استاد شمّو خاں


استاد شمو خاں پہلوان کی اب تو خوب چین سے گزرتی تھی۔ کئی ایک اکھاڑے مار لینے سے مان ہوگیا تھا۔ کام بھی خوب چل رہا تھا۔ گھر میں بیوی سلمہ بتیت ہیں اور صرف دو بچے تھے۔ ورق کوٹنے سے یافت کافی ہوجاتی تھی۔ یار دوست تھے، فکر پاس نہ پھٹکتا تھا۔ اور اس کے علاوہ بدھو، درگی چماری کی لڑکی، عیش کرنے کو اللہ میاں نے پھوکٹ میں دے رکھی تھی۔ وہ کم عمر اور خوبصورت تھی۔ اس کا سڈول اور بھرا ہوا جسم، اس کا گندمی رنگ جس میں ایک ہیرے کی سی دمک تھی، اس کی بڑی بڑی مست آنکھیں، غرض کہ اس کی ہر چیز موزوں اور لاجواب تھی۔ انسان اس سے زیادہ کیا چاہ سکتا ہے؟ تمول اور اوپر سے یہ مفت کا عیش۔ شموخاں روزایک ہزار ڈنڈ بیٹھک نکالتے اور خوب گھی پی پی کر دنبے کی طرح موٹے اور چکنے ہوگیے۔

لیکن ان کو ایک فکر برابر ستایا کرتا تھا۔ ان کے گھر کے سامنے ہی شیخ نورالہی کرخندار رہتے تھے۔ ان کو استاد شموخاں کی طرح کبوتروں کی بڑے دھت تھی، اور استاد سے ان کی صید بندھی ہوئی تھی۔ شیخ نورالہی شمو خاں کو بڑھتا دیکھ کر دل ہی دل میں بہت جلتے تھے۔ اور یہ جلن اس لیے اور بھی بڑھ گئی کہ استاد شمو خاں نے نہایت عمدہ اور تگڑے پٹھے تیار کرنے شروع کردیے۔ جو حالانکہ محض نفتے پلکے ہی ہوتے تھے۔ لیکن بازی میں ہمیشہ شیخ جی کی شیرازی اور چپ کبوتروں کے جھلڑ کو نیچا ہی دکھاتے۔ اور ہر لڑائی میں شیخ جی کے ایک آدھ پٹھے کوضرور کھیر چپیک لاتے۔ پہلے تو چونکہ شروع شروع کا معاملہ تھا۔ شمو خاں نے ایک آدھ بار شیخ جی کے کبوتر واپس کر دیے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو حد سے ہی گزرا جا رہا ہے تو دینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اب چوک پر بکیں گے۔ یہ سن کر شیخ جی اور بھی آگ بگولہ ہوئے۔ جب تک یہ معاملہ آپس ہی میں تھا تو اتنی برائی کی بات نہ تھی۔ لیکن کبوتروں کا چوک پر جانا نہ صرف شیخ جی کی شان کے خلاف تھا بلکہ اس سے ان کے نام پر بٹہ آتا۔ انہوں نے شمو خاں کو روپیہ روپیہ دو دو روپیہ اپنے کبوتروں کے دینے کو کہا۔ لیکن شمو خاں بولے :

”میاں مجاز تو درست ہیں؟ ہوش کی آو۔ اب تو قبوتر چوک سے ورے نہیں ملتے۔ لمبے بنو۔ “

کبوتروں کی مار کھا کھا کے شیخ جی کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ کیا کریں، حالانکہ وہ قیمتی سے قیمتی اور اعلیٰ سے اعلیٰ پٹھے خرید کرلاتے۔ لیکن ان کو بھڑی دی نہیں کہ شموخاں نے جو اس تاک میں رہتے تھے، اپنے کبوتروں کو ششکارا۔ جو شکرے کی طرح بھاگ کر عین شیخ جی کے بیٹھتے بیٹھتے کبوتروں کے سروں پر اس زور سے جھپکی لیتے کہ ان کے ساڑھ جھلڑ کو پلٹیاں کھاتے ہوئے دور لے جاتے۔ شیخ جی بے چارے بہت باؤ باؤ کرتے لیکن شمو خاں کے کبوتر ان کو کہاں نکلنے دیتے تھے۔ جب شیخ جی کے کبوتر بالکل شل ہوجاتے تو شموخاں اپنے کبوتروں کو آواز دیتے۔ ادھر شیخ جی کا کلیجہ آؤ آؤ کر کے پھٹا جاتا، بے چارے اس قدر بد حواس ہو ہو کر چیختے کہ ہاتھ ہلا ہلا کر کر زمین سے گزوں اچھل اچھل جاتے۔ اور بجائے پانی کے مٹھیاں بھر بھر کر باجرہ ہوا میں اچھال دیتے۔ لیکن شیخ جی کے ایک آدھ شموخاں کے ہاں گرجاتا۔ شیخ جی اپنے کبوتروں کوچھوڑ کراچک اچک کر منڈیر پر سے دیکھتے کہ ان کا کیا حشر ہوا لیکن شموخاں کو چھپکا مارنے کی بھی نوبت نہ آتی اور شیخ جی کی ساری ٹکڑی پکڑی جاتی۔ اور پھر بے چارے شیخ جی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے۔ شموخاں نے تو ان کے کبوتروں کا چھت پر سے اٹھنا ہی دوبھر کردیا تھا۔

جب شیخ جی نے دیکھا کہ ان کی کسی طرح نہیں چلتی اور شموخاں سے اس بری طرح مار کھائی ہے تو وہ شمو خاں کو کسی نہ کسی طرح نیچا دکھانے کی فکر میں رہنے لگے۔ اکثر میر سعداللہ سے، جو پنشن لینے کے بعد دلی ہی میں واپس آکر رہنے لگے تھے اور میر محلہ کی حیثیت اختیار کرلی تھی، جاجاکر شکایتیں کیں، لیکن میر صاحب سمجھدار اور سنجیدہ آدمی تھے وہ اس معاملہ میں نہ پڑے۔

ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ جھٹ پٹے کے وقت شیخ جی چاوڑی بازار میں چلے جارہے تھے کہ پیچھے سے کسی نے آواز دی، ”اے میاں شیخ جی، اے میاں شیخ جی، اجی ذرا ٹھیرو تو ہم بھی آرہے ہیں۔ “ شیخ جی نے پلٹ کر دیکھا۔ ان کے دوست فاضل خاں تیز تیز قدم رکھتے ہوئے ان کی طرف آرہے تھے۔

”واہ میں باشا تم تو اللہ یانے سر پر پیر رکھے جارہے تھے۔ “

”ہاں میں تو مزے میں ہوں۔ تم سناوَں کیسے حریان نظر آرہے ہو۔ “

”میاں کیا پوچھتے ہو۔ ذری دیر ہوئی۔ ایک نیا خال پٹھا کھولا تھا کہ وس حرام زادے شموخاں نے مار لیا۔ وسکی تلاش میں جا رہا ہوں۔ “

”لو، اس پہ یاد آیا۔ میاں کچھ اور بھی تمہارے گوش گزارش ہوا؟ شموخاں کی دس بدھو سے آشنائی ہے۔ شاید تم نے بھی وس لمڈیا کو دیکھاہوگا۔ وہ چماری والی۔ میاں باشالمڈیا تو خوب زوروں پر آئی وی ہے۔ انار نارنگیاں۔ “

”کیا میاں سچ مچ کے ریے ہو؟ “

”اور نہیں تو کیا۔ میں نے خودون دونوں کو مخولیت کرتے دیکھاہے۔ “

”ملاؤ یار قورمے کا ہاتھ! یہ تو اللہ نے خوب سنائی۔ “

فاضل خاں اس اچانک تپاک سے ذرابد کے لیکن شیخ جی کا ہاتھ بڑھا ہوا دیکھ کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ دے دیا۔ اور قہقہہ مارنے لگے۔

”ارے یار باشا بات کیا ہے؟ میں تو اللہ یانے گھبرا گیا۔ “

شیخ جی کے مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق آگئی تھی۔ انھوں نے ادھر ادھر چاروں طرف نظر دوڑائی اور ایک کوٹھے کی طرف آنکھ مارتے ہوئے خوشی سے کچھ مسکراتے ہوئے کہا، ”ارے یار میں نے کہا چاوڑی تو آج بڑی رونق پر ہے۔ “

”لیکن یار تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ یہ اچانک ماجرا کیا ہوگیا۔ “

”ارے یارو کچھ نہیں۔ تم نہیں جانتے ہو۔ میری وس حرام زادے شموخاں سے چلی وی ہے۔ جب قبوتر کھولے نہیں کہ وس نے۔ “

اتنے میں پیچھے سے ایک ٹریم آگئی اور سامنے سے کچھ تانگے اور اوپر سے ایک موٹر، فاضل خاں اور شیخ جی باتوں میں اس قدر محو تھے کہ قریب تھا کہ کچل جاتے۔ جب موٹر کی آواز زور سے ان کے بالکل سامنے سے آئی تو کود کر شیخ جی ایک پڑی پر بھاگے، اور فاضل خاں دوسری پڑی پر اور ان کی بات ادھوری ہی رہ گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

پروفیسر احمد علی
Latest posts by پروفیسر احمد علی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3