سعودی عرب اور مبینہ لبرل ازم کا خواب


\"husnain “ماں کوڑے کیا ہوتے ہیں؟ اس نے بہت معصومیت سے پوچھا۔ یہ ایک ایسا سوال تھا جس نے مجھے اندر تک ہلا کر رکھ دیا تھا، میری رگوں میں سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔ تم نے یہ لفظ کہاں سنے؟ میں نے بہت ضبط کرتے ہوئے سرسری سے انداز میں اپنے بیٹے سے پوچھا، میں ایسے ظاہر کرتی رہی جیسے میں کچن میں کوئی کھانا وغیرہ بنانے میں شدید مصروف ہوں۔   اور میں واقعی مصروف تھی، لیکن صرف سوچنے میں، یہ سوال پوچھے جانے سے لے کر اب تک میرا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا، کھانا لیکن جل چکا تھا اور جلے ہوئے پنیر کی بو سارے کچن میں پھیل چکی تھی۔

یہ لفظ مجھے انٹرنیٹ پر نظر آیا تھا، لیکن اس کا مطلب ہوتا کیا ہے ماں؟

ایسے الٹے سیدھے سوال کر کے مجھے پریشان مت کرو بیٹا، تمہارے سامنے ہے، میں مصروف ہوں، کب سے کھانا بنا رہی ہوں۔

آپ مجھے بتانا ہی نہیں چاہتیں ماں، مجھے معلوم ہے۔

چلو ایسے ہی صحیح، اگر تم یوں ہی انٹرنیٹ پر وقت ضائع کرتے رہے تو میں یہ ٹیبلیٹ چھین کر دور پھینک دوں گی۔ بھاگو یہاں سے، اپنے بہنوں کو آواز دو، انہیں کہو کہ دسترخوان لگائیں، اس پورے گھر میں اکیلی میں ہی ملازمہ نظر آتی ہوں تم لوگوں کو؟ جلدی جاؤ اور اسی وقت انہیں نیچے بلاؤ۔

\"raif-badawi-2\"یہ دھمکی کام کر گئی اور دودی، میرا بیٹا منہ بسورتا ہوا اوپر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا، نجویٰ بھی اس کے ساتھ تھی۔ دونوں نے جلدی جلدی کھانے کی میز صحیح کی، کپڑا بچھایا اور رات کے کھانے کی تیاری کرنے لگے۔ میں جانتی تھی کہ وہ یہ کام نیم دلی سے کر رہے ہیں، ان کے لیے سب سے اہم معاملہ وہی ہے کہ دن رات وہ اپنے کمرے میں گھسے انٹرنیٹ پر اپنے اس خاندانی راز کو کھوجتے رہیں، یہ راز جو اب ایک مستقل دکھ بن چکا تھا۔ رائف کی قید اور اس پر کیا گیا مقدمہ، وہ مقدمہ جو میں اپنے بچوں کے سامنے بھی بھگت رہی تھی۔

میں جانتی تھی کہ میں لاکھ چھپا لوں مگر بچوں کو بہت جلد اس مقدمے اور ساری کارروائی کے بارے میں معلوم ہو جائے گا۔ کینیڈا میں جتنا زیادہ میڈیا کے لوگوں سے میری بات چیت ہوتی، یا میں انہیں رائف کے تازہ ترین حالات سے آگاہ کرتی، اتنا زیادہ اس بات کا خطرہ بڑھ رہا تھا کہ میرے معصوم بچے اس تکلیف دہ راز سے آگاہ ہو جائیں گے۔ وہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ ان کا مستقل غائب باپ کسی نہ کسی شدید پریشانی میں مبتلا ہے۔ یہ سب اس وجہ سے بھی ہو سکتا تھا کہ ہمیشہ باپ کے بارے میں سوالات پر میں انہیں الٹی سیدھی لمبی لمبی کہانیوں میں الجھا دیتی تھی۔

یہ سلسلہ بہت پہلے سے شروع ہو چکا تھا، خاص طور پر دودی ہمیشہ مجھے اپنے چبھتے ہوئے سوالوں کی آنچ پر رکھتا تھا۔ اس کا رویہ سکول میں بھی بہت بدل چکا تھا، اس کی ٹیچرز تک نے مجھے شکایت کی تھی۔

معاملہ میری برداشت سے باہر ہو چکا تھا، میں نے اپنی ملنے والی ایک لڑکی سے اس بارے میں بات کی، وہ چھوٹے موٹے سماجی کام بھی کرتی تھی۔ اس نے مشورہ دیا کہ میں اپنے بچوں کو سب کچھ سچ سچ بتا دوں۔ لیکن میں نہیں بتا سکتی تھی، ایسا کیسے ہو سکتا تھا؟ رائف نے مجھے خاص طور پر منع کیا تھا کہ میں بچوں کو بالکل کچھ نہ بتاؤں، اور یہ بات اس کے لیے بہت اہم تھی۔ اب جب کہ وہ جیل میں تھا اور ایسی وحشیانہ سزائیں بھی بھگت رہا تھا تو میں کیسے اس کی بات کا مان نہ رکھتی، یہ تو اس کی سب سے بڑی خواہش بھی تھی۔ مجھے کچھ بھی ہو جائے، میرے بچوں کو اس کا پتہ نہ لگنے دینا، انہیں یہ احساس نہ ہو کہ ان کا باپ کسی پریشانی میں ہے۔

تو بس اس طرح میں یہ چھپن چھپائی کھیلتی رہی، میں میڈیا کو رائف کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی بھی دینا چاہتی تھی، انہیں اس معاملے میں ہر وقت متحرک رکھنا میری کوشش تھی، لیکن ساتھ ساتھ اپنے ہی گھر میں اس بات کو چھپائے رکھنا بھی میری ذمہ داریوں میں تھا۔ اور ایسا لگتا تھا جیسے میں کسی تنے ہوئے رسے پر ایک لمبا سا بانس ہاتھ میں تھامے سرکس کے بازی گروں کی طرح چلے جا رہی ہوں۔ میرے نزدیک یہ ایک بھیانک خواب تھا کہ میرے بچے کسی دن صبح اٹھیں اور اخبار کے پہلے صفحے پر ان کے باپ کی تصویر ہو، وہ دیکھیں اور سب جان جائیں۔ لیکن میں یہ بھی جانتی تھی کہ ایسا ایک دن ضرور ہو گا، اور ایسا ہونا ہی چاہئیے”۔

\"raif-badawi-3\"پھر جب رائف کو سزا ہو گئی اور ایک ہزار کوڑے اور سات برس قید کی سزا سنائی گئی تو انصاف حیدر نے اپنے بچوں کو سب کچھ بتا دیا۔ یہ ایک ماں کی کہانی ہے، ایک محبت کرنے والی بیوی کی کہانی ہے، اپنے حق کی خاطر آواز اٹھانے والی عورت کی کہانی ہے۔ یہ عورت انصاف حیدر ہیں۔ رائف بدوی ان خاتون کے شوہر ہیں۔ رائف کو انٹرنیٹ پر ایک لبرل فورم بنانے کے مقدمے میں سعودی حکومت نے قید کیا۔ وہ وہاں بلاگ لکھتے تھے اور مختلف مذہبی اور سماجی معاملات پر حکومتی پالیسیوں کے بارے میں بات کرتے تھے۔ ان کا مقدمہ بھی کوئی لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ جو وکیل ہوا وہ خود منصفی مانگنے پر مجبور ہوا۔ اسے بھی دس برس قید کی سزا سنائی گئی، اس کے اوپر بھی چند الزامات لگا کر اسے اندر کر دیا گیا۔ انصاف اس لیے بچ گئیں کہ وہ اپنے تینوں بچوں سمیت کینیڈا میں سیاسی پناہ لے چکی تھیں۔ اب وہ مختلف ممالک میں سعودی سفارت خانوں کے باہر احتجاج کرتی ہیں، اقوام متحدہ تک میں اس معاملے کو اٹھا چکی ہیں، بہت سے ممالک کے سربراہان ذاتی طور پر سعودی حکومت سے اس معاملے میں بات کر چکے ہیں۔ ان سب کوششوں کا اثر اتنا ہوا کہ رائف کو پچاس کوڑے سر عام مارے گئے، لوگ نعرے لگاتے تھے اور رائف کوڑے کھاتے تھے، باقی نو سو پچاس کوڑے ایک برس سے زیادہ ہوا کہ معطل چلے آ رہے ہیں، رائف کی صحت بگڑ چکی ہے اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل انہیں ضمیر کے قیدی کا درجہ دے چکی ہے۔

“کوئی شخص اس وجہ سے قید میں ڈالا جائے کہ اس کے نظریات سیاسی یا مذہبی طور پر وہ نہ ہوں جو اس کی ریاست کے ہیں۔ وہ انسان مکمل ایمانداری سے، عدم تشدد پر عمل پیرا ہو کر ان کی حمایت کرتا ہو۔ وہ کسی بیرونی حکومت کے ایجنڈے کا حصہ نہ ہو اور اسے اس پر امن جدوجہد پر قید کر دیا جائے یا کوئی بھی دیگر ریاستی پابندیاں اس پر ہوں تو وہ شخص ضمیر کا قیدی کہلاتا ہے”

ایسے بہت سے مقدمات ہمارے یہاں بھی ہیں جنہیں کوئی وکیل لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ جو بے چارہ لینے کی غلطی کرے وہ راشد رحمان ہو جاتا ہے۔ جج ان مقدمات سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔ ان لوگوں کے خاندان بھی ایسے ہی انصاف حیدر کی طرح انصاف مانگتے پھرتے ہیں۔ کوئی ان کے حق میں لکھنے والا تو کیا پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ان کے  بیوی بچے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے رل کھل کر وقت گزار لیتے ہیں۔ ان کے لیے ایمبیسیوں کے باہر کوئی احتجاج نہیں ہوتے، ان کے مقدر کے فیصلے اخباروں میں بھی ایک دو کالمی سرخیاں بنتے ہیں اس کے بعد ہم سب انہیں بھول جاتے ہیں۔ ان میں کے اکثر جوان جہان کورٹ کچہریوں میں آتے ہیں، واپسی جن کی سفید بالوں کے ساتھ بھی ممکن نہیں ہوتی۔

\"raif-badawi\"

سعودی عرب بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ اگر لبرل ہونے کی خواہش رکھتا ہے یا جدید اقدار تھوڑی بہت اپنانا چاہتا ہے تو رائف بدوی کی رہائی اس معاملے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ جنوبی افریقہ، امریکہ، سویڈن، جرمنی، انگلینڈ اور کتنے ہی مزید ملکوں کے اہم راہنما اس سلسلے میں سعودی عرب سے باضابطہ درخواست کر چکے ہیں، کئی بار ایمنیسٹی اور دیگر تنظیموں کی طرف سے احتجاج کیا جا چکا ہے، انصاف حیدر کی آواز کینیڈا میں گونجتے گونجتے دنیا کے ہر کونے تک پہنچ چکی ہے۔ ان کی کتاب The Voice Of Freedom کا دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، دنیا بھر کے تمام ایسے لوگ جو انسانوں کے حقوق میں شمہ برابر بھی دلچسپی رکھتے ہیں وہ سوالیہ نظروں سے سعودی حکومت کی جانب کب سے دیکھ رہے ہیں۔ رائف ویسے بھی کافی سزا پا چکے ہیں، انہیں 17 جون 2012  کو گرفتار کیا گیا تھا، 50 کوڑے کھانے اور چار سال قید کاٹنے کے بعد بھی اگر ان کا جرم معاف کر دیا جاتا ہے تو دنیا بھر کے لیے سعودی عرب کی جانب سے یہ بہت اہم پیغام ہو گا۔ لیکن اگر اب بھی ایسا نہیں ہوتا، تو یہ مبینہ لبرل ازم صرف ایک خواب ہو سکتا ہے، جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔

پس نوشت؛ اس کالم میں انصاف حیدر کی آپ بیتی ان کی کتاب The Voice Of Freedom سے ترجمہ کی گئی ہے۔

 

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments