ظفر اقبال: لا تنقید سے آب رواں تک


ظفر اقبال صاحب نے شکیب جلالی کے شعر پر تنقید کرتے ہوئے یہ اصول بیان کیا ہے کہ ”شعر کا واقعاتی منطقہ اگر اصول منطق پر پورا نہ اترتا ہو تو شعر قائل نہیں کرتا اور نہ ہی مزا دیتا ہے۔ [ 189 ] اس اصول کی روشنی میں ان کے یہ شعر ملاحظہ ہوں :

جو پھول کھلا زیر زمیں، ہے مرے دل میں

وہ جب سے ہوا پردہ نشیں، ہے مرے دل میں

وہ کون سے پھول ہیں جو زیر زمیں کھلتے ہیں؟ بعض سبزیاں مثلا آلو، شکر قندی وغیرہ ضرور زیر زمیں اگتی ہیں۔ کیا محبوب پردہ نشیں ہونے کے بعد خدانخواستہ زیر زمیں چلا گیا ہے؟

شبنم تازہ ہے یہ، پھول ہیں یا پتے ہیں

دیکھ شاخ شجر شام سے جھڑتا کیا ہے

یہ کونسی شبنم تازہ ہے جو شام تک شجر کی شاخ پر موجود ہوتی ہے؟ (پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم۔ غالب) اگر ظفر اقبال صاحب واقعتا ایسی شبنم دریافت کر چکے ہیں تو انہیں چاہیے کہ بلاتاخیر اس کو پیٹنٹ کروا لیں۔

ظفر اقبال کے ہاں ’بھی‘ ، ’ہی‘ اور ’تو‘ کا استعمال فنکارانہ چابک دستی سے تہی ہے حالانکہ ان الفاظ کا ماہرانہ استعمال ہی شاعری کی کلید ہے۔ انہوں نے متعدد مقامات پر مختلف شاعروں کے ہاں عیب تنافر کا ذکر کیا ہے ؛ ان کے اپنے اشعار میں یہ عیب موجود ہے۔ مثلاً:

امید دید کے سورج دکھا دکھا کے مجھے

سپرد کر گئے آخر شب بلا کے مجھے

تجھ کو سوچا تو تری روح کا اظہار تھا میں

تجھ کو چاہا تو پڑے جان کے لالے مجھ کو

دل برباد سہی میرا مقدر لیکن

اس خموشی میں مجھے ٹوٹا ہوا ساز نہ دے

دوسرے اور تیسرے شعر کے ایک ایک مصرعے میں دو دو عیب ہیں :تناف راور الف کا گرنا

ان کا یہ شعر تشبیہہ ناقص کی مثال ہے :

آج کی شب دل کی ہے زور آزمائی غم کے ساتھ

شام ہی سے ٹھن گئی ہے رستم و سہراب میں

رستم و سہراب تو باپ بیٹا تھے، غم اور دل میں رستم کون ہے اور سہراب کون؟

تازہ کاری کا جلوہ دکھانے کی خاطر ظفر اقبال صاحب نے کتنی ہی تراکیب استعمال کی ہیں جو شاید نئی تو ہوں مگر معنی اور مفہوم سے عاری ہیں یا متناقض ہیں۔

کس جستجو میں جسم جلاتے ہیں رات دن

سچ پوچھیے تو اس کی ہمیں بھی خبر نہیں۔

بھلے زمانے میں تو لوگ جی کو جلایا کرتے تھے مگر جسم جلانے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔

اس شعر میں نشہ الست کی ترکیب معنی و مفہوم سے عاری ہے۔

تجھے اٹھائے گی کیا فکر فتنہ فردا

کہ تیرے سر میں ابھی نشہء الست بھی ہے

میثاق الست کو کسی طور بھی خواب گراں کے مفہوم میں نہیں لیا جا سکتا نہ اس کا ماضی پرستی سے کوئی تعلق ہے۔

اسی غزل کا ایک اور شعر ہے :

حد نگاہ سے آگے ہے وصل کا مہتاب

طلسم شوق سے نکلو تو ایک جست بھی ہے۔

دوسرے مصرع میں ’بھی‘ کے بجائے ’ہی‘ کا محل تھا مگر کیا کریں ردیف تو آئے گی۔

اسی طرح ایک شعر میں حاتم دوراں کی ترکیب استعمال کی ہے جو تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔

بن سنے برسا رہے ہیں داد بھی بے داد بھی

حاتم دوراں ہیں اپنے دور کے نقاد بھی

اس دور کے نقادوں کو حاتم دوراں قرار دینا تو درست ہے، مگر پہلے مصرع میں بے داد کا ٹکڑا بے محل ہے۔ حاتم کا تعلق داد و دہش کے ساتھ ہے، بے داد سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ ہمارے نقادوں نے بڑی فیاضی سے ظفر اقبال پر داد کی بارش کی ہے، اگر چہ ان کی آرزو سے کم تر؛ بے داد کے جملہ حقوق تو جناب ظفر اقبال صاحب نے اپنے نام محفوظ کر لیے ہیں۔

ظفر اقبال صاحب نے ذاتی تجربے پر بہت زور دیا ہے۔ فرماتے ہیں ”ہمارا غزل گو۔ محبت کے تجربے سے گزرتا ہی نہیں اور اکثر دوسروں کی تحریر یا سنی سنائی ہی سے کام چلانے کی کوشش کرتا ہے“۔ [ 303 ] پوری کتاب میں ایک بھی شعر ایسا نہیں جو محبت کے کسی بھرپور تجربے کی غمازی کرتا ہو۔ البتہ اس شعر سے ضرور واسطہ پڑتا ہے :

وہ شب بھی ہو تجھے باہوں میں لے کے ساری رات

میں تجھ کو یاد کروں، تیرا راستہ دیکھوں

یہ شعر پڑھ کر ”لاتنقید“ میں مذکور لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک عالم دین سے سوال کیا گیا کہ کیا ایک غیر محرم جوان لڑکا اور لڑکی ایک ہی کمرے میں سو سکتے ہیں؟ عالم دین نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد جواب دیا کہ سو تو سکتے ہیں مگر وہ سوئیں گے نہیں۔ شعر میں اظہار کی گئی خواہش دیکھ کے حیرت ہوتی ہے کہ ”آب رواں“ کے زمانے میں ظفر اقبال نے ایسا شعر کس تجربے کی بنیاد پر کہا۔ یہ صورت حال تو اس مرحلہ عمر کی غماز ہے جب مصرع اول والی صورت پیدا ہو بھی جائے تو صرف چائے پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔

ہمارے شعرا حضرات نے محبوب کو ستم گر، جفا پیشہ، کج ادا سمیت نہ جانے کیا کیا نام دیے ہیں مگر ظفر اقبال صاحب نے ان پرانی باتوں کو چھوڑ کر ایک انوکھی جدت پیدا کی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب فکشن میں اینٹی ہیرو کا شور اٹھا، اردو میں اینٹی غزل کا غلغلہ بلند ہوا اور ظفر اقبال صاحب نے غالبا اینٹی محبوب کا نعرہ بلند کیا ہے۔ گھسی گھسائی تراکیب کو چھوڑ کر وہ محبوب کو بے ادا قرار دیتے ہیں جو واقعی اوریجنل تصور ہے :

موسم کی بے حسی تو کچھ ایسی گراں نہ تھی

آنسو کے آئنے میں وہی بے ادا نہ ہو

تازہ کاری کی خاطر بھی کیا کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ بے ادا کو محبوب بنانا یقینا بڑے صبر اور حوصلے کی بات ہے۔ فارسی والے شاید اسی موقع پر کہتے ہیں کہ گندم اگر بہم نہ رسد بھس غنیمت است۔

”لا تنقید“ میں متعدد مقامات پر ناصر کاظمی کا بانداز دگر تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ظفر اقبال صاحب کے لیے ناصر باقاعدہ ایک مسئلہ ہے۔ ان کے اس شعر میں، بقول ان کے، ناصرکی طرف اشارا ہے :

سبھی تسلیم ہے اے معتقد میر مجھے

اپنے بھی شعر کی دکھلا کبھی تاثیر مجھے

اسی غزل کا پانچواں شعر ہے :

ایک جھونکے سے لرز جاتی ہے بنیاد مری

کون سی شاخ پہ تو نے کیا تعمیر مجھے

ناصر کا کرشمہ دیکھیے کہ اسے مطلع میں چیلنج دیا گیا اور اس نے اپنی تاثیر دکھانے میں ذرا دیر نہیں کی۔

ناصر (برگ نے)

اب تو جھونکے سے لرز اٹھتا ہوں

نشہء خواب گراں تھا پہلے

اور اس شعر میں تو ناصر کا پورامصرع اپنی تاثیر دکھا رہا ہے۔

سنا گیا ہوں فسانے ادھر ادھر کے

ظفر پتے کی بات نہ کی، قصہ مختصر نہ کیا

”برگ نے“ کا شعر ہے :

پھر آج آئی تھی اک موجہءہوائے طرب

سنا گئی ہے فسانے ادھر ادھر کے مجھے

”آب رواں“ کی پہلی ہی غزل کا یہ شعر بھی ناصر کے اسی شعر کی یاد دلاتا ہے :

پھر سر صبح کسی درد کے در وا کرنے

دھان کے کھیت سے اک موج ہوا آئی ہے

ظفر اقبال صاحب کا ایک اور شعر ہے :

جوئے امروز کا یہ سیل رواں

پھر تو آنے سے رہا، اٹھ بیٹھو

اب ناصر کا 1958 ء کا شعر دیکھیے :

کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو

نام خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4