وزیر اعظم کو سب ماموں بنا گئے


وزیر اعظم عمران خان چلتے پھرتے نواز شریف کو ٹی وی اسکرینوں پر دیکھ کر بہت پریشان ہیں اور ہماری پریشانی یہ ہے کہ ہم نے نواز شریف اور ان کے خاندان کی بجائے وزیر اعظم پر اعتبار کیا، مریم اورنگ زیب کی نواز شریف کی صحت کے بارے میں روزانہ بریفنگ ہمیں متاثر نہیں کر رہی تھی ہمیں تو نواز شریف کی بیماری کی سنگینی کا اعتبار اس وقت آیا تھا جب خود وزیر اعظم نے اس کی مسلسل تصدیق کی اور اعلان کیا کہ نواز شریف کا علاج ان ڈاکٹروں اور اس اسپتال سے کرایا جائے جہاں وہ چاہتے ہیں، پھر خود ہی عمران خان صاحب نے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت بھی دی، میڈیکل بورڈ ن لیگ نے نہیں عمران خان کی ہدایت پر حکومت نے بنایا تھا، بارہ رکنی اس بورڈ میں نواز شریف کا تو صرف ایک ذاتی معالج تھا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میڈیکل بورڈ کی سفارشات ”طے شدہ“ تھیں، کیا اس میڈیکل بورڈ کو ہدایات جاتی عمرہ سے مل رہی تھیں؟

کیا اس میڈیکل بورڈ میں شامل شوکت خانم اسپتال کا سینئر ڈاکٹر بھی کوئی کامپرومائز کر گیا تھا؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا نواز شریف کے پلیٹلٹس کو مصنوعی اور عارضی طور پر انتہائی اور کم ترین سطح پر دکھایا جا رہا تھا؟ ہمارے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر نواز شریف وزیر اعظم کے خیال کے مطابق کوئی ”دھوکہ دہی“ کرکے لندن بھاگ گئے ہیں توان ڈاکٹرز کی رپورٹس کی تحقیقات کے لئے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کی جانی چاہئیں، کیونکہ اس کیس میں یہ تو بہر حال ”ثابت“ ہو ہی چکا ہے کہ شریف خاندان کے حوالے سے ”، کسی“ پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

ہمارے وزیر اعظم تو اتنے سادہ ہیں کہ سب انہیں ”ماموں“ بنا گئے اور انہیں خبر تک نہ ہوئی، نواز شریف نے جیل سے نکلنا تھا سو وہ نکل گئے اور ان کی یہ ”واردات“ اب قصہ پارینہ ہوئی، اب تازہ ترین کہانی یہ چل رہی ہے کہ خود وزیر اعظم کی ”گھر واپسی“ کب ہو رہی ہے؟ لوگ مارچ اپریل کی تاریخیں دے رہے ہیں، اگر عمران خان نے اپنا ”فطری مزاج“ نہ بدلا تو یہ کہانیاں حقیقت کا روپ بھی بن سکتی ہیں، ایک انتہائی نہ مانی جانے والی ایک تھیوری بھی کچھ لوگ سامنے لا رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ جنہیں ”“ توسیع ”دی گئی تھی وہ اس“ توسیع ”کو قبول کرنے سے انکار بھی کر سکتے ہیں، پروپیگنڈہ یہ کیا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ جس کا استعفیٰ وہ مانگ رہے تھے وہ دو چار ماہ میں خود ہی“ فارغ ”ہو جائے گا، اب یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ“ فضل الرحمان کی حیثیت کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کا استعفیٰ مانگے ”پرویز الٰہی کی“ طاقت ”کیا ہے کہ وہ مولانا کو اس قسم کی کوئی یقین دہانی کرائیں“؟

نواز شریف کی مبینہ سنگین بیماری کے دورانیہ میں یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ عمران خان ”، اسٹیٹس کو“ کی زنجیریں کبھی نہیں توڑ سکتے، ایک مضبوط اور طاقتور ”کھلاڑی ہونے کے باوجود، کیونکہ کپتان کے پاس کپتان کے جذبے والی ٹیم ہے اور نہ ایسی کوئی ٹیم بن سکتی ہے، جس وزیر اعظم کو فردوس عاشق اعوان کو اپنی ترجمان اول رکھنا پڑے، وہ“ گدھوں ”کا مقابلہ بھلا کیسے کر سکتا ہے؟ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگلے کھلاڑی شہباز شریف، مولنا فضل الرحمان اور پرویز الٰہی ہو سکتے ہیں۔

میں اس تھیوری کی نفی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ پاکستان ہے اور یہاں سب چلتا ہے، سوائے عثمان بزدار جیسے بے ضرر لوگوں کے، یہاں کسی کو ”پاک بازوں“ کی ضرورت نہیں ہے، یہاں بیورو کریسی کو بھی ”سادہ اور سیدھے سادے حکمران قبول نہیں، اس ملک کا سب سے بڑا روزگار ایک دوسرے کے ساتھ لوٹ مار ہے، یہ وہ سمندر ہے جہاں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھاتی رہتی ہیں اور اسی اصول اور قاعدے کو ہی فطری تصور کیا جاتا ہے“ ”مساوات“، کا اصول کم از کم پاکستان میں تو چل نہیں سکتا، جو لوگ عوام کی حالت بدلنے کا خیال لے کر اقتدار میں آتے ہیں ان کے لئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔

ایسے جذبے رکھنے والوں کو تو عوام خود اپنے ہاتھوں سے مار دیتے ہیں، یہاں ایک ہی اصول کار فرما ہے اور کار فرما رہے گا ”“، خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ۔ اب آپ کی خدمت میں اپنی ایک پنجابی نظم جو اس استحصالی، فرسودہ، ظالمانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی عکاس ہے جس کی زنجیروں نے بائیس کروڑ لوگوں کو جکڑ رکھا ہے، یہ زنجیریں ہمیں بہت پیاری ہیں، ہم انہی زنجیروں کے اندر رہ کر اپنا سب کچھ تلاش کرتے ہیں اور انہی زنجیروں کے ساتھ بندھے رہ کر اپنا اور اپنی آنے والوں نسلوں کا مستقبل روشن دیکھنا چاہتے ہیں ٭٭٭٭٭ میں خورے اک سفنا ڈٹھا اے؟

پر ناں جی! ایہہ کوئی سفنا تے نئیں چٹے چانن، شکر دوپہرے! پھلاں تے کلیاں دا کانبا! کیسر دے ہوکے تے ہاڑے! گھوگڑ کاں دا کالا ہاسا! سارے باغ تے خوف دا پہرا؟ ناں جی! ایہہ کوئی سفنا تے نئیں! دیکھو یارو! قہر خدا دا ایس پرانے گھوگڑ کاں نوں کی بنیاں نیں؟ بڑا سیانا کاں بندہ سی ڈگا اے تے کتھے؟ سچ سیانے کہہ گئے یارو! جیہڑا کاں سیانا ہووے بہت سیانا۔ ڈگدا اے تے روڑی تے ڈگدا اے! کیوں اوئے کانواں!

بہت سیانیاں گھوگڑ کانواں! توں تے باز بنی پھردا سیں؟ شکرا اخواندا سیں! لکھ دی لعنت، پیڑیا کانواں! اپنے ای باغ دے چڑیاں طوطے! گرجاں اگے پا دتے نیں؟ اوئے، گرجاں اگے پا دتے نیں گرجاں تے گرجاں ای رہنا ایں پکھیاں گرجاں! کم اہناں دا راتب کھانا! میرے باغ دے چڑیاں طوبے، راتب تے نئیں! اوہ زندہ نیں اڈ سکدے نیں! لڑ سکدے نیں، پکھیاں گرجاں کیہہ لڑنا ایں! ایناں تے راتب کھانا اے! ایناں دا مزبان وی توں ایں! ایناں دا راتب وی توں ایں! ایناں تے تینوں ای کھانا ایں! اپنی جان بچا لے کانواں! بہت سیانیا، گھوگڑ کانواں! لکھ دی لعنت، ڈگا ایں تے کتھے ڈگا ایں؟
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).