راستہ بھولنے کے بعد خوشی کا سوال کیسا؟


شاہد کو بھی رضا سر کی طرح اُستاد بننے کا شوق تھا۔ بارہویں کے بعد وہ بی اے، ایم اے کے چکروں میں پڑ گیا۔ تاریخ میں اس کی دلچسپی تھی۔ وہ تاریخ کو ایک موضوع کی طرح نہیں پڑھتا تھا بلکہ تاریخ اس کی تجربہ گاہ تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس تجربہ گاہ کے تجربے سے حاصل ہونے والے نتائج کا حصول کرنا چاہتا ہے۔ جب وہ تاریخ سناتا تو ایسا لگتا کہ جیسے وہ خود وہاں موجود تھا بہ نفس نفیس اور سب کچھ اس کے سامنے ہی ہورہا ہوگا۔ میں نے انٹرسائنس پاس کرنے کے بعد لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔

فاصلے کی دوری نے ہماری دوستی میں کمی نہیں کی۔ جب بھی کوئٹہ آتا تو دن رات ساتھ گزرتے، اس کا میرے گھر اور میرا اس کے گھر خوب آنا جانا تھا۔ ذکیہ اس وقت بہت چھوٹی تھی۔ ہم سب کے لئے ایک کھلونا، ایک گڑیا جس سے ہم سب کھیلتے رہتے۔ وہ وقت جیسے ایک خواب تھا۔

ماسٹرز کرنے کے بعد شاہد بولان یونیورسٹی میں ہی تاریخ کے شعبے میں لیکچرر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ میں انجینئرنگ میں ماسٹرز کرنے کے بعد کراچی کے این ای ڈی یونیورسٹی میں پڑھانے لگا۔ ابو ریٹائرڈ ہوکر کوئٹہ میں ہی رہ رہے تھے مگر کبھی میرے پاس اورکبھی باجی کے پاس لاہور چلے جایا کرتے۔ میں بھی سال میں کم از کم دو تین دفعہ کوئٹہ کا چکر ضرور لگاتا۔

سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، طالبان اور افغان مہاجرین کے مسئلے مسائل، القاعدہ اور قومیتوں کے جھگڑوں کے باوجود کوئٹہ پرانے کوئٹے کی طرح تو نہیں رہا تھا مگر ابھی بھی اس کا حسن اپنی جگہ پر دلکش تھا۔

انہی دنوں کی بات ہے جب ایک دن شاہد کا فون آیا۔ وہ کافی پریشان سا تھا۔ اس نے بتایا کہ ذکیہ کسی بلوچ لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے گھر میں تھوڑی ٹینشن سی چل رہی ہے۔ پتہ لگا کہ وہ لڑکا ذکیہ سے دو سال سینئر ہے۔ وہ بھی جیالوجی میں ماسٹرز کررہا تھا اور ذکیہ کا داخلہ بھی وہیں ہوا تھا۔ وہ رضاسر کا بہترین طالب علم رہا تھا اور ذکیہ کا تعارف رضا سر نے ہی اس سے کرایا تھا۔

”یار اگر کوئی خرابی نہیں ہے تو اس شادی میں بُرائی کیا ہے۔ “ میں نے سوال کیا۔

”نہیں بُرائی تو کوئی نہیں ہے بندے میں، زین اچھا لڑکا ہے۔ نہ کسی سردار کی اولاد ہے اور نہ ہی وڈیروں جیسا اس کا ذہن ہے۔ درمیانے درجے کے بلوچ خاندان کا پڑھا لکھا فرد ہے۔ بس بات صرف یہ ہے کہ ہم لوگوں کے خاندان میں آج تک کسی کی بلوچ یا پٹھانوں میں شادی نہیں ہوئی۔ اس لئے اباجان اس بات کو ہضم نہیں کرپارہے ہیں ویسے وہ زین کو پسند بھی بہت کرتے ہیں۔ “ شاہد نے جواب دیا۔

”اگلے ہفتے میں کوئٹہ آرہا ہوں ملاقات بھی ہوگی، باتیں بھی ہوں گی۔ پھر دیکھتے ہیں۔ ٹینشن لینے کا نہیں ہے صرف دینے کا ہے۔ “ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

اگلے ہفتے ملاقات بھی ہوگئی، میں شاہد اورزین سیرینا ہوٹل کے چائنیز ریسٹورانٹ میں رات کا کھانا کھانے چلے گئے۔ زین بلوچ ایک دلکش شخصیت کا مالک، ایک ذہین دماغ رکھنے والا نوجوان تھا۔ اس کی شخصیت میں غضب کی کشش تھی، آنکھوں میں ذہانت اور پُرلطف طبیعت کا آدمی تھا۔ غالبؔ، ساحرؔ اور فیضؔ کے اشعار کا برمحل استعمال اور بلوچی لہجے میں اُردو بولنے کا انداز بہت زبردست تھا۔ بلوچستان اورپاکستان کی سیاست پر بھی اس سے بڑی دلچسپ بات چیت ہوئی۔ پاکستان کے استحصالی نظام اور اس کے خاتمے سے متعلق باتوں پر ہم سب ہی متفق تھے۔ اس کا خیال تھا کہ بلوچستان میں پٹھان بلوچ مقامی اور غیر مقامی چپقلش سے عوام کے علاوہ ہر گروہ کے سرغنوں کا فائدہ ہے۔ عوام کی حالت سنوارنے کے لئے تعلیم چاہیے، تعلیم کاہر کوئی مخالف تعلیم کا ہر کوئی دشمن ہے۔

مجھے اندازہ ہوگیا کہ ذکیہ کیوں اسے پسند کربیٹھی ہے۔ کچھ تھا اس میں۔ ایک خاص بات، ایک خاص کشش۔ ملاقات کے بعد میرا خیال تھا کہ رضا سر کو منانا ہی بہتر ہوگا۔ شاہد کو بھی اس رشتے پر کوئی خاص اعتراض نہیں تھا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ شاہد کی بھی یہی خواہش تھی کہ ذکیہ کی شادی اگر زین سے ہو تو اچھا ہی ہوگا مگر ابھی جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ زین کو تو ابھی دو سال یونیورسٹی میں ہی پڑھنا ہے۔

دوسال بھی تیزی سے گزرگئے۔ زین چار پانچ دفعہ کراچی آیا تو اس سے ملاقات ہوئی۔ اس کی باتیں متاثر کرنے والی تھیں۔ وہ سوچتا اور سمجھتا بھی تھا۔ زندگی کے بارے میں اس کے خیالات خوبصورت تھے، وہ امیدوں میں رہنے والا، خواب دیکھنے والا شخص تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے خیالات میں مزید پختگی آگئی تھی۔ وہ دوسرے بلوچ نوجوانوں سے کافی مختلف تھا۔ اس کا خیال تھا پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں، بلوچی سرداروں اور پٹھان رہنماؤں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔

یہ سب لوگ عوام کی تعلیم، عوام کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے خلاف ہیں۔ عورتوں کو پیچھے رکھنے میں بھی سب ہی متحد ہیں۔ بلوچستان میں ہزاروں سالوں سے رائج پتھروں کے دور کی روایات و اقدار کو بھی اسی طرح سے قائم و دائم رکھنا چاہتے ہیں ان سب کے سیاسی مفادات ہیں اور اپنا ایجنڈا ہے جس کو جب موقع ملتا ہے ایک دوسرے کو استعمال بھی کرلیتا ہے اپنے فائدے کے لئے، کبھی جمہوریت کے نام پر کبھی قومیت کے نام پرکبھی پاکستان کے نام پر اور کبھی اسلام کے نام پر۔

وہ اس بات سے بھی پریشان تھا کہ غیرمقامی پنجابیوں کے خلاف بلوچوں کی کارروائی مناسب نہیں ہے۔ پانچ چھ نسلوں سے رہنے والے پنجابی پنجابی نہیں رہے ہیں ان کی بول چال ان کے رسم و رواج بدل گئے ہیں اور دیکھا جائے تو بلوچستان میں تعلیم کے میدان میں جتنا کام پنجابی کررہے ہیں اور کرتے رہے ہیں وہ قابل قدر ہے۔ رضا سر تو اس کے آئیڈیل تھے جنہوں نے نہ جانے کتنے نوجوان بلوچوں اورپٹھانوں کو انگلش پڑھاتے پڑھاتے انسان بنادیا تھا۔

وہ بلوچستان میں فوجی ایجنسیوں کی خفیہ کارروائیوں اور مرکزی حکومت کی پالیسیوں سے بھی بڑا بددل تھا۔ ہم سب کی سمجھ میں نہیں آتا کہ خفیہ ایجنسی والے لوگوں کو غائب کیوں کردیتے ہیں۔ آسمان نگل جاتا ہے، زمین کھاجاتی ہے انہیں، نہ مقدمہ چلتا ہے نہ کارروائی ہوتی ہے۔ تشدد ایسا ہوتا ہے کہ لوگ بھولتے نہیں ہیں۔ یہ ساری عجیب باتیں تھیں جن پر ہم سب کا یکساں رونا تھا۔

ان ہی دنوں خبر ملی کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پنجابیوں کو کچھ زیادہ ہی ہراساں کیا جارہا ہے۔ پنجابی حجاموں کو مارا پیٹا جارہا ہے، پنجابیوں کی دکانوں کو آگ لگائی جارہی ہے۔ یہ ساری کچھ کارروائی بلوچستان کی آزادی کے نام پر کی جارہی ہے۔

میں نے شاہد کو فون کیا۔ وہ پریشان تھا مگر خوفزدہ نہیں۔ اس نے بتایا کہ بہت سارے پنجابی خاندان بلوچستان چھوڑ کر جانے کی باتیں کررہے ہیں۔ مگر یار یہ کوئی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کتنے لوگ چلے جائیں گے، پنجاب میں ہم بلوچوں کو کون پوچھے گا۔ یہاں تو ہم سب سیٹ ہیں بالکل سیٹ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3