدا کرنے کی سعی کی تھی۔ لیو تالستوئی کے خیالات سے متاثّر ہو کر انہوں نے مزدوروں کے لیے سکول، اسپتال اور رہائش گاہیں تعمیر کرائے تھے۔ تریتیاکوو کے کارخانے میں تیار ہونے والا مال ملک میں بہترین ہوتا تھا۔ ان کو درباری ہونے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن لوگوں میں بات چل نکلی تھی کہ تریتیاکوو نے درباری بننے سے انکار کر دیا ہے۔ مگر انہوں نے ماسکو کے معزز شہری ہونے کا خطاب قبول کر لیا تھا۔

لوگ تجسس سے استفسار کیا کرتے تھے کہ تریتیاکوو نے فلاحی کاموں پر کتنے لاکھ خرچ کیے ہوں گے۔ انہوں نے 156 گونگے بہرے بچوں بچیوں کو اپنے زیر عاطفت لیا ہوا تھا۔ ان کے لیے پتھروں سے گھر تعمیر کرایا تھا جس میں باغ بھی تھا۔ ان کو کس طرح اشاروں کی زبان سکھائی جاتی ہے اور دستکاری کیسے سکھاتے ہیں، اس پر نگاہ رکھا کرتے تھے اور ان کے امتحانات کے موقع پر خود موجود ہوا کرتے تھے۔

کالجوں کے طلباء کو وظائف دینے پر بہت بڑی رقم خرچ کیا کرتے تھے۔ باہر کے ملکوں میں تعلیم پانے والے مصوروں کو رقمیں بھیجا کرتے تھے۔ جنگوں میں مارے جانے والے فوجیوں کی بیواؤں کی مستقل مالی امداد کیا کرتے تھے۔ بہت زیادہ رقوم گمنام رہ کر خرچ کیا کرتے تھے۔

” کیا ایسا کبھی ہوا تھا کہ کسی مصور کو ضرورت ہو، یا اس کے برا وقت چل رہا ہو اور تریتیاکوو نے ذاتی طور پر اس کی مدد نہ کی ہو بلکہ اس کا فن پارہ سستے داموں خرید لیا ہو؟ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، اخبار“ نووستی ”نے لکھا: کسی کو پتہ چلے بغیر، آگے کی قطاروں میں آنے کی سعی کیے بغیر، انکساری اور خاموشی کے ساتھ یہ شخص مصوروں کی کارگاہوں میں پہنچ جایا کرتا تھا، چپ کرکے ان کا کہا سب سنتا تھا اور خاموشی کے ساتھ اپنا ٹھوس فیصلہ کر لیا کرتا تھا“۔

دلچسپ اور غیر اتفاقی اتفاق۔ جس ریشے سے ترتیاکوو کے کارخانے میں کپڑا بنا جاتا تھا وہ نیلے رنگ کے پھولوں والا پودے کا ریشہ ہوتا تھا جس سے شفاف کپڑا بنا جاتا تھا۔ روس کی اس لنن سے ہی مصوروں کے کینوس تیار کیے جاتے تھے۔ اس پودے کے بیجوں سے ہی وہ تیل بنتا تھا جو ”آئل پینٹنگز“ کے لیے بہترین ہوا کرتا تھا۔ یوں صنعتکار کی پیداوار مصوروں کے کام سے بھی وابستہ تھی۔

ذکر کرنا ضروری ہے کہ انیسویں صدی کے پچاسویں سے سترویں عشروں میں ایشیا اور امریکہ میں کاشت کی جانے والی کپاس سے کپڑا تیار کرنے والے بہت زیادہ کارخانے بن چکے تھے جن سے روس کی لنن سے کپڑا بنانے کی صنعت دم توڑنے لگی تھی۔ تریتیاکوو جیسے چند صنعتکاروں کی وجہ سے ہی روس کی لنن نہ صرف زندہ رہ سکی تھی بلکہ محفوظ بھی رہ پائی تھی۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2