ریل کا حادثہ، صحافیوں کا قتل، مولانا کا دھرنا


خبروں کے ہجوم میں یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس موضوع پر قلم اٹھایا جائے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں اچھی خبروں کا قحط رہتا ہے۔ معیشت کی مسلسل گراوٹ، مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ اور بجلی گیس کی بے قابو ہو جانے والی قیمتوں کا رونا اب معمول سا بن گیا ہے۔ کوئی عوام کی آہ و زاری پر توجہ دینے والا نہیں۔ دیکھتے دیکھتے سٹریٹ کرائمز کا دائرہ پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ ہاتھ پاوں رکھنے والے جو نوجوان روزگار تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے وہ جرائم کی راہ پر چل نکلے ہیں۔

سو آئے دن ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جو بے حد حوصلہ شکن ہوتی ہیں۔ گذشتہ ہفتے ٹرین کے اندوہناک حادثے نے پوری قوم کو غم زدہ کر دیا۔ 80 کے لگ بھگ افراد، کراچی سے راولپنڈی جانے والی ٹرین میں اچانک آتشزدگی کے باعث اس بری طرح آگ میں بھسم ہو گئے کہ ان کی شناخت نا ممکن ہو گئی۔ لا تعداد زخمی ہوئے۔ یہ ٹرین کا بد ترین حادثہ تھا۔ ہمارے میڈیا نے وزیر اعظم عمران خان کی پرانی تقریروں کے ٹکڑے چلائے جن میں وہ کہہ رہے تھے کہ ساری دنیا، خاص طور پر برطانیہ میں ٹرین کا معمولی سا حادثہ بھی ہو جائے تو متعلقہ وزیر اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے گھر چلا جاتا ہے۔

اس بار وزیر اعظم نے اپنے پرانے موقف کا اعادہ کرنے اور وفاقی وزیر ریلوے سے استعفیٰ لینے کے بجائے، صرف رپورٹ طلب کر لی ہے۔ وزارت کے دو چار بابو مل بیٹھ کر ایک رسمی سی رپورٹ تیار کریں گے جو کئی کئی دستخطوں کے ساتھ کبھی نہ کبھی وزیر اعظم تک پہنچ جائے گی۔ بظاہر نہیں لگتا کہ موجودہ حالات میں ان کے پاس ایسی رپورٹ پڑھنے کا وقت ہو گا۔

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے پہلے تو کسی انکوائری یا تحقیق و تفتیش کے بغیر اعلان کیا کہ آگ گیس کے ان چولہوں یا سلنڈروں کی وجہ سے لگی جو تبلیغی جماعت کے لوگوں نے گاڑی کے اندر چلائے تھے۔ عینی شاہدوں نے اس کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سلنڈر ضرور پھٹے لیکن اس وقت جب آگ پھیل چکی تھی۔ انہوں نے آگ کی وجہ ائیر کنڈیشنڈ بوگی میں ”شارٹ سرکٹ“ بتائی۔ مزید پتہ چلا کہ گاڑی میں آگ بجھانے کے آلات سرے سے ناپید تھے۔

آگ بھڑک اٹھنے کے بعد لوگوں نے زنجیر کھینچ کر گاڑی روکنے کی کوشش کی لیکن زنجیریں بھی ناکارہ تھیں۔ سو گاڑی اس وقت تک چلتی رہی جب تک ڈرائیور کی اپنی نظر آگ کے شعلوں اور دھوئیں کے بادلوں پر نہ پڑی۔ اس سانحے کے بعد زخمیوں پر کیا گزری اور انہیں طبی امداد ملنے میں کتنا وقت لگا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ شیخ رشید احمد نے حادثے کی سنگینی اور متاثرین کے غم کی شدت کو نظر انداز کرتے ہوئے جہاں ریلوے کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کو شش کی وہاں جاں بحق ہونے والوں کے لئے پندرہ لاکھ اور زخمیوں کے لئے تین سے پانچ لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کر کے پتہ نہیں لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھا یا ان پر نمک چھڑکا۔

حکومتوں کو ہمیشہ یہی کامیاب نسخہ نظر آتا ہے کہ وہ جان کی قیمت لگائیں اور زخموں کا مول تول کریں۔ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے یہ بھی کہا کہ ان کے دور میں ریل کے سب سے کم حادثے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے مہلک حادثات تو ماضی میں بہت ہی کم ہوئے ہیں۔ شیخ صاحب کا دعویٰ درست معلوم نہیں ہوتا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو حال ہی میں بتایا گیا تھا کہ موجودہ حکومت کے دور میں ٹرینوں کے 78 حادثات ہوئے ہیں۔ اگر اس تعداد کو چودہ مہینوں پر تقسیم کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اوسطا ہر ماہ پانچ سے زیادہ حادثات ہوئے یا یوں کہ ہر پانچویں دن ایک حادثہ پیش آیا۔

یہ کوئی کم تعداد تو نہیں۔ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ ماہرین ایک وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ سیاسی نام آوری کے لئے ٹرینوں کے کچھ نئے روٹس متعارف کروا دیے گئے۔ اس سے ریلوے کی آمدنی میں تو کچھ اضافہ ضرور ہو گیا لیکن نہ انجینئرنگ سٹاف میں نئی بھرتیاں ہوئیں، نہ دیکھ بھا ل کرنے والے عملے میں اضافہ ہوا، اور نہ ہی ریلوے کی مرمت پر توجہ دی گئی۔ وزیر صاحب نے کہا کہ مسافر ممنوع سامان لے آتے ہیں اور یہ ہمارے عملے کی غفلت ہے۔

عملے کی غفلت تو یقینا ہے لیکن شیخ صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ ریلوے کے سات زونز میں سے کہیں بھی جدید سکینرز فراہم نہیں کیے جا سکے۔ جن سے مسافروں اور ان کے سامان کو چیک کیا جا سکے۔ ریلوے کا محکمہ ہمارے نوجوانوں اور صاحب صلاحیت افراد کے لئے بھی پر کشش نہیں رہا۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق، ریلوے نے ملک کی ایک بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی میں نوجوان زیر تعلیم انجینئرز کو ترغیب دینے کے لئے سٹال لگایا۔ بتایا جاتا ہے کہ صبح سے شام تک کسی ایک بھی طالب علم یا طالبہ نے خود کو رجسٹر نہ کرایا۔

ریلوے کی پولیس کا نظام بھی کھوکھلا ہو چکا ہے۔ حقیقی احتساب یا باز پرس کا کوئی نظام ہی نہیں۔ اس حکومت کے دور میں موجودہ سانحے سے قبل ہونے والے 77 حادثات میں سے کسی ایک کی بھی حتمی اور جامع رپورٹ یا سفارشات سامنے نہیں آئیں۔ یقینا یہ المناک حادثہ بھی کچھ دنوں بعد بھلا دیا جائے گا۔ نہ کسی کی ذمہ داری کا تعین ہو گا نہ کسی سے باز پرس ہو گی۔ نہ کسی کو سزا ملے گی۔ برسوں سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔

اسی نوعیت کی ایک اور افسوسناک خبر، نہایت معتبر این۔ جی۔ او کی طرف سے آئی۔ ”پاکستانی صحافت کی دنیا میں جرم و سزا“ (Crime and punishment in Pakistan ’s journalism world) نامی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ چھ برس کے دوران پاکستان میں 33 صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کر دیے گئے۔ ان میں سے سات صحافی موجودہ حکومت کے دور میں قتل کیے گئے۔ رپورٹ میں چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ کسی ایک بھی صحافی کے قاتل نہیں پکڑے گئے۔

اور نہ ہی کسی کو سزا ملی۔ گویا قاتلوں کوریاست کی طرف سے کھلی چھٹی ملی رہی اور سزا سے مکمل استثنا کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند رہے۔ ”فریڈم نیٹ ورک“ نامی ادارے کے تحت کام کرنے والی ذیلی تنظیم کی طرف سے جاری کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے قاتلوں کو سو فیصد معافی ملتی رہی۔ ”پاکستان امپیونٹی سکور کورڈ“ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 33 صحافیوں کے قتل کی کل 32 ایف۔ آئی۔ آر درج ہوئیں۔

پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ صرف 20 مقدمات میں چالان پیش کیا گیا۔ باقی 12 ایف۔ آئی۔ آر داخل دفتر ہو گئیں۔ 20 دائر کردہ مقدمات میں سے صرف 6 کا ٹرائل مکمل ہوا۔ استغاثہ کی محنت و کا وش کا عالم یہ تھا کہ ان چھ میں سے پانچ کے ملزم ابتدائی سطح پر ہی بری ہو گئے۔ صرف ایک کو سزا ملی۔ لیکن اپیل میں وہ بھی بری ہو گیا۔ گویا نتیجہ صفر نکلا۔ گذشتہ سال قتل ہونے والے سات صحافیوں کے حوالے سے پولیس نے صرف چار کا چالان داخل کیا۔ ان چاروں کے ملزمان بھی بری ہوگئے۔ رپورٹ نے پاکستان میں صحافت کی صورتحال کے بارے میں حتمی نتیجہ یہ نکالا ہے کہ اگر صرف چھ سالوں کے ریکارڈ ہی کو پیش نظر رکھا جائے تو اندازہ ہو تا ہے کہ 33 مقتول صحافیوں کو قتل کرنے والے سارے کے سارے ملزم صاف بچ گئے۔

اگرچہ اس رپورٹ میں نہیں بتایا گیا لیکن ہمارے ہاں کئی نامور صحافیوں کے قتل پر خصوصی کمیشن بھی بنے۔ قاتلانہ حملوں میں زخمی ہونے والے صحافیوں کے حوالے سے بھی اعلیٰ پائے کے عدالتی کمیشن بنائے گئے۔ ان کا نتیجہ بھی صفر ہی نکلا۔ آج تک کوئی مجرم قانون کے شکنجے میں نہیں آسکا۔ اس صورتحال کو ہماری صحافت کے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان سمجھنا چاہیے۔ جہاں میڈیا پر پہلے ہی بہت سی قدغنیں ہیں، اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں ہیں، شدید قسم کی سنسر شپ عائد ہے۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر یہ کہ صحافی قاتلوں کے نشانے پر ہیں اور ان کی دیدہ دلیری کا سبب یہ ہے کہ وہ قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔

تازہ تریں موضوعات میں سے سب سے زیادہ زیر بحث موضوع اپوزیشن جماعتوں کا احتجاجی مارچ اور دھرنا ہے۔ جسے بجا طور پر مولانا فضل الرحمن کا مارچ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس احتجاج کی کامیابی کے بڑے ثمرات مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے حصے میں آئیں گے۔ لیکن ان دونوں جماعتوں کے رویے نے عوام کو ہی نہیں خود ان جماعتوں کے پیروکاروں کو بھی بہت مایوس کیا ہے۔ یہ مولاناکی استقامت ہے کہ وہ قومی تاریخ کا سب سے بڑا مجمع لے کر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔

یہ کہانی کہاں ختم ہوتی ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن موجودہ حکومت کو یقینا یہ سوچنا چاہیے کہ تاریخ کس طرح اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ لوگوں کو 126 دنوں پر مشتمل 2014 کا دھرنا آج تک نہیں بھولا۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ ہجوم کی طاقت سے وزیر اعظم کو ہٹانے کی کوشش نہ کل درست تھی، نہ آج درست ہے۔ لیکن اپنی بوئی ہوئی فصل کبھی کاٹنا بھی پڑتی ہے اور ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں، دانتوں سے کھولنا بھی پڑ جاتی ہیں۔ اللہ اس ملک پر رحم فرمائے۔ آمین۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).