انسانی حقوق کا عالمی دن: راؤ انوار پر امریکہ کی جانب سے پابندی


امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے افراد کی فہرست میں پاکستان کے سابق پولیس افسر راؤ انوار کا نام بھی شامل کرتے ہوئے ان پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

منگل کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر بیرونی ممالک کے اثاثہ جات کو کنٹرول کرنے سے متعلق امریکی محکمہ خزانہ کے دفتر کی جانب سے مختلف ممالک کی 18 شخصیات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ تحریری طور پر جاری پریس ریلیز کے مطابق دیگر ممالک میں برما، لبیا، سلواکیا، ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو اور جنوبی سوڈان شامل ہیں۔

بیان کے مطابق فہرست میں موجود ان اٹھارہ افراد نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ محکمہ خزانہ کے ڈپٹی سیکریٹری جسٹن جی کے مطابق اس اقدام میں ان افراد پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جنھوں نے ان معصوم لوگوں کو قتل کیا یا قتل کرنے کا حکم دیا جو انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوئے اور ان میں صحافی، اپوزیشن ممبران اور وکلا شامل تھے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ راؤ انوار خان نے اطلاعات کے مطابق ضلع ملیر میں پولیس کے سینئیر سپریٹینڈنٹ پولیس کی حیثیت سے بہت سے جعلی پولیس مقابلے کیے جن میں پولیس کے ہاتھوں لوگ مارے گئے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ 190 پولیس مقابلوں میں ملوث تھے جن میں نقیب اللہ محسود سمیت 400 افراد ہلاک ہوئے۔ پریس ریلیز کے مطابق مبینہ طور پر راؤ انوار نے پولیس کے اس نیٹ ورک کی سربراہی اور جرائم میں ملوث ٹھگوں کی مدد کی جو بھتہ خوری، زمین پر قبضہ کرنے، منشیات اور قتل میں مدد کرتے تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ راؤ انوار ساز باز کرنے، بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے ذمہ دار رہے ہیں۔

گذشتہ سال جنوری میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نقیب اللہ کو تین ساتھیوں سمیت پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور نقیب اللہ کا تعلق شدت پسند تنظیموں داعش اور لشکر جھنگوی سے ظاہر کیا تھا۔ تاہم عدالت نے نقیب اللہ محسود کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے ان پر دائر تمام مقدمات خارج کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

رواں برس مارچ میں کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور دیگر افراد پر نقیب اللہ محسود کے قتل کی فرد جرم عائد کی تھی جبکہ راؤ انوار سمیت تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

راؤ انوار کون ہیں؟

کراچی پولیس کے راؤ انوار شاید واحد رینکر افسر ہیں جنہوں نے کسی ضلعے کی سربراہی کی۔ راؤ انوار 1980 کی دہائی میں پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے، بطور سب انسپیکٹر ترقی پاتے ہی ایس ایچ او کے منصب پر پہنچ گئے، اس عرصے میں وہ زیادہ تر گڈاپ تھانے پر تعینات رہے۔1992 میں جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو راؤ انوار اس میں بھی پیش پیش تھے، جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب ایم کیو ایم کو قومی دہارے میں شامل کیا گیا تو راؤ انوار نے ایکس پاکستان چھٹی پر چلے گئے اور یہ عرصہ انھوں نے دبئی میں گذارا بعد میں انھوں نے بلوچستان میں سروس جوائن کی۔2008 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں اقتدار سنبھالا تو راؤ انوار نے دوبارہ کراچی کا رخ کیا، اس کے بعد دس سالوں میں وہ زیادہ تر ایس پی ملیر کے عہدے پر ہی فائز رہے۔

راؤ انوار نے 2016 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ 150 سے زائد مقابلہ کرچکے ہیں اگر انہیں ہٹایا نہیں گیا تو وہ اس میں اضافہ کریں گے، اپنے مقابلوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ ان کا پہلا مقابلہ ایم کیو ایم کے فہیم کمانڈو کے ساتھ ہوا تھا جس میں وہ مارا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp