چار دُشنام [ سندھی افسانے کا اردو ترجمہ ]۔


( افسانہ نگار: جبّار آزاد منگی | ترجمہ: یاسر قاضی )
آج مجھے دو جرائم کا فیصلہ سُنانا ہے۔ آج مجھے انصاف کرنا ہے۔

ایک قتل کا جرم، جس جرم میں ایک غریب کسان ملزم ہے، جس کے بیل کی ٹکر سے گاؤں کے سرغُنے کا بیٹا ہلاک ہو گیا ہے۔ ملک کے قانون نے بیل سے سرزد ہونے والے گناہ کی سزا بُھگتنے کے لیے اس بیل کے مالک کو گرفتار کر لیا تھا، وہ اس لیے کہ اس جیسا آوارہ اور خونی بیل اس نے کیوں کھول دیا تھا، کہ وہ اپنے مالک تک کے قابُو میں نہ تھا اور ایسے سَر پھرے اور بے ضبط بیل کے مالک کو ملک کے قانون نے سبق سکھانے کے لیے پکڑ لیا تھا۔ جس غریب شخص کے ناکردہ گناہ کا آج مجھے فیصلہ سنانا ہے۔

میرے اندر بیٹھے کَھرے منصف نے مجھے اپنے فیصلے سے آگاھ کر دیا کہ، ”اس غریب شخص کا کوئی قصُور نہیں ہے، ملک کا کوئی بھی قانون اس کسان کو سزا نہیں دے سکتا۔ “

دُوسرا جُرم بھی قتل ہی کا تھا۔ شہر کے ایک تاجر کے بیٹے نے تیز رفتار گاڑی چلا کر، ہوٹل کے ایک مزدور کو کُچل دیا تھا، جس کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سیٹھ کا بیٹا نا ہی نشے کی حالت میں تھا، اور نہ ہی اس کی گاڑی میں کوئی خرابی تھی۔ ہوٹل کی مزدور یُونین کے دباؤ پر پولیس نے رپورٹ تو داخل کر دی تھی، مگر اس بزنس مین نے اپنے بیٹے کی ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی تھی، اور وہ ایک منٹ بھی تھانے کی عمارت میں نہیں رہا۔ ایسے آوارہ اور خُونی انسان کو قانون نے پیشگی ضمانت کا تحفّظ کیسے دیا تھا! جس کے جُرم کا بھی آج ہی میں نے فیصلہ سنانا تھا۔

میرے اندر بیٹھے کھرے مُنصف نے مجھے اپنے فیصلے سے آگاھ کرتے ہوئے کہا کہ، ”اس سیٹھ کے بیٹے نے پیسے کی مستی اور لاپرواہی کے وجہ سے تیز رفتار گاڑی چلا کر روڈ کے کونے میں کھڑے بے گناہ ہوٹل مزدور کو کُچل کر مار دیا ہے، جس تاجر کے لاپرواہ اور بگڑے ہوئے بیٹے کو سزا ضرُور ملنی چاہیے اور کوئی بھی قانون اسے سزا سے بچا نہیں سکتا۔

میں نے انصاف لکھنے والے قلم کو ہاتھ میں اُٹھایا۔

گاؤں کے معزز شخص کے ”بڑے وکیل“ کے مضبوط دلائل کو سامنے رکھا، میں نے غریب شخص کی جانب سے دلائل دینے والے ”نئے وکیل“ کے کمزور دلائل کا بھی بغور جائزھ لیا۔

میں نے انصاف کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھ دیا کہ، ”کسان کو گاؤں کے معزز شخص کے بیٹے کے قتل کروانے کے جرم میں سات سال کی سزا دی جاتی ہے، کیوں کہ کسان نے اپنے بیل کو جان بُوجھ کر بھنگ پلا کر مست کر دیا تھا، جو بات بیل کی میڈیکل رپورٹ میں ثابت شُدہ ہے۔ وکیل کی یہ دلیل وزن دار ہے کہ ملزم کسان، نے زمین میں کھیتی باڑی کا حق چھننے کا انتقام لینے کے لیے اس معزز شخص کے بیٹے کو اپنے بھنگ پلائے ہوئے مست سانڈ کے ہاتھوں مروا دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق کسان نے اس معزز شخص کے بیٹے کو سامنے آتا دیکھ کر عین اسی وقت اپنے بیل کی رسّی کھول دی تھی۔ اور کسان نے جان بُوجھ کر اپنے بیل کے ہاتھوں اس معزز شخص کے بیٹے کو قتل کروایا ہے۔ “

میں نے اپنے انصاف لکھنے والے قلم کو دوبارہ چَلایا اور دوسرے واقعے کے بارے میں لکھ دیا کہ، ”حادثہ اتفاقی ہوا ہے۔ “ میرے دماغ میں بزنس مین کے بیٹے کے دفاع میں دلائل دینے والے بڑے اور ”مہنگے وکیل“ کے بڑے بڑے دلائل موجود تھے، اور اس کے مقابلے میں غریب مزدور کے وکیل کے کمزور دلائل کے ساتھ ساتھ اس مزدُور کی خاموشی بھی سامنے تھی۔

میں نے لکھ دیا کہ، ”تاجر کے بیٹے کے کنٹرول سے گاڑی نکل گئی تھی، جبکہ اس تاجر کے بیٹے کو وہ مزدور مارنے کا کوئی شوق نہیں تھا، نہ ہی مزدور سے اس کی کوئی دشمنی تھی۔ لہذا سیٹھ کے بیٹے کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔ “

میں نے اپنے انصاف لکھنے والے قلم سے دونوں فیصلوں پر دستخط کر دیے۔

میرے اندر بیٹھے ہوئے کھرے مُنصف نے چیخ کر مجھے کہا، ”اے نادان! تم نے ہر طرف غریب ہی کو اپنی نا انصافی کی چُھری سے ذبح کیا ہے۔ تم خود جرائم کو فروغ دینے والے ایک بڑے مُجرم ہو۔ “

میں نے جواباً اپنے اندر بیٹھے کھرے منصف کو چار گالیاں دے کر خاموش کرا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).