اب کیوں نکالا؟


’پیارے بچو! پھر یوں ہوا کہ عمرو عیار نے اپنی زنبیل سے سفوف عیاری نکال کر پہرے داروں کو سنگھایا۔ سب کے سب جہاں تھے وہیں کے وہیں بت بن کر ساکت ہو گئے۔ عمرو نے زنبیل سے روغن عیاری نکالا، اپنے اور شہزادے کے منہ پہ ملا، جس سے شہزادہ ایک قریب المرگ بوڑھے میں اور عمرو ایک ادھیڑ عمر طبیب میں تبدیل ہو گیا۔

تب عمرو، قید خانے کے پہرے داروں، مہتمم محلات، بادشاہ اور وزیر اعظم کی ناک کے عین نیچے سے قیدی شہزادے کو لے کر باہر نکل گیا۔ سب کی آنکھوں کی پتلیاں تو جنبش کرتی تھیں مگر طلسم کے اثر سے مجال نہ تھی کہ ایک انگلی بھی ہلا سکیں۔

قید خانے سے نکل کر عمرو نے پہلوان کا شکریہ ادا کیا جو اپنی فوج لے کر قلعے کا محاصرہ کئے ہوئے تھا۔ شہزادے کے آزاد ہوتے ہی پہلوان نے اپنا محاصرہ اٹھایا اور جس بستی سے آیا تھا اسی کی طرف نکل گیا، مگر جاتے جاتے وہ اپنے ساتھ وہ طوطا لیتا گیا جس میں قلعے کے دیو کی جان تھی۔

قید سے چھوٹ کر شہزادہ سیدھا اپنے محل میں پہنچا اور اپنے گھر والوں سے مل کر خدا کا شکر بجا لایا۔ سب نے عمرو کی بہت خاطر داری کی اور اسے مہمان رکھنے پہ اصرار کیا مگر وہ نہ مانا اور بھاگم بھاگ قلعے میں پہنچا۔

قلعے والوں کو بت بنے دو روز گزر چکے تھے۔ عمرو نے سفوف عیاری پھونکا تو سب سے پہلے قلعے کے دیو کو چھینک آئی۔ اسے چھینک آئی تو سب طلسم ٹوٹ گیا اور بادشاہ سمیت سب لوگ ہوش میں آ گئے۔

عمرو عیار، سلیمانی چادر اوڑھ کے وہیں پھر رہا تھا۔ سب لوگ تلملاتے، دانت کچکچاتے ایک دوسرے پہ شہزادے کے فرار کے الزام لگاتے، برا بھلا کہہ رہے تھے۔ کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے شہزادہ ایسے آہنی حصاروں سے جن کہ باہر ساحروں کی ایک فوج پہرہ دیتی تھی یوں نکل گیا جیسے مکھن سے بال۔

عمرو عیار نے چونکہ سلیمانی چادر اوڑھ رکھی تھی اس لیے وہ تو سب کو دیکھ رہا تھا مگر کوئی اسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ان کی باتیں سن سن کے عمرو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوا جاتا تھا اور چاہتا تھا کہ جلد از جلد لشکر میں لوٹ کے یہ خبر سنائے۔‘

یہ داستان امیر حمزہ نہیں جو آج سے صدیوں پہلے لکھی گئی۔ یہ تو وہ طلسم ہوش ربا ہے جسے ہم نے سانس روکے، بت بنے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہم خود ہی ناظر تھے، خود ہی تماشا۔ ویسے دیکھنے والوں نے بھی خوب دیکھا اور داد دی۔

مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جو کہ پچھلے برس سے جیل میں تھے، مولانا کے دھرنے کے اعلان ہی کے دنوں میں سخت بیمار پڑ گئے۔ ظاہر ہے کہ وہ حکومت ہی کی تحویل میں تھے۔

سرکاری ہسپتال ہی میں ان کا علاج ہوا، سرکاری میڈیکل بورڈ ہی نے ان کی صحت کے بارے میں رپورٹ بنائی۔ مزید تصدیق صوبائی وزیر صحت محترمہ یاسمین راشد نے کی۔ عدالت نے ضمانت منظور کی، ای سی ایل سے ان کا نام نکالا گیا اور میاں نواز شریف کو علاج کے لیے ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔

یہ سب حکومت پاکستان نے کیا۔ کیوں کیا؟ رحم آ گیا؟ کیا ایک مجرم کو یوں ضمانت دے کر فٹا فٹ ملک سے باہر بھیجنے کے لیے فقط رحم دل ہونا ہی ضروری ہے؟

قاعدے، قانون، پاکستان کا مشہور زمانہ لال فیتہ، طویل عدالتی طریقہ کار، سب پہ کون سی الو کی لکڑی پھر گئی؟ کیا میاں نواز شریف مجرم تھے؟ مجرم تھے تو اتنے با اختیار کیسے تھے؟ اور اگر اتنے با اختیار تھے تو ڈیڑھ، پونے دو سال پہلے ’مجھے کیوں نکالا‘ کی دہائی کیوں دے رہے تھے؟

اور اگر ان کے ہاتھ اتنے ہی لمبے تھے تو الیکشن کے نتائج اپنی مرضی کے مطابق کیوں نہ موڑ لیے؟ اور اگر انھیں جیل جانے سے اتنا ہی نفور تھا تو سال پہلے جیل جانے کو واپس ہی کیوں آئے تھے؟

میاں نواز شریف کے ملک سے چلے جانے کے بعد وزیر اعظم بہت خفا ہوئے اور اب تک خفا ہو رہے ہیں۔ چونکہ سادہ اور سچے سیدھے آدمی ہیں اس لیے روز اول سے فرائیڈین سلپ کے تحت دل کی بات کہہ جاتے ہیں۔

میاں نواز شریف کی ضمانت، ای سی ایل سے نام نکالنے اور باہر چلے جانے پہ وہ جس خفگی کا اظہار کر رہے ہیں وہ ان کی طرف سے واضح اعتراف ہے کہ یہ نظام خود بخود چل رہا ہے۔

بقول میر تقی میر،

یاں کے سفید و سیاہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا، یا دن کو جوں توں شام کیا

خیر، یہ تو جو ہوا سو ہوا، عوام کو ایک بات ہزارویں بار سمجھ آ گئی اور وہ یہ کہ نہ یہ دھرنا ان کے لیے تھا اور نہ یہ حکومت انھیں ریلیف دے گی۔ اس ملک کا نظام انگریز جاتے جاتے ایسا بنا گیا تھا کہ اب یہ پہیہ ایسے ہی گھومتا رہے گا۔

فوج، عدلیہ، مقننہ، نوکر شاہی، تعلیمی نظام، سب وہی ہے جو ہمارے استحصال کے لیے بنایا گیا تھا۔

یہ کرسیاں، یہ رینک، یہ گریڈز، یہ ادارے، یہ محکمے، ان سب میں ایک جادوئی تاثیر ہے۔ جو بھی ان کرسیوں پہ بیٹھے گا اس کے سر پہ عقل چوس چڑھ جائے گا۔ جو بھی ان فائلوں کو ہاتھ لگائے گا وہ انسان سے بدل کر نوکر شاہی نظام کا پرزہ بن جائے گا۔

ایڑی کو زمین پہ مارنے والا اس گمان میں مبتلا ہو جائے گا کہ وہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور پہاڑوں کی ہمسری کر سکتا ہے۔

یہ ہمارا نہیں اس نظام کا قصور ہے۔ یہ نظام جس کی ہر چول، ہر پرزہ، زنگ آلودہ ہے اور چلتے ہوئے ایسی چرخ چوں کرتا ہے کہ آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے مگر کم بخت چلے جا رہا ہے، ایک سا چلے جا رہا ہے۔ گھڑم گھڑم گھاوں گھاوں کرتا۔

تبدیلی کا نعرہ سن کے بہت سے لوگ دوڑے تھے مگر افسوس، تبدیلی والے بھی اسی نظام کا حصہ بن گئے۔ ابھی نئے ہیں چلا رہے ہیں، اپنا مذاق خود ہی بنوا رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ الو کی لکڑی کس نے پھیری اور معاملات کیسے چلے۔

عوام احمق بنے، ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں اور کچھ لوگ کھسیا کھسیا کر کھمبا نوچ رہے ہیں۔ اس ساری مارا ماری میں سب یہ بھول گئے ہیں کہ پہلوان جاتے جاتے وہ طوطا اپنے ساتھ لے گیا ہے جس میں دیو کی جان ہے۔ لگتا تو یہ ہی ہے کہ پہلوان بھی چونکہ اسی نظام کا پرزہ ہے چنانچہ طوطے کو جگر کا ماس کھلا کے ہتھیلی کا پھپھولا بنا کے رکھے گا اور زیادہ دام ملے تو واپس کر دے گا یا کہیں بھی بیچ ڈالے گا۔

یہ تو ایک منطقی انجام ہے لیکن دل کے اندر کہیں یہ خواہش ہے کہ پہلوان اس طوطے کی گردن مروڑ دے اور شہر کی فصیلوں پہ دیو کا جو سایہ ہے آخر کار شہر اس سے پاک ہو جائے۔ مگر اس طلسم کے اندر پنہاں دوسرا طلسم ایک دیو کے مرنے پہ اس سے زیادہ مضبوط دوسرا دیو تو پیدا نہیں کر لے گا؟

ایسا ہے تو یہ دیو کیا برا؟ انگریزی کہاوت ہے ’وہ عفریت جسے تم جانتے ہو اس عفریت سے کجا بہتر ہے جسے تم نہیں جانتے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).