’ملزم پرویز مشرف بنام سرکار‘ کی تاریخ: عدالتی رپورٹرز کی زبانی


پرویز مشرف

پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ پانچ برس سے زیادہ عرصے تک چلا۔ اس دوران جہاں چار مرتبہ عدالت کے سربراہ تبدیل ہوئے وہیں درجنوں سماعتیں ہوئیں اور مشرف دو بار عدالت میں آئے۔ اس مقدمے کی کہانی جانیے اس ٹرائل کی کوریج کرنے والے دو رپورٹرز کی ربانی۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ بھی ایسے ہی طیارے پر کیا گیا تھا جیسے اکتوبر سنہ 1999 میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف جہاز کے اغوا کا مقدمہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے درج کروایا تھا۔

فرق صرف یہ ہے کہ 12 اکتوبر 1999 میں پرویز مشرف سری لنکا کے دورے سے واپس آ رہے تھے، جبکہ منتخب وزیراعظم اسلام آباد سے کراچی جا رہے تھے: ایک مقدمے میں جو ملزم تھا وہ بعد میں مدعی بن گیا اور دوسرے مقدمے کا مدعی ملزم بن گیا۔

ایسا نہیں ہے کہ ملزم پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج ہوا تو اس کے ساتھ ہی ان پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ دراصل عدالت کو اس قانونی مرحلے کو طے کرنے کے لیے دو ماہ سے زیادہ انتظار کرنا پڑا کیونکہ ملزم عدالت میں پیش ہی نہیں ہو رہا تھا۔

پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کا ڈرافٹ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق سیکرٹری قانون بیرسٹر ظفراللہ کے بقول اُنھوں نے تیار کیا تھا۔

متعدد وکلا میڈیا کے نمائندوں کو یہ بھی بتاتے رہے کہ اُنھیں آئین شکنی کے مقدمے کی پیروی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن بلاآخر قرعہ اکرم شیخ کے نام نکلا۔ ان کے بقول اُنھوں نے اس مقدمے کے لیے حکومت سے کوئی معاوضہ نہیں لیا۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی کارروائی سے پہلے ملزم کے وکلا کے پینل نے مختلف عدالتوں میں 26 درخواستیں دائر کی تھیں۔

یہ مقدمہ تحریک انصاف کے دھرنوں تک زور و شور سے چلا لیکن ان کے بعد طویل عرصے کے لیے اسے پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔

مشرف

بنتی، ٹوٹتی خصوصی عدالت

نواز شریف حکومت نے اپنی ہی بنائی ہوئی پراسیکیوشن ٹیم کو بتایا کہ یہ مقدمہ ختم کرنے کے لیے ان کو بہت دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ٹرائل کی باقاعدہ کارروائی 20 دسمبر 2013 کو شروع ہوئی جب خصوصی عدالت نے پرویز مشرف سمیت تمام فریقوں کو پیشی کے نوٹس بھیجے۔ پراسیکیوشن ٹیم نے اپنی تمام شہادتیں اور دلائل 14 مئی 2014 کو مکمل کر لیے تھے۔

اس کے بعد مشرف کے وکلا کی جانب سے متعدد درخواستیں دی گئیں اور یہ ٹرائل عدالتی فائلوں میں ہی دب کر رہ گیا۔

نواز شریف کے دور حکومت میں بننے والی خصوصی عدالت کے سربراہ رہنے والے تین جج بعد میں سپریم کورٹ کے جج بن گئے جس کی وجہ سے ہر بار اس عدالت کی نئے سرے سے تشکیل کرنی پڑی۔

جسٹس طاہرہ صفدر چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں تو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ خصوصی عدالت کے سربراہ بن گئے۔ ان سے قبل جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس مقدمے کی سماعت سے معذرت بھی کی تھی۔

جسٹس سیٹھ کا نام عالمی عدالت انصاف میں اس وقت سامنے آیا جب حکومت پاکستان نے اپنے زیر حراست مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کے مقدمے میں بتایا کہ ہمارے ہاں جج فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ جسٹس سیٹھ نے درجنوں ملٹری ٹرائل کے علاوہ آرمی کے حراستی مراکز سے متعلق صدارتی آرڈیننس کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔

حراستی مراکز کا کیس اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

ریٹائرڈ فوجی ٹرائل روکنے کے لیے سرگرم

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری ٹرائل کا اعلان ہوا تو فوجی افسران میں جیسے غصے کی لہر دوڑ گئی ہو۔

‘پاکستان فرسٹ’ کے نام سے ریٹائرڈ فوجی افسران کی ایک تنظیم کے ارکان اسلام آباد کے کلب روڈ پر واقع رمادہ ہوٹل میں جمع ہوئے اور جارحانہ خطابات کیے۔

اس ایکس سروس مین سوسائٹی کے کوآرڈینیٹر مشرف دور کے کور کمانڈر منگلا لیفٹننٹ جنرل جاوید عالم تھے۔

یہ تقریب ایک سیمینار کی شکل اختیار کر گئی۔ اس اجتماع سے پرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے بھی خطاب کیا۔

پرویز مشرف نے ویڈیو خطاب کرتے ہوئے اپنے دور کے ‘کارنامے’ بتاتے ہوئے ان افسران کو تسلی دی کہ فوج میرے ساتھ ہے، بے فکر رہیں، آخر میں کچھ نہیں ہوگا۔

اگرچہ سٹیج پر آکر جوشیلی تقریریں ریٹائرڈ افسران نے کیں تاہم اس تقریب میں حاضر سروس افسران نے بھی شرکت کی تھی۔ سوال جواب کا سیشن ہوا تو انھوں نے صحافیوں کو یہ کہہ کر سوال کرنے سے منع کر دیا کہ یہاں صرف فوجی افسران ہی سوال کر سکتے ہیں۔

فوجی افسران کی اس بیٹھک میں ریٹائرڈ جرنیلوں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ جن میں لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ حامد خان اور جنرل سکندر پاشا بھی موجود تھے۔

ان تقاریر میں انھوں نے جہاں نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بنایا وہیں انھوں نے اس وقت کے آرمی چیف اشفاق کیانی پر بھی تنقید کے خوب تیر برسائے۔ ان افسران نے ٹرائل کو روکنے کے لیے مہم چلانے کا اعلان بھی کیا۔

چائے کی میز پر ان افسران نے صحافیوں سے بھی بات چیت کی لیکن ان کا انداز بہت جارحانہ تھا۔

مشرف پر سنگین غداری کی فردِ جرم

31 مارچ 2014 کا دن ہے۔ کالے رنگ کے کوٹ اور خاکی شلوار قمیض میں ملبوس سنگین غداری کیس میں ملزم جب کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو سکیورٹی اہلکاروں نے عدالت کے بائیں جانب تمام نشستیں خالی کروا دیں۔

یہ پرویز مشرف کی اپنے خلاف قائم کیے گئے مقدمے میں دوسری پیشی تھی۔

اس سے قبل مشرف تقریباً ایک ماہ پہلے یعنی 18 فروری کو بھی ایک ملٹری ہسپتال سے، جہاں وہ دو جنوری سے زیر علاج تھے، عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ تاہم عدالت نے فرد جرم کے لیے انھیں دوبارہ حاضر ہونے کے احکامات جاری کیے۔

پرویز مشرف

مشرف 31 مارچ کو دوسری اور آخری بار عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

صبح سویرے سے ہی ریڈ زون میں داخل ہونے والی ہرگاڑی اور شخص کو خاص سکیورٹی چیک سے ہو کر گزرنا تھا۔

پیشی سے قبل بم ڈسپوزل عملے نے آکر کمرہ عدالت اور ججز کی نشستوں کی بھی تلاشی لی اور پھر بینچ کے دائیں اور بائیں جیمر رکھ کر چلتے بنے۔

عدالتی کارروائی کا آغاز عدالتی اہلکار کے اعلان سے ہوا ‘ملزم پرویز مشرف بنام سرکار’ حاضر ہوں۔

سابق آرمی چیف پرویز مشرف نو بجکر 39 منٹ پر وزیر اعظم سیکرٹیریٹ کے عقب میں واقع نیشنل لائبریری کے آڈیٹوریم میں، جسے سنگین غداری مقدمے کے لیے سپیشل عدالت میں تبدیل کردیا گیا تھا، داخل ہوئے۔

عدالتوں میں عمومی طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملزم جج کے آنے سے پہلے کمرہ عدالت میں موجود ہوتا ہے لیکن اس پرویز مشرف کے مقدمے میں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔

جسٹس فیصل عرب جو کہ اس وقت سندھ ہائی کورٹ کے جج تھے، کی سربراہی میں مختلف ہائی کورٹس کے تین جج صاحبان ملزم کا انتظار کررہے تھے۔

دو مرتبہ جج عدالت میں آئے اور پھر اُٹھ کر چلے گئے کیونکہ ملزم ابھی تک پیش نہیں ہوا تھا۔ تیسری مرتبہ خصوصی عدالت کے تین جج صاحبان اس وقت کمرہ عدالت میں آئے جب انھیں بتایا گیا کہ ملزم پرویز مشرف کمرہ عدالت میں پہنچ چکے ہیں۔

اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سیکرٹیریٹ میں ہی موجود تھے اور بالائی منزل سے انھوں نے مشرف کی پیشی کے مناظر بھی دیکھے اور اس بارے میں اگلے دن اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئیں۔ جیسے ہی جج کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو اپنی ٹریننگ کے عین مطابق مشرف نے ججز کو سلوٹ کیا۔ جسٹس فیصل عرب نے، جن کے دائیں اور بائیں جسٹس طاہر صفدر اور جسٹس یاور سعید موجود تھے، سر ہلا کر مشرف کے سلوٹ کا جواب دیا۔

ٹی وی چینلز کے رپورٹرز نے باہر نکل کر خبر عام کرنے کی کوشش کی تو انھیں عدالت سے باہر نکلنے کی اجازت نہ مل سکی۔ اب کوئی اندر آسکتا تھا نہ باہر جا سکتا تھا۔

فروغ نسیم اِن، انور منصور آؤٹ

کچھ دیر میں ہاتھ میں بریف کیس تھامے ایک شخصیت داخل ہوئیں اور عدالت میں اس کیس میں پیش ہونے کے لیے اپنا وکالت نامہ پیش کیا۔ یہ ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم تھے، جو موجودہ حکومت میں وزیر قانون ہیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور نے، جو فروغ نسیم سے قبل پرویز مشرف کی وکلا ٹیم کی سربراہی کر رہے تھے، عدالتی کارروائی کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کیا کہ یہ ذاتی عناد پر مبنی کیس ہے اور اس میں ‘پراسیکیوشن’ نہیں بلکہ ‘پرسیکیوشن’ کی جا رہی ہے۔

انور منصور کی ٹیم سے بینچ کو بھی گلے شکوے تھے۔ ایک وکیل عدالت کی موجودگی میں ایسے نازیبا اشارے کرتے تھے جنھیں صحافیوں کے لیے بھی رپورٹ کرنا آسان نہ تھا۔ عدالت نے بالآخر اس وکیل کی عدالت آنے پر پابندی عائد کر دی۔

فروغ نسیم نے اپنے پہلے خطاب میں ہی ججز کو یہ باور کرایا کہ آئندہ عدالت میں کوئی بدتمیزی نہیں ہوگی اور عدالت کے ڈیکورم کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ اس عہد کو فروغ نسیم نے آخر وقت تک نبھایا۔ جج تو جج انھوں نے کبھی مخالف وکلا یعنی پراسیکیوشن کے لیے بھی سخت الفاظ استعمال نہیں کیے۔

یہ وہ موڑ تھا جہاں سے مشرف کو ریلیف ملنا شروع ہوئے۔ اب فروغ نسیم تیاری کے ساتھ عدالت آتے اور اپنے دلائل سے عدالت میں سماں باندھ دیتے۔

فروغ نسیم نے پہلی پیشی پر عدالت سے درخواست کی کہ مشرف کو گرفتار نہ کیا جائے اور ان کی بیمار والدہ کی عیادت کے لیے ان کا نام ای سی ایل سے نکال کر باہر جانے کی اجازت بھی دی جائے۔

جسٹس فیصل عرب نے وضاحت دی کہ پرویز مشرف ایک آزاد فرد ہیں انھیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے ریمارکس دیے کہ آج صرف فرد جرم عائد ہوگی جبکہ مزید کارروائی ملتوی کر دی جائے گی۔

بلوچستان ہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس طاہرہ صفدر نے پرویز مشرف کے خلاف الزامات کی فہرست پڑھ کر سنانا شروع کر دی۔ مشرف نے سب بغور سنا۔

احتجاج
اپریل 2014: پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد ہونے کے خلاف سابق صدر کے حامیوں کا کراچی میں مظاہرہ

مشرف ’ہائی ٹریزن‘ کے اردو ترجمے پر خفا

عدالت نے جیسے ہی مشرف پر فرد جرم عائد کی تو ان سے پوچھا گیا وہ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہیں تو اس پر مشرف نے دوبارہ نشست پر بیٹھنے کے بجائے کھڑے ہو کر اپنی صفائی دینا شروع کر دی۔

اپنے مخصوص انداز میں انھوں نے عدالت کو مخاطب کیا اور کہا ’ہیں نے دو جنگیں لڑی ہیں۔ 1965 کی جنگ کے دوران مجھے بہادری اور شجاعت کا ایوارڈ بھی ملا۔‘

سابق آرمی چیف نے کارگل واقعے کو بھی اپنی بہادری کی داستان کے طورپر پیش کیا۔ یہ ایک ایسا متنازعہ معرکہ ہے جس کے بارے میں آرمی کی تقریبات میں بھی کم ہی سننے کو ملتا ہے اور نواز شریف نے اس معرکے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقاتی کمیشن کا اعلان بھی کیا تھا۔

مشرف نے عدالت میں اپنے خطاب میں کہا کہ ‘کارگل (کا معرکہ) میری بہادری اور حب الوطنی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ میں سرنڈر کرنے کے بجائے موت کو ترجیح دیتا ہوں۔’

مشرف نے کہا ‘مجھے غدار کہا جا رہا ہے جبکہ میں نو سال تک آرمی چیف رہا اور میں نے آرمی میں 45 سال گزارے۔’

انھوں نے ججز سے شکوہ کیا کہ ‘ہائی ٹریزن کا اردو میں سنگین غداری ترجمہ کرنا درست نہیں ہے۔’ مشرف پھر خود ہی گویا ہوئے کہ ‘میرے خیال میں انگلش میں ہائی ٹریزن کی اصطلاح کسی حد مناسب ہے۔’

پرویز مشرف مقدمے میں پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے مشرف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس آئین توڑنے اور حدود پھلانگنے کی حد تک ہے۔ ‘جہاں تک تعلق ہے اس اصطلاح کی تو یہ اہل زباں کا کام ہے کہ وہ اس کا مناسب ترجمہ کریں۔’

اس کے بعد اکرم شیخ نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ مشرف بھی ان (اہل زباں) میں سے ایک ہیں۔’

مشرف

اصل غدار کون: مشرف کا عدالتی کٹہرے سے چیلنج

پرویز مشرف نے عدالت کو بتایا کہ اصل غدار وہ ہیں جنھوں نے ملکی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے اور قومی دولت لوٹی۔ فرد جرم پڑھ کر سنانے والی جسٹس طاہرہ صفدر کو مخاطب کرتے ہوئے مشرف نے کہا میڈم آپ بلوچستان سے ہیں، آپ کو معلوم ہے میں نے وہاں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے ہیں۔

پرویز مشرف جذباتی ہو کر بولے ‘میں ہر ایک کو چیلنج دے سکتا ہوں کہ میں نے پنجاب سے بڑھ کر بلوچستان کو فنڈ دیے۔’

پرویز مشرف اپنے کارناموں کی داستان تفصیل سے بتارہے تھے۔ اس دوران جسٹس طاہرہ صفدر، جو بعد میں بلوچستان ہائی کورٹ کی چیف جسٹس بھی بنیں، اپنی فائل میں مگن نظر آئیں۔

پرویز مشرف نے کہا کہ ان کے دور میں عدلیہ میں ہر تقرری میرٹ پر ہوئی۔

جسٹس فیصل عرب یہ سن کر مسکرا دیے۔ خیال رہے کہ جسٹس فیصل عرب بھی مشرف دورمیں ہی سندھ ہائی کورٹ کے جج بنے تھے۔

مشرف نے کہا ‘آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی) کے ڈاکٹرز کے مشورے کو نظر انداز کر کے میں آج ایک گھنٹے تک بول سکتا ہوں۔’

انھوں نے کہا ‘میری انا اس معاملے میں آڑے نہیں آ رہی ہے، میں یہاں خود خطرہ مول لے کر آیا ہوں، میں ایک سال کے عرصے میں 16 بار ملک کی مختلف عدالتوں کے سامنے پیش ہو چکا ہوں۔’

‘تاہم میں گذشتہ ایک سال سے یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ کیا یہی وہ مقدمہ ہے جو اس ملک کی بقا کے لیے لڑنا انتہائی اہم ہے۔’

پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے نفاذ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا ‘یہ اکیلے میرا فیصلہ نہیں تھا۔’ پھر بولے وزیر اعظم، وفاقی کابینہ، کور کمانڈرز اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی ایڈوائس سے یہ فیصلہ کیا تھا۔

اپنا خطاب مکمل کرنے کے بعد مشرف نے اپنے قریب کھڑی ایک خاتون وکیل سے کہا “میڈم آپ کو میرا خطاب کیسا لگا؟‘

خاتون وکیل نے مشرف کے خطاب کی تعریف کی جسے سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔

مشرف نے عدالت میں ڈیڑھ گھنٹے کا وقت گزارا اور پھر سکیورٹی کے سخت حصار میں واپس اپنے گھر کے لیے روانہ ہوگئے۔

کچھ دیر انھوں نے اپنے ایک وکیل فیصل چوہدری سے بات کی اور گاڑی میں بیٹھ کر چلتے بنے۔

اکرم شیخ
مشرف کیس میں پراسیکیوٹر اکرم شیخ

پراسیکیوٹر کی مشرف سے ملاقات

اس مقدمے میں پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے عدالت میں پرویز مشرف کو سلام کیا اور یہ یقین دہانی بھی کرائی کے وہ اس مقدمے میں ان کے بارے میں کوئی تعصب نہیں رکھتے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ‘راشد قریشی میرے کلاس فیلو رہ چکے ہیں، کیا انھوں نے یہ نہیں بتایا آپ کو۔’

اس پر مشرف نے مسکراتے ہوئے کہا ‘او اس وجہ سے آپ اپوزیشن میں ہیں۔’ جس پر پراسیکیوٹر نے سنجیدگی سے جواب دیا ‘سر میں آپ کے خلاف نہیں ہوں۔’

پرویز مشرف نے جب عدالت سے دبئی جانے کی اجازت طلب کی تو اکرم شیخ نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔

تاہم خصوصی عدالت نے مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دیتے ہوئے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے متعلق معاملہ وفاقی حکومت پر چھوڑ دیا۔

واضح رہے کہ مشرف کے پراسیکیوٹر اکرم شیخ اس سے قبل اصغر خان کیس میں، جو 1990 میں انتخابی دھاندلی سے متعلق تھا، سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ اکرم درانی کے وکیل کے طور پر عدالتوں میں پیش ہو رہے تھے۔

عدالتی سماعت کے بعد اکرم شیخ نے کہا کہ میں آج سب سے زیادہ خوش ہوں۔ ان کے ساتھی وکیل نے تبصرہ کیا کہ ‘آج مقصد حاصل ہو گیا ہے۔’

مشرف کی کابینہ
اپریل 2006: مشرف کی کابینہ کی تقریب حلف برداری

ملزم پرویز مشرف پر آئین شکنی کے مقدمے کی فرد جرم عائد ہونے کے بعد استغاثہ کی طرف سے گواہوں کے بیانات ریکارڈ کروانے کا مرحلہ 18 ستمبر 2014 کو مکمل کر لیا گیا تھا۔

لیکن عدالتی فیصلہ ہونے سے پہلے ہی ملزم کی طرف سے ایک اور درخواست دائر کر دی گئی جس میں کہا گیا کہ ملک میں ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ ان اکیلے کا نہیں بلکہ اس وقت کے وزیر اعظم ،وزیر قانون، چاروں صوبوں کے گورنرز اور کور کمانڈرز کا تھا۔ اس درخواست پر بھی آٹھ ماہ کے بعد فیصلہ آیا اور خصوصی عدالت نے آئین شکنی کے مقدمے میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز، وزیر قانون زاہد حامد اور اس وقت کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا۔ تاہم مذکورہ افراد نے فیصلے کو پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ عدالت عظمی نے خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ آئین شکنی کے مقدمے میں کسی اور شخص کا نام شامل کرے، یہ استحقاق وفاقی حکومت کا ہے۔

قصوری
احمد رضا قصوری

ٹرائل کے آغاز پر احمد رضا قصوری کی پیش گوئیاں

پرویز مشرف کے وکلا کی پہلی ٹیم نے ٹرائل کے آغاز میں جارحانہ پالیسی اختیار کی۔ ابتدائی سماعتوں پر ججز کو بھی القابات سے نوازا گیا۔ تیسری یا چوتھی سماعت پر ایک وکیل نے ججز کو کرائے کا قاتل تک کہہ دیا، جس کے بعد مشرف کی قانونی ٹیم کے ساتھ بینچ کے گلے شکوے بڑھ گئے۔

احمد رضا قصوری جنہوں نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اپنے والد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرائی۔

احمد رضا قصوری کی اس ایف آئی آر کی بنیاد پر فوجی صدر ضیاالحق کے دور میں سپریم کورٹ نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی۔

سنگین غداری ٹرائل میں قصوری سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے قریبی ساتھی ہوتے ہوئے ان کی وکلا ٹیم کا حصہ بن گئے۔

قصوری نے عدالت کو بتایا کہ یہ ایک انتہائی خطرناک مقدمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘ملک میں ہرطرف خون کی ندیاں بہہ جائیں گے۔ مجھے وہ کچھ نظر آرہا ہے جو آپ نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔’

ماضی کے ایک ٹرائل کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے عدالت کو بتایا کہ جج اپنے جوتے تک چھوڑ کر ننگے پاؤں عدالت سے بھاگ گئے تھے۔

قصوری کے اس بیان پر بینچ نے ناراضی کا اظہار کیا لیکن وہ بولتے جا رہے تھے۔ انھوں نے آخر میں ججز کو بتایا کہ اس کیس کا انجام بھی زیادہ مختلف نہیں ہو گا۔

مشرف کیس میں پراسیکیوٹر کے انکشافات

اکرم شیخ سنگین غداری ٹرائل کو اپنے کیریئر کا ایک مشکل مقدمہ قرار دیتے ہیں۔

انھوں نے متعدد صحافیوں کو بتایا کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ ان کے دیرینہ تعلقات ہیں اور ان کی درخواست پر وہ اس مقدمے کی پیروی پر آمادہ ہوئے۔

اکرم شیخ کے مطابق وہ اس یقین دہانی کے ساتھ اس مشکل مقدمے میں کودے ہیں کہ یہ مقدمہ کسی صورت واپس نہیں لیا جائے گا۔

سنہ 2017 میں اکرم شیخ نے آن کیمرہ یہ بتایا کہ جب نواز شریف مشرف کیس ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے تو پھر 2014 میں اسلام آباد کی طرف دھرنوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔

اس انٹرویو کے دوران پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نواز شریف نے انھیں بلایا اور کہا کہ مشرف کیس ختم کرنے سے متعلق ان پر کافی دباؤ ہے۔

‘میں نے نواز شریف سے کہا سر دیکھیں آپ نے خود کہا تھا یہ مقدمہ واپس نہیں لیا جائے گا، میرا جواب سن کر نواز شریف نے مجھے کہا ٹھیک ہے آپ اپنا کام کرتے رہیں، ہم دباؤ کا بھی سامنا کر لیں گے۔’

اکرم شیخ نے دو ماہ کے عرصے کے اندر ہی عدالت کے سامنے متعدد سماعتوں پر کہا کہ ان کے گھر نامعلوم نمبرز سے کال کی جاتی ہیں۔

ان کی اہلیہ کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور گالم گلوچ والی کالز بھی موصول ہوتی ہیں۔

انھوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ان کالز میں کبھی کہا جاتا ہے کہ آپ کے میاں کا حادثہ ہو گیا ہے جس میں وہ مر گئے ہیں اور کبھی کہا جاتا ہے کہ انھیں اس مقدمے سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ کریں ورنہ وہ مر جائیں گے۔

عدالتی کارروائی کے بعد اکرم شیخ نے اپنے چیمبر میں جا کر بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اس مقدمے کی وجہ سے ان کی وکالت متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ انھوں نے کہا سابق آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیرالاسلام نے اپنا ایک اہلکار ان کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ اس مقدمے سے علیحدہ ہوجائیں ورنہ ایسے مقدمات میں پراسیکیوٹر اِدھر اُدھر ہوجاتے ہوتے ہیں۔

اکرم شیخ کے خیال میں یہ انھیں براہِ راست قتل کی دھمکی تھی جس کے جواب میں انھوں نے صرف یہ کہا کہ مارنے اور بچانے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس مقدمے کی پیروی کی پاداش میں ان کے تمام بنکوں میں اکاؤنٹس تک بند کر دیے گئے۔

مشرف ٹرائل عدالتی فائلوں میں گُم

جب حکومت پر دباؤ بڑھا تو نواز شریف حکومت کی اس ٹرائل سپر گرفت کمزور پڑ گئی۔

ملزم پرویز مشرف کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کرنے کے لیے 31 مارچ 2016 کی تاریخ مقرر کی گئی لیکن اس سے پہلے ہی ان کے وکیل فروغ نسیم کی طرف سے علاج کی غرض سے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست 8 مارچ کو سپریم کورٹ میں دائر کی گئی۔

مارچ میں ہی ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا اور پھر 16 اور17 مارچ کی درمیانی شب پرویز مشرف بیرونِ ملک روانہ ہوگئے۔ آج تک نہ وہ واپس آئے اور نہ ہی ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

مخلتف تقریبات میں حکومت اس کا ذمہ دار عدالت اور جج اس کا بوجھ حکمرانوں پر ڈالتے نظر آئے۔ نتیجتاً مشرف کا ٹرائل دو سال تک کے لیے رک گیا۔

مشرف نے اس جان بخشی پر فوج کے ساتھ ساتھ اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف کا شکریہ ادا کیا۔

نواز شریف نے اپنے خلاف پانامہ ریفرنس قائم کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا جس میں مشرف ٹرائل کو ان مقدمات کی ایک بڑی وجہ قرار دیا۔

نواز شریف سے مشرف ٹرائل پر متعدد بار بات کرنے کا موقع ملا۔ ہر بار انھوں نے یہ کہا کہ یہ ٹرائل ضرور اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا اور مزید لوگ بھی اب قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔

شریف الدین پیرزادہ
شریف الدین پیرزادہ

شریف الدین پیرزادہ مشرف کے قانونی پیشوا

وکیل شریف الدین پیرزادہ نے قیام پاکستان سے قبل ہی دلی میں پریکٹس شروع کر دی تھی۔ وہ پاکستان کے ہر فوجی دور حکومت میں قانونی مشیر کے منصب پر فائز رہے۔

انھوں نے ایک دن اپنے کیریئر سے متعلق بتایا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک بار سینیئر وکیل کی حیثیت سے ان کی ڈرافٹنگ کی تعریف کی تھی۔

شریف الدین پیرزادہ سنگین غداری کیس میں مشرف کی وکلا ٹیم کی سرپرستی کرتے تھے۔ وہ خود تو دلائل نہیں دیتے تھے لیکن عدالتی کارروائی کے دوران نوٹس لیتے اور کچی پنسل سے سوالات کے جوابات لکھ رہے ہوتے تھے۔ وہ اپنے انتقال سے قبل مشرف کی وکالت میں ہی مصروف رہے۔

جسٹس کھوسہ: سنگین غداری کیس مشرف تک محدود رکھا جائے

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب پاکستان کے چیف جسٹس آصف کھوسہ نے اس مقدمے کے لیے قائم کی گئی خصوصی عدالت کو وفاقی حکومت کی شکایت کے عین مطابق ٹرائل صرف سابق آرمی چیف تک ہی محدود رکھنے کا حکم دیا۔

اس سے قبل خصوصی عدالت نے ایک فیصلے کے ذریعے مشرف کے علاوہ تین نومبر 2007 کے وقت وزیر اعظم شوکت عزیز، چیف جسٹس کے عہدے پر براجمان ہونے والے جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور وزیر قانون زاہد حامد کو بھی اس ٹرائل میں شامل کرنے کا حکم دیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے بعد مشرف ٹرائل میں پراسیکیوشن ٹیم کو تحلیل کر دیا گیا اور وکلا بھی نامزد نہیں کیے گئے، تاہم چیف جسٹس آصف کھوسہ نے خصوصی عدالت کو اس ٹرائل کو منطقی انجام تک پہنچانے کے احکامات دیے۔

یوں جو ٹرائل نواز شریف کے دور حکومت میں رک گیا تھا وہ اب تحریک انصاف کی حکومت میں تیزی سے اپنے اختتام کی منازل طے کرنے لگا۔ چیف جسٹس نے مشرف مقدمے کی ایک سماعت پر ریمارکس دیے کہ برطانیہ میں مارشل لا کے نفاذ کی پاداش میں اولیور کرامویل کے جسد خاکی کو پھانسی کی علامتی سزا دی گئی۔ خصوصی عدالت نے مشرف کو پیش ہونے کے متعدد مواقع دیے لیکن وہ پیش نہ ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp