ظفر اقبال: لا تنقید سے آب رواں تک


بیشتر نقادوں کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ ظفر اقبال کا پہلا مجموعہ، ”آب رواں“، عمدہ شاعری کا نمونہ ہے اور خود صاحب کتاب کے بقول ”یہ۔ ۔ ۔ ایک رجحان ساز شعری مجموعہ تھا جس نے جدید اردو غزل کے سارے منظر نامے ہی کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ [ 274 ] ( یہاں انہوں نے اس رائے کو بقول شخصے کہہ کر پیش کیا ہے لیکن اگر یہ کوئی اور شخص ہوتا تو وہ اس کا نام کبھی نہ بھولتے۔ )

”لاتنقید“ میں بعض ایسے تنقیدی اصول بیان کیے گئے ہیں جو نئے تو نہیں البتہ ان سے اختلاف نہیں کیا سکتا۔ انہی اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے ”آب رواں“ کا مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا مگر بہت جلداندازہ ہوا کہ یہ اصول محض دوسروں کی تنقیص کے لیے ہیں، وہ خود ان پر عمل پیرا ہونا ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کے بہت سے مصرعے نہ چست ہیں، نہ حشو و زواید سے پاک۔ ہماری پرانی اصطلاح کے مطابق ان کے متعدد اشعار ضعف تالیف کا شکار نظر آتے ہیں اور لطف سخن سے عاری ہیں۔ [لطف سخن پر ظفر اقبال صاحب بجا طور پر بہت زور دیتے ہیں۔ ] کتنے ہی اشعار ہیں جن میں دونوں مصرعوں میں معنی و مفہوم کا کوئی مقام اتصال نہیں مگر وہ اسے، تجربے کے نام پر، ایک امتیازی وصف قرار دیتے ہیں۔

ان کا بیان کردہ ایک اصول یہ ہے : ”اچھا مصرع بالعموم وہی ہو سکتا ہے جو مکمل طور پر، یا زیادہ سے زیادہ نثری ترتیب میں ہو، الفاظ کا استعمال اور بندش چست، برمحل اور بلا تکرار ہو، فالتو لفظ سے مبرا اور بے تکلف ہو۔ “ [ 48]

اب اس اصول کی روشنی میں ”آب رواں“ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں :

میں خاک و خون میں لتھڑا تجھے پکارتا ہوں

مجھے اٹھا نہ سہی، آ کے دیکھ جا تو سہی

دوسرے مصرعے میں ’جا‘ اور ’‘ تو میں سے ایک حرف زائد ہے۔ یعنی ’آ کے دیکھ تو جا‘ یا ’آ کے دیکھ تو سہی‘ دونوں صورتوں میں مفہوم مکمل ادا ہو جاتا ہے۔ ’پکارتا‘ کا الف دب رہا ہے۔ الف کا گرنا یا دبنا جناب ظفر اقبال کے نزدیک بھی عیب ہے۔ ’آ کے دیکھ جا تو سہی‘ غریب پیرایہء اظہار ہے۔ اسی طرح ایک اور شعر:

خوش ہے وہ اپنے گھر میں، چلو ٹھیک ہے، مگر

اتنی سی بات نے مجھے تڑپا دیا بھی ہے

دیکھیے اور ’تڑپا دیا بھی ہے‘ کی داد دیجیے۔

بھرتی کے الفاظ کی ایک اور مثال یہ شعر ہے :

کچھ آج دور سے کہسار کا نظارہ کروں

کہ آج تاب و تواں میرے بال و پر میں نہیں

دونوں مصرعوں میں ’آج‘ کی تکرار ہے جبکہ ایک ’آج‘ زائد ہے۔

یہاں غالب کا یہ شعر بھی یاد آتا ہے :

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

یہ دو شعر بھی اسی خامی کا شکار ہیں :

عرصہ عمر سے چپ چاپ گزر جانا کیا

موت کی تو نہ سہی، زیست کی پروا تو کرو

مصرع ثانی میں پہلا ’تو‘ بالکل فالتو اور بھرتی کا ہے۔

چلو وہ شوخ تو بیگانہ ہی سہی، لیکن

یہ دل تو غیر نہیں، اس پہ اپنا بس کیا ہے

مصرع اول میں ’تو‘ اور ’ہی‘ میں سے ایک زائد ہے۔

پھر جا رکے گی بجھتے خرابوں کے دیس میں

سونی، سلگتی، سوچتی، سنسان سی سڑک

ظفر اقبال صاحب نے خود بھی اس شعر کے دوسرے مصرع کو فخریہ انداز میں alliteration کی مثال میں پیش کیا ہے۔ مصرع اول میں ’پھر‘ کا لفظ بلاجواز ہے کیونکہ بات سڑک کی ہو رہی ہے نہ کہ سڑک پر چلنے والی بس کی۔ دوسرے مصرع میں سڑک کے لیے ’سوچتی‘ کی صفت کا استعمال امرواقعہ کے خلاف ہے۔ ’س‘ سے شروع ہونے والا اور کوئی لفظ نہیں سوجھا تو سوچتی ٹانک دیا۔ میں اصلاح دینے کی جسارت نہیں کر رہا لیکن اگر ’سوچتی‘ کے بجائے ’سانولی‘ کا لفظ استعمال کر لیتے تو یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ سڑک کولتار کی بنی ہوئی ہے۔

ظفر اقبال کا بیان کردہ یہ اصول بھی اہم ہے کہ مصرع بجائے خود ایک اکائی بلکہ بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ [ 49 ] اس میں کوئی شک نہیں شاعری مصرع سازی یا آج کل کی اصطلاح میں لائن لکھنے کا ہی کا نام ہے۔ ”آب رواں“ کی پہلی ہی غزل کا ایک شعر ہے :

تختہء لالہ کی ہر شمع فروزاں، جانے

کس بھلاوے میں مجھے دیکھ کے لہرائی ہے۔

مصرع اول میں ’جانے‘ دوسرے مصرع سے متعلق ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی اجازت ہے۔ لیکن اجازت کے باوجود کامیاب، مکمل اور بڑا مصرع وہی ہوگا جو معنی اور مفہوم میں خود مکتفی ہو اور جسے تنہا بھی پڑھا جا سکے۔ الفاظ و معانی کے اعتبار سے دوسرے مصرعے سے منسلک مصرع نظم میں جائز ہو سکتا ہے، جب کہ غزل میں تو یہ عیب ہی کہلائے گا۔

اب اس شعر کو دیکھیے جس میں کوئی مصرع بھی خود مکتفی نہیں :

جو خار و خس پھیلے ہیں یہاں وہاں، تجھ سے

جدا نہیں، تجھے اس بات کی خبر نہ سہی

یہ شعر بھی اظہار کی لکنت کا شکار ہے :

کس کو پتہ ہے ٹوٹتے پتوں کی ٹولیاں

اڑتی ہوا کے ساتھ کسے ڈھونڈنے چلیں

دوسرے مصرع میں اڑتی کا لفظ ہوا کے ساتھ نہیں ٹولیوں سے متعلق ہے۔ ہوا کے ساتھ اڑتی کا لفظ لگا کر اچھے بھلے پہلے مصرع کا بھی ستیاناس کر دیا ہے۔ اسی سے ملتے جلتے مضمون پر احمد مشتاق کایہ لازوال شعریاد آتا ہے جس میں فٹ پاتھ جیسا اجنبی اور نامانوس لفظ بھی نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے :

فٹ پاتھ کی دیوار سے چپکے ہوئے پتے

اک روز ہواؤں کو درختوں پہ ملے تھے۔

اتنی مختصر سی کتاب میں ایک آدھ مقام پر تو اس عیب کو گوارا کیا جا سکتا ہے مگر آٹھ دس مصرعوں میں اس عیب کا پایا جانا ’اردو غزل کا منظر نامہ تبدیل کرنے والی کتاب‘ کو سزاوار نہیں۔

جناب ظفر اقبال نے دوسروں پر تعقید لفظی کا اعتراض وارد کیا ہے۔ تعقیدعجز بیان ہی کا ایک نام ہے۔ اس کی ایک صورت وہ ہے جسے انگریزی میں dangling modifiers کہا جاتا ہے۔ ان کے کتنے ہی اشعار اور مصرعے اس خرابی کا شکار ہیں۔ کہیں صفت اور موصوف علیحدہ علیحدہ ہیں، کہیں اشارہ اور مشارً الیہ میں فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے اور کہیں حرف حصر اور محصور ایک دوسرے سے جدا جدا پڑے نظر آتے ہیں۔ وزیر آغا کے اس شعر پر انہوں اعتراض کیا ہے کہ دوسرے مصرع میں بچگانہ قسم کی تعقید لفظی موجود ہے [ 265 ]:

بنجر ہے اگر پہاڑ یکسر

آئی یہ کہاں سے آبجو ہے

یہی بچگانہ قسم کی تعقید لفظی خود ان کے اس شعر میں موجود ہے :

کسی خیال سے ٹکرا کے ٹوٹ جائے گا

کہیں یہ روگ بھری سانس کا سفینہ بھی

ظفر اقبال کے نزدیک ”غالب کی شاعری کا 80 فی صد سے زائد ٹریش پر مشتمل ہے۔ “ [ 328 ] تو گویا جس شاعر کے کلام کا 95 فی صد سے زائد ٹریش ہو وہ غالب سے بڑا شاعر ہو گا۔ غالب کے اس مصرعے پر ع ’اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے‘ اعتراض کیا ہے کہ یہاں ’مجھے‘ کے بجائے ’میرے لیے‘ زیادہ صحیح ہوتا [ 331 ]۔ اب ان کا یہ شعر دیکھیے جس میں انہوں نے ’اپنے‘ کی جگہ ’مرے‘ استعمال کیا ہے :

مرے وجود سے آگے بھی میں ہوں جلوہ نما

یقیں نہ ہو تو کبھی دیکھ لے بھلا کے مجھے

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4