راستہ بھولنے کے بعد خوشی کا سوال کیسا؟


اُس کی بات صحیح تھی۔ چار پانچ نسلوں سے بلوچستان میں رہنے والے پنجابیوں نے اپنی دنیا بسالی تھی وہاں۔ ان کے درد و غم بلوچوں اورپٹھانوں سے مختلف نہیں تھے وہ بھی لوٹ کھسوٹ کے نظام کا اسی طرح سے شکار تھے جس طرح بلوچ پٹھان اس کا شکار بنے ہوئے تھے۔ یہ کوئی سمجھ نہیں رہا تھا یا کوئی سمجھنے کی کوشش نہیں کررہا تھا۔

میں کوئٹہ میں ہی تھا جب پتہ لگا کہ خضدار میں انجینئرنگ کالج کے پنجابی استاد کو گولی ماردی گئی۔ وہ دن ایک خراب دن تھا۔ کوئٹہ میں سردی تھی اور بلا کا سناٹا۔ خوف نے جیسے پورے شہر کو نگل لیا تھا۔ تھوڑے دنوں پہلے ہزارہ کے کچھ لوگوں کو بلوچوں نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ یہ بچے فٹ بال کھیل کے واپس آرہے تھے۔ اس دن بھی ایسا ہی سناٹا تھا، مجھے لگ رہا تھا جیسے میرے جسم کا ہر حصہ شل ہوگیا ہے، کیا ہوگیا تھا بلوچستان کو، کیوں اُجڑ رہا تھا شہر میرا، جو مجھے جان و دل سے عزیز تھا

اس رات جناح روڈ کے پرانے کوئٹہ ریسٹورنٹ میں میں، شاہد، زین، زاہد کاکڑ، رفیق جوگیزئی بیٹھے حالات کا ماتم کرتے رہے۔ ہر کوئی فکرمند تھا اورکسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ حالات کس رخ پر کس ڈھنگ سے جارہے ہیں۔ اسکولوں میں پڑھانے والوں اور کالج یونیورسٹی میں تدریسی کاموں میں ملوث استادوں کو مارنے کا کیا فائدہ ہے۔ یہ تو تعلیم کے خلاف سازش ہے۔ اس سے کس کا فائدہ ہے؟ یہ کون سمجھتا ہے، یہ کون جانتا ہے۔

”فائدہ تو انہی کا ہے جو عوام کا اور زمین کا استحصال جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ “ زین نے بڑی نفرت سے کہا۔ ”مرکزی حکومت اور اسلام آباد کی نوکرشاہی صوبوں سے اپنے ہی عوام کا خون چوسنے والے وہ سردار جو خود تو امریکہ اورلندن پلٹ ہیں اور عوام کو پتھروں کے دور میں رکھنا چاہتے ہیں۔ “ اس نے بہت کچھ کہا اورہم سب سنتے رہے۔

کراچی واپس آیا ہی تھا کہ ایک روز شاہد کا فون آیا کہ خضدار میں رہنے والے ایک پنجابی خاندان کے پانچ افراد کو قتل کردیا گیا ہے اور رضا سر کا خیال ہے کہ پنجابیوں کو بلوچستان چھوڑدینا چاہیے۔ اب حالات اچھے نہیں ہوں گے، خراب ہی ہوں گے۔ لوگوں نے قلم دوات چھوڑدی ہے، ان کے منہ کو خون لگ گیا ہے، جب تعلیم کے بدلے میں خون گرتا ہے تو کچھ تھمتا نہیں ہے کچھ رُکتا نہیں ہے، بچے گا وہی جو بچ جائے گا۔ شاہد اس بات سے متفق نہیں تھا۔

مجھے رضاسر سے پچھلی ملاقات یاد آگئی۔ ستّر سال سے زیادہ عمر رکھنے والے استاد نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ہارگئے ہیں۔ وہ جیت گئے ہیں جو امن کے خلاف ہیں، جو انصاف نہیں چاہتے ہیں، جو آگہی نہیں چاہتے، جو تاریخ کے پہئیے کو پیچھے کی طرف گھمانا چاہتے ہیں، جن کا راستہ اندھیروں میں لے جاتا ہے۔ طالبان اور القاعدہ کی ہی طرح سے یہ لوگ بھی پتھروں کے دور کے خواب دیکھ رہے ہیں۔

پھر بہت کچھ بہت ہی جلدی ہوگیا۔ صبح سویرے ٹیلی ویژن پر پٹی چل رہی تھی، بلوچستان یونیورسٹی کے اُستاد شاہد کو گھر سے نکلتے وقت نامعلوم قاتلوں نے قتل کردیا۔

میرا دوست، میرا ساتھی، میرا ہمدم کلاشنکوف کے ایک برسٹ کی نظر ہوگیا۔ پورا جسم چھلنی ہو گیا تھا اس کا۔ اس کی بیوی، اس کے بچے، اس کا باپ اور اس کی بہن ہر ایک کے چہرے میرے سامنے آگئے۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرا کلیجہ میرے منہ سے نکل کر بہہ جائے گا۔

میں کوئٹہ گیا، اپنے ہاتھوں سے اپنے دوست کو قبر میں اُتارا۔ رضا سر کے کندھوں پر سر رکھ کر رویا تو آنسوؤں کو روک نہیں سکا۔ نہ جانے کتنی دیر تک ہچکیاں بھر بھر کر روتا رہا میں۔ بوڑھا استاد خاموشی سے مجھے تکتا رہا۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں ویران جس میں دور دور تک کوئی امید نہیں تھی اور دل جیسے آنسوؤں کے سمندر میں ڈوبا ہوا۔

زین سے ملاقات نہیں ہوئی۔ سب پریشان تھے، دو دن کے بعد میں واپس آگیا۔ روزانہ ذکیہ سے بات کرتا رہا۔ جلدی جلدی میں رضا سر نے کوئٹہ میں جو کچھ تھا بیچ دیا اور مہاجر بن کر لاہور شفٹ ہوگئے۔ ذکیہ نے ہی بتایا تھا کہ زین کی کوئی خبر نہیں ہے، اس دن کے بعد سے اس کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ نہ وہ آیا تھا اورنہ ہی اس کے گھر والوں نے خبر لی تھی۔ بھائی کی موت اورمنگیتر کی گمشدگی، بے چاری بچی پر کیا گزررہی ہوگی۔

ابو کو میں نے کراچی ہی بلالیا۔ کچھ دنوں کے بعد ابو کو لے کر شاید آخری دفعہ کوئٹہ گیا تاکہ ابو کے چھوٹے سے مکان جس کا سودا ہوچکا تھا کے دستخط وغیرہ کی کارروائی مکمل کرلوں۔ کارروائی بھی ہوگئی اور رقم بھی اکاؤنٹ میں منتقل کرادی گئی۔

اس روز شام گئے ابو کو سیرینا ہوٹل میں ٹھہرا کر میں آہستہ آہستہ جناح روڈ پر اُداس اُداس سا ٹہل رہا تھا تو مجھے زین نظر آیا۔ بیچ چوراہے پر بالکل ننگا۔ جسم پر ایک تار نہیں تھا اس کے۔ وہ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ میں نے یقیناً اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کی تھی۔ وہی سرخ و سفید چہرا، آنکھوں میں ذہانت مگر پورے چہرے پر ایک عجیب قسم کی دہشت تھی، میں دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔

میں تیزی سے اس کی طرف گیا اوراسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ٹریفک کی طرف ہی متوجہ تھا جو اپنی مرضی سے چل رہی تھی۔ میں نے قریب جا کر اس کا ہاتھ پکڑلیا، زین میں ہوں شاہد کا دوست ذکیہ کا بھائی، کیا ہوگیا ہے تم کو؟ دیکھو میری طرف۔

میں بات ہی کررہا تھا کہ اس کے دونوں بھائی بھی کہیں سے آگئے اورایک چادر سے اسے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگے۔

اس نے زور سے میرا ہاتھ پکڑلیا۔ ”بچاؤ بچاؤ مجھے ان سے بچاؤ یہ مجھے لے جائیں گے۔ مجھے راستہ دکھانا ہے، سب راستہ بھول گئے ہیں۔ رضا سر کا راستہ۔ “ نہ جانے وہ کیا کیا بک رہا تھا کہ ان کی گاڑی وہیں آگئی اوراسے ان لوگوں نے زبردستی گاڑی میں ڈال لیا۔

چلتے چلتے اس کے بھائی نے اتنا ہی کہا کہ شاہد کے قتل کے دن سے اس کی یہی حالت ہے۔ سب کچھ کرلیا، سارے علاج آزمائیے مگر یہ نہ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ شاہد کے قتل نے ہم سب کوختم کردیا ہے ختم۔

یہ سب کچھ مجھے پتہ تھا پھر بھی نہ جانے کیوں میں نے ذکیہ سے سوال کرلیا۔ ”خوش ہو نا تم۔ “

کیسا بیہودہ سوال تھا، میراسر شرمندگی کے بوجھ سے جھکتا چلا گیا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3