باپ کی عظمت


باپ۔ اس لفظ کے آتے ہی ذہن کے کتنے دریچے کھل گئے۔ اس لفظ کو اک لفظ یا جملے میں کیسے بیان کیا جائے۔

باپ کا نام آتے ہی اک ناتواں اورضعیف رو صورت آنکھ کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔ میرے نزدیک باپ کی قدر و قیمت کسی دوسرے شخص سے کہیں زیادہ ہے کیوں کہ میرا باپ اس دنیا میں حیات نہیں۔ باپ کیا ہوتا ہے کیسا ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے شاید مجھ سے یا مجھ جیسے لوگوں سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا اور نہ سمجھ سکتا ہے جن کے والد محترم کا وصال ہوچلا ہے۔ میرا دعوی ہے کہ والد حضرات کو بھی اندازہ نہ ہوگا کہ ان کی سرپرستی اور سایہ ان کے بچوں پر کتنی بڑی رحمت اور شفقت ہے۔

ایک الہڑ خوبرو جوان مرد شادی کے بعد جب باپ کا مرتبہ پاتا ہے تو جس طرح ایک شوخ و چنچل لڑکی ماں بننے کے بعد ذہنی و جذباتی رد و بدل کا سامنا کرتی ہے اسی طرح ایک لاپرواہ اور بے باک لڑکے کے اندر بھی رد و بدل رونما ہوتی ہیں۔ اگر ماں خوشی سے نہال ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ خوش اک باپ بھی خوشی سے سرشار ہوتا ہے بس معاشرے کی بے وجہ پابندیوں نے مرد کو اظہار کی اجازت نہیں دے رکھی۔ وہ بھی اسی طرح مسرور ہوتا ہے جیسے کہ اک ماں اپنے آنے والے بچے کے لیے بے تاب ہوتی ہے۔

باپ وہ ہستی ہے جو اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لے دن رات جتا رہتا ہے۔ نہ اس کو اپنے آرام کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے صحت کی۔ وہ اپنے دن رات صرف اس جہد میں صرف کرتا ہے کہ کچھ اور محنت کرلوں تو اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرلوں۔

اپنی اولاد کی ہر اس خواہش کو پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے جو وہ اپنے بچپن میں پوری نہیں کرپایا۔

باپ وہ ہستی ہے جو دن کو دن نہیں سمجھتا۔ راتوں کو بھی فکر معاش میں بے چین رہتاہے۔ باپ کبھی ہمیں اپنی پریشانی یا الجھن نہیں بتاتا بلکہ خود سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہر مشکل اور دشواری کا سامنا کرتا ہے۔

حالات جتنے بھی ناساز ہوں وہ خود سامنا کرتا ہے۔ دن بھر کی مشقت کے بعد پہلا خیال اپنے بچوں کا آتا ہے کہ بچے میرے منتظر ہوں گے کیوں نہ جاتے ہوئے اپنی جیب کے مطابق ٹافی سموسے جلیبی یا ان کا من پسند کوئی کھلونا لیتا جاوں یا اس کو اپنے بچے کی کوئی فرمائش یاد آجاتی ہے جو ننھے نے گھر سے نکلتے وقت کر ڈالی تھی۔

باپ اک چھت کی مانند ہوتا ہے جس طرح اک چھت گھر کے مکین کو موسم کے سرد گرم ماحول سے محفوظ رکھتی ہے اسی طرح باپ موسم کے نارواں سلوک سے ہمیں تحفظ دیتا ہے۔ آندھی طوفان، گرج چمک اور گنگھور گھٹا سے بچا کے رکھتا ہے۔ اس بات کا یقین اس وقت آیا جب میرے پیارے بابا دنیا سے رخصت ہوئے۔ ایسا لگا کہ گھر کی چھت اڑ گئی ہو اور ہر آنے جانے والا یا بے درد موسم اپنا روز دکھانے کے لئے آزاد ہوگیا ہو۔ تیز ہواوں اور آندھی نے زندگی کو گھیر لیا ہو۔

تیز دھوپ اور آنکھوں کو چندیانے والی روشنی نے جسم اور آنکھوں کو ناکارہ کردیاہو۔ دنیا کیا ہوتی ہے اور دنیا کے کتنے رنگ و روپ ہوتے ہیں وہ بابا کے جانے کے بعد خوب پتا لگے۔ ایک سایہ فگن چھٹ گیا اور جہان فانی نے اپنا اصل ظاہر کرنا شروع کیا تب پتہ لگا کہ مسائل کیا ہوتے ہیں اور مشکلات کا اصل مفہوم کیا ہوتا یے زندگی کے کتنے ایسے ناگزیر پہلو تھے جس سے میں نا آشنا تھی اور جس کے بھنک بابا نے کبھی بھی لگنے نہ دی۔

باپ شفقت محبت اور ایثار کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کا غصہ وقتی ہوتا ہے اگر وہ غصہ ہو بھی جائے تو اندر ہی اندر انتظار کرتا ہے کہ اسے منا لیا جائے۔ وہ اوپر سے تو سخت ہوتا ہے پر اندر سے بالکل سادہ ہوتاہے۔ صرف اس کے اس کی جھوٹی انا اپنے شفقت کا اظہار نہیں کرنی دیتی جو کہ ہمارے معاشرے کی عطا کردہ ہے۔

گزرتے ہر لمحے، دن، مہینے، سال باپ کی اہمیت کا اندازہ بڑھتا جا رہا ہے۔ باپ جیسا بھی ہو باپ ہوتا ہے۔ اک گھنا سایہ دار درخت جو خود تو دھوپ طوفان بارش میں کھڑا رہتا ہے پر اپنے سائے میں رہنے والوں کو تحفظ دیتا ہے۔ اس کی شاخوں پہ کتنے ہی پرندے پلتے پھولتے ہیں۔ باپ کا وجود بے پناہ عزیز اور ضروری ہوتا ہے۔ باپ جیسا کوئی نہ ہوتا ہے اور نا ہوسکتا ہے۔ میں نے ہر چہرے اور ہر آنکھ میں اپنے بابا کا روپ تلاش کیا پر نہ اس جیسی نظر ملی اور نہ دست شفقت۔ آج میں اک پیغام دینا چاہتی ہوں کہ جن کے باپ حیات ہیں ان کی قدر کیجئے۔ یقین جانئے یہ ہستی اک بار کھو گئی تو کبھی اور کسی قیمت واپس نہیں ملتی۔

اپنے باپ کی عزت کیجئے۔ احترام کو ملحوظ خاطر رکھئے۔ ان بوڑھی آنکھوں میں کبھی جھانک کے تو دیکھئے تو ان جھڑپوں میں ڈوبی انکھوں میں جلتے انتظار کے دیپ نظر آئیں گے۔ کبھی ان روٹھے وجود کو گلے سے لگا کر اس میں اولاد کی محبت کو جذب کرکے دیکھئے ٹھیک اسی طرح جب آپ کمزور اور ناتواں تھے اور باہر کسی کتے کے بھونکنے سے ڈر جایا کرتے تھے اور آپ کے والد محترم اپنے جوان بازووں میں بھر کے اپ کو کہتے تھے کہ میرا بیٹا/ بیٹی کیوں ڈرتا ہے اس کے بابا ہیں نا۔

اپ بھی اسی طرح جاکے کہا کریں کہ بابا آپ کا بیٹا/بیٹی ہے نا۔ جس طرح جب آپ کو چوٹ یا تکلیف کا احساس ہوتا تو وہ گھنٹوں آپ کا غم غلط کرنے کو کہانیاں سنایا کرتے تھے آج آپ بھی 24 گھنٹوں میں سے کچھ پل ان کو کہانیاں سنا آیا کریں۔ جس طرح آپ کی خواہش پر آپ کا باپ دن بھر کا تھکا ہارا فورا گھوڑا بن جایا کرتا تھا آج آپ اس کا ہاتھ تھام کر اس کو اپنے ہونے کا لمس دے آیا کریں۔

کبھی ان کی طرف سے دل رنجیدہ ہوجائے یا ان کے بار بار بھول جانے یا سوال کرنے کی عادت طبیعت کو گراں گزرے تو اس وقت کو یاد کرلیا کریں جب آپ اپنی توتلی زبان میں گھنٹوں اک ہی سوال دہرایا کرتے تھے اور ہر بار یہی شخص جو اس وقت عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا ہے۔ اپ کو پیار سے اک ہی جواب بتایا کرتا تھا۔ آپ بھی اسی پیار و محبت سے جواب دہرایا کریں۔

یاد رکھئے ماں باپ کی رضا اللہ کی رضا ہے۔

ہم جتنے بڑے عالم ہوجائیں عبادت گزار ہوجائیں لاکھوں روپے اللہ کی راہ پہ لٹا دیں۔ چاہے جتنے اخلاق کا مظاہرہ کریں لیکن اگر ہمارا حسن سلوک اپنے والدین سے اچھا نہیں ہوا تو ہم سے زیادہ اللہ کا قہر کا حقدار کوئی نا ہوگا۔

اگر جنت کی طلب ہے تو ماں جس کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جوکہ جنت کا دروازہ ہے۔ ان دونوں کو راضی رکھنا ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح رحم کرنا ہوگا جس طرح انہوں نے ہم پر رحم کیا۔ جب ہم گوشت کے اک لوتھڑے کے سوا کچھ نہ تھے۔

جائیے کمائیے اپنی جنت۔ آپ کے والد اگر ناراض ہیں تو منالیجیے۔ جن کے والد حیات ہیں ان کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ دعاوں کا خزانہ جمع کر پائیں۔ اللہ نہ کرے کہ دیر ہوجائے اور آپ اپنے والد کا کچھ حق ادا کرنے سے بھی محروم رہ جائیں اور ہم بد نصیب کی طرح عید پر بھی دروازہ تکتے رہیں کہ کاش وہ آواز کہیں سے کانوں میں رس گھول دے۔ کاش مہندی لگی ہاتھوں میں بابا عیدی دے جائیں۔ دروازے سے الجھی نگاہیں کہ کب بابا کی گھنٹی بجے اور دوڑ کے دروازہ کھول کے عید مبارک کہیں۔

۔ وقت گزر جائے تو واپس نہیں آتا صرف یادیں رہ جاتی ہیں اسی لئے ہمیں وقت کی قدر کرتے ہوئے ان لمحات کو خوبصورت بنا لینا چاہیے۔ اس طرح وقت امر ہوجاتا ہے۔

اللہ سب کے والدین کو سلامت رکھے۔

صحتمند و تندرست رکھے اور ان کا سایہ قائم رکھے۔ آمین

عزیز تر مجھے رکھتا تھا وہ رگ و جان سے

یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں تھا میری ماں سے!

وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا تھا

یہ ہی وجہ تھی کہ وہ مجھے چومتے ہوئے جھجکتا تھا!

وہ آشنا میرے ہر کرب سے رہا ہر دم

جو کھل کے رو نہیں پایا مگر سسکتا تھا!

جڑی تھی اس کی ہر اک ہاں میری ہاں سے

یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں تھا میری ماں سے!

ہر اک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا تھا

تمام عمر سوائے میرے وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا تھا!

وہ لوٹتا تھا کہیں رات کو دیر گئے، دن بھر

وجود اس کا پیسنا میں ڈھل کر بہتا تھا!

گلے رہتے تھے پھر بھی مجھے ایسے چاک گریبان سے

یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں تھا میری ماں سے!

پرانا سوٹ پہنتا تھا کم وہ کھاتا تھا

”، مگر کھلونے میرے سب وہ خرید کے لاتا تھا!

وہ مجھے سوئے ہوئے دیکھتا رہتا تھا جی بھر کے

نجانے کیا کیا سوچ کر وہ مسکراتا رہتا تھا!

میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویران سے

یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں تھا میری ماں سے

انتخاب

اور جن کے والد نہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین یا رب اللعالمین۔

اللہ ہمارا حافظ و ناصر ہو آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).