افسانہ: تنگ پگڈنڈی


”مجھے ابھی زین نے بتایا تم پاکستان جا رہے ہو۔ ہم الگ ہوگئے اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے میں تمہارے حوالے سے مکمل طور پر بے خبر ہو جاؤں گی۔ مجھے تم سے اور تمہاری فیملی کے ساتھ ہمدردی ہے۔ ہم الگ ہوگئے ہم نے ہونا تھا کیونکہ جن رشتوں میں بڑوں کی مرضی اور دعا شامل نا ہو وہ دیر پا نہیں ہوتے۔ تمہیں لندن کی شہریت اور مجھے تم چاہیے تھے۔ تم جیت گئے میں اور ہمارا رشتہ ہار گیا۔ میں شاید ابھی تم سے یوں رابطہ نا کرتی مگر یہ نا کرتی تو اپنے آپ کو کبھی معاف نا کر پاتی۔

میرے پاس تمہاری ایک امانت ہے۔ جس کو اس وقت تم تک پہنچانا میرا فرض ہے۔ یہ امانت چار ماہ پہلے تمہاری غیر موجودگی میں مجھ تک پہنچی، میں نے اس کو پڑھا اور تم تک نہیں پہنچایا۔ میں نے غلط کام کیا جس پر نادم ہوں۔ ہو سکے تو مجھے معاف کردینا۔ میں نے ایسا کیوں کیا یہ تمہیں خط پڑھ کر اندازہ ہو جائے گا۔ میں وہ خط تمہیں بھیج رہی ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔ خدا حافظ!

کچھ لمحے بعد ہاتھ سے لکھی گئی تحریر کا عکس اس کے موبائل کی سکرین پر موجود تھا۔

روحان ہاشم!

امید ہے تم خیریت سے ہوگے۔ خط لکھنے کی وجہ رابطوں میں موجود سات سمندر پار کی وہ دوری ہے، جہاں تک کوئی آواز کوئی صدا نہیں پہنچتی۔ تم سے بہت باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ وہ باتیں جو پانچ سال سے میرے سینے میں ٹیس بن کر مچل رہی ہیں۔ آج اس تکلیف بھرے بوجھ کو اتار پھینکنا چاہتا ہوں۔ آزاد ہوکر مرنا چاہتا ہوں۔ گذشتہ پانچ سال میرے لئے نہایت ہنگامہ خیز تھے۔ اس دوران میں نے اپنی ذات میں بہت توڑ پھوڑ ہوتے دیکھی، کئی رشتوں کو پامال ہوتے دیکھا، خونی رشتوں میں موجود جذباتیت کے اندھے کھیل کو بے نقاب ہوتے دیکھا۔

میں نے دیکھا کہ اولاد کے ساتھ باپ کا تعلق انتہائی کمزور بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔ بے اعتمادی اور خودغرضی کا ہلکا سا تھپیڑا بھی اس کی بنیاد ہلا دینے کے لئے کافی ہے۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ رشتے خون سے بڑھ کر احساس کے ہیں۔ خون کی حیثیت علامتی اور واجبی ہے، جسے دوسروں کو دھمکانے کے لئے ایک آلہ کار کے طور پر برتا جاتا ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ باپ اپنے خون سے محبت کرے اور بیٹا صرف کھلواڑ۔ میرے خیال میں قصور تمہارا، میرا یا خون کا نہیں بلکہ ان توقعات کا ہے جو ہم انجانے میں ایک دوسرے سے وابستہ کرلیتے ہیں۔

آج تمہیں یہاں سے گئے پانچ سال دو مہینے چودہ دن اور چھ گھنٹے تک کا عرصہ بیت گیا۔ تم بھی پڑھ کر ہنسو گے کہ بڈھا شاید سٹھیا گیا ہے جو اس نے دنوں اور گھنٹوں کا حساب بھی کر رکھا ہے۔ آہ! کیا کیا جائے بیٹے! باپ جو ہوں، باپ بدبخت ہوتے ہی ایسے ہیں، بلا کے رجائی، قدامت پسند اور روایتی قسم کے۔ تم تو جدید دور میں پلنے بڑھنے والے ایک روشن خیال اور اعتدال پسند سوچ کے نمائندہ ہو۔ تم نے اس بے کار سے بڈھے کی ان روایتی باتوں کو بالکل بھی دل پر نہیں لینا، اس کی عادت ہے تمہارے معاملے میں شروع سے ہی ایسا ضدی، خوش گمان اور رجائی تھا۔

بھلا سات سمندر پار جانے والے اکلوتے بیٹے سے پانچ سال، دو مہینے، چودہ دن اور چھ گھنٹوں کے بعد کوئی ایسی باتیں کرتا ہے جیسے یہ کم بخت اور خبطی بڈھا کر رہا ہے۔ خیر! تم اس کی یہ باتیں دل پر مت لینا بیچارہ بیمار ہے۔ اب کاغذ کی اس سطر پر لفظوں پر پھیلی سیاہی میرے ہاتھ کے پسینے کی وجہ سے ہے ایسا ہرگز مت سمجھنا کہ یہ میرے آنسوؤں کے گرنے کی وجہ سے پھیلی ہے یا میں رو رہا ہوں۔ میں کیوں روؤں بھلا۔ ہاشم خان اتنا کمزور تھوڑی ہے۔

کوئی باپ بھلا اپنے بچوں کے سامنے بھی روتا ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا میں زندگی میں کبھی رویا ہوں۔ ہاں! شاید ایک مرتبہ۔ جب تم پیدا ہوئے تھے۔ میرے خیال میں خوشی کے آنسو تھے تبھی آنکھوں سے ٹپک پڑے۔ میں نے دیکھا تھا تمہاری ماں بھی رو رہی تھی۔ وہ پگلی تو اب بھی روتی رہتی ہے۔ بہت سمجھاتا ہوں کہ مت رویا کرو تم سے مہینے میں ایک بار فون پہ بات کرتا تو ہے اب اس سے زیادہ وہ بیچارہ کیا کرے۔ مجھ سے تو وہ بھی نہیں کرتا۔

مجھے کبھی روتا ہوا دیکھا۔ پتہ نہیں کیا ہے اسے پھر بھی چپ نہیں کرتی۔ کہتی ہے ماں ہوں صبر نہیں ہوتا۔ میں کہتا ہوں باپ پر صبر کرنا فرض ہے کیا اس بدبخت کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ تمہاری بہن بھی کبھی کبھی تمہاری تصویر الماری سے نکال کر رونا شروع کر دیتی تھی اسے بھی یہی کہتا رہا زندہ لوگوں کو نہیں روتے۔ شاخ سے اُڑا ہوا پنچھی رستہ بھول بھی جائے تو کبھی نا کبھی واپس لوٹ آتا ہے۔ دونوں ماں بیٹی تم سے بہت محبت کرتی ہیں۔

میں پتہ نہیں کرتا بھی ہوں کہ نہیں۔ ابھی فیصلہ نہیں کر پایا۔ سدرہ بھی کبھی کبھی بہت اداس ہوتی تھی، اسے حوصلہ بھی دیتا تھا اور آس بھی کہ تم بہت جلد لوٹ کر آؤ گے۔ وہ مجھ سے بار بار پوچھتی تھی کب۔ میں کہتا تھا یہ تو میں بھی نہیں جانتا۔ ناراض ہوکر تھوڑی گیا ہے جو واپس نہیں آئے گا۔ اچھا یہ کتنی حیرانی والی بات ہے نا بیٹے! کہ میں تیرے حوالے سے سب کو حوصلہ دیتا رہا جبکہ مجھے کسی نے بھی حوصلہ دینے کی کوشش نہیں کی۔

میرے خیال میں کافی بوڑھا ہو گیا ہوں اب پہلے جتنا مضبوط نہیں رہا۔ کمر جھک کر کمان ہوگئی ہے۔ الحمدللہ خودداری ابھی قائم ہے۔ بغیر سہارے کے چلتا ہوں۔ البتہ نیند آج کل بہت کم آتی ہے۔

انتظار کی طوالت بھی صبر و استقامت کا دوسرا نام ہے۔ پانچ سال کے انتظار کی تڑپ اب ہجر کی لذت بن چکی ہے۔ اس لیے تمہیں میرے ان لفظوں سے پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ ہم اب اس لذت کے عادی بن چکے ہیں۔

میرے بیٹے! مجھے یاد ہے آج سے پانچ برس پہلے میں اور تم ہمارے کھیت سے گھر کی جانب ایک تنگ سی پگڈنڈی پر چل رہے تھے تو وہاں تمہاری کچھ باتوں سے میرے مستحکم قدم لڑکھڑا گئے تھے اور میں اس تنگ پگڈنڈی سے نیچے کھیت میں گر گیا تھا۔ میرے بچے! میں ابھی بھی اسی پگڈنڈی کے ساتھ پھیلی دھان کی فصل میں گرا پڑا ہوں۔ ان پانچ برسوں میں مجھے وہاں سے کوئی اٹھانے نہیں آیا۔ تمہاری ماں بہن اور سدرہ بھی میرے آس پاس کہیں گری پڑی ہیں۔

وہ بھی تنگ پگڈنڈی کے تنگ فیصلوں کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ معاف کرنا بیٹے تمہارا وقت بہت قیمتی ہے۔ میں نے فضول میں بات کو اتنا بڑھا دیا۔ اوپر جتنی بھی باتیں کی گئیں وہ میں نے نہیں ایک ہارے اور بکھرے ہوئے شکست خوردہ باپ نے کیں۔ انہیں دل پر مت لینا خواہ مخواہ پریشانی ہوگی۔ پچھلے دنوں تمہارے ایک جاننے والے سے رابطہ ہوا تو معلوم پڑا میرے بچے نے وردہ ریاض نامی پاکستانی نژاد برطانوی لڑکی سے شادی کر لی ہے۔ یقین مانو مجھے ذرا بھی حیرت اور پریشانی نہیں ہوئی۔

مجھے اندازہ تھا کہ مستقل دیار غیر میں رہنے کے لئے تمہیں ایسے ہی کسی آسرے کی ضرورت تھی۔ میں خوش اور مطمئن اس بات پہ ہوں کہ تمہارے لا یعنی سے انتظار کی سولی پر لٹکی بیچاری سدرہ کو آزادی مل گئی۔ اب کم از کم ہم اپنے فیصلوں میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ ایک چھوٹی سی خلش رہے گی میرے اس دل میں کہ تمہیں اپنے ہاتھ سے سہرا نہیں باندھ پایا۔ مگر کوئی بات نہیں اس پر بھی پریشان مت ہونا یہ خواہش میں سدرہ اور آمنہ کی شادی پر اپنے دامادوں کو سہرا باندھ کر پوری کر لوں گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4