خدا کی پہچان کا سفر


سینما ہال سے نکل کر گھر پہنچتے ہی اُسامہ بستر پر اوندھے منہ جا گرا۔ ٹائم پیس پر صبح کا الارم لگا کر سونے ہی والا تھا کہ کوہِ ندا پہ بشارت کی آواز گونجنے لگی۔ بازگشت ارتعاش پیدا کرتے ہوئے خطِ استوا پر پھیلنے لگی۔ ڈوبتے ستاروں کو ضِد تھی کہ خدا کو دو گھڑی آرام کرنا چاہیے۔ صبح اٹھتے ہی اُسامہ نے ایک لمبی انگڑائی لی اور زمانے کے کیلینڈر پر تاریخ بدل دی۔ وہ ہر روز دس منٹ لیٹ دفتر پہنچتا۔ اپنے دفتر کی میز پر پڑے دنیا کے گول نقشے کو تیز تیز گھمانے لگا۔

اپنی انگلیوں سے کھیلتا ہوا ملکوں اور خطوں کی جغرافیائی سرحدیں کھینچتا رہا۔ اس کے ایک ہاتھ میں کافی والا مگ تھا۔ گھر واپس آتے ہی اسامہ الارم لگا کر دوبارہ لمبی تان کر سو گیا۔ پھر دنیا تباہ ہونے لگی۔ اصحابِ کہف جیسی نیند سو جانے کے بعد جب ایک دن وہ اٹھے گا تو اس کا کھوٹا سکّہ بازار میں نہیں چلے گا اور اسے میوزیم میں سجا دیا جائے گا۔ تمام فوٹو گرافر اس کی تصویریں لیں گے اور شاید صبح کے اخبار میں اس کا انٹرویو بھی چھپ جائے۔

اُسامہ نے اخبار اٹھایا اور صفحے پر اچانک سے کھُل جانے والی تحریر پڑھنے لگا ”انسان نے ابھی وقت کو تاریخ کے پنّوں میں بانٹا نہیں تھا۔ زمان و مکاں کے بطن سے تاریخ اور ارتقإ کا جنم ابھی ہوا ہی تھا۔ نہ ثقافت پنپ سکی تھی۔ زبان کی چاشنی بھی منہ کو نہ لگی تھی۔ خُدا دور آسمانوں میں کہیں رہتا تھا۔ ایسا ہیولا جو ظاہری وجود نہیں رکھتا۔ پھر وہ آدم میں سما گیا۔ زمین پہ گرا تو لامکاں کی پرتوں سے نکل کر شکل و شباہت والے سانچوں میں ڈھلنے لگا۔

” وہ یکتا ہے کچھ نہیں ہے بس خدا ہے۔ “ اس نے ایک ڈرامہ رائٹر کی طرح کائنات کا سکرپٹ لکھنا شروع کیا۔ کہانی کا وقت شروع ہوا۔ کردار آتے چلے گئے۔ المیے کا دورانیہ بڑھنے لگا۔ خدا کو کہانی پسند آنے لگی۔ تماشائیوں کی تالیوں سے تھیٹر گونجنے لگا۔ پھر جب ایڈیپس Oedipus نے انسانیت کی آنکھیں پھوڑ ڈالیں اور اپنی آنکھوں میں خود ہی خنجر گاڑ لئے تو کائنات کے ملکوتی سٹیج پر ہرطرف خون بہنے لگا۔ تھیٹر میں جمع ہدایت کار اور ڈرامہ نگار یونانی خداٶں اور تماشائیوں سے داد وصول کرنے لگے۔

آج کی پرفارمنس شاندار رہی۔ کہانی میں خدا کا ذکر بھی آیا۔ کہتے ہیں سب انسان کسی خدا کو پوجتے تھے۔ محبت کو خدا سے اور خدا کو محبت سے جوڑتے تھے۔ پھر وقت نے ایسا رُخ موڑا۔ اک زمانہ آیا کہ خدا کے نام لیوا اس کے نام پہ دھندا کرنے لگے۔ اس کی ذات کی پہچان کاسفر شناخت سے شروع ہوا اور اک کلنک بن کے رہ گیا۔ پھر جنگیں ہونے لگیں۔ لوگ ایک دوسرے کو بے جا قتل کرنے لگے۔ رشتوں سے اعتبار اور خواہشوں سے خوشی رُوٹھ گئی۔

خدا بھی لوگوں سے رُوٹھ گیا۔ ایک ایسے شخص کی طرح جو اپنی اولاد کو لاوارث چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اُس نے فیکٹریوں اور سکائے سکریپرز سے بہت دور اُن آسیب زدہ کھنڈرات میں ٹھکانہ کر لیا جو ارتقإ کی اُس پیڑھی سے ربط رکھتے تھے جب اُسکی پہچان زمانے بھر میں موجود تھی۔ لیکن انسان اُسے عشقِ لاحاصل کی آخری حد تک طے کی جانے والی منزل پر چھوڑ چُکے تھے۔ خُدا نے بھی ان سے لاتعلقی کرلی۔ بم دھماکے سے اُڑنے والے بچے کے چیتھڑے کپڑے میں باندھے اس کی ماں چِلّائی ”اے خدا تو کھو گیا ہے؟“ اس پر مذہب کے ٹھیکیدار اس پر کفر کے فتوے لگانے لگے۔ جی ہاں! خدا کے وہی نام لیوا جنہوں نے خود خُدا ہی کو جلا وطن کردیا اور اس کی مخلوق کو بھی نہیں بخشا۔

اخبار ایک طرف پھینک کر اُسامہ ایک گہری اور لمبی سوچ میں گُم ہو گیا۔ اپنی ذات کا سفر یقین سے طے کرنے والا انسان جو کچھ نہیں کی ضد لگائے بیٹھا ہے کون جانتا ہے کہ اُس شخص نے تنہائی کے لمحوں میں خدا کی کتنی جستجو کی ہوگی؟ پھر ایک وقت آیا خداکی جستجو وہ لوگ کرنے لگے جو اونچے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ جو پیٹ خوب بھر کر کھانا کھاتے ہیں۔ رام رام کی مالا جپتے ہیں۔

کیا خدا بورژوازی ہے جو یہ نیا نظام لایا ہے؟ کیا خدا اس بے کس کا خدا نہیں جس کے حصّے میں صرف ناکامی آئی۔ کیا خدا اس شخص کا خدا نہیں جس کی چیخ و پکار کبھی نہیں سنی گئی۔ کیا اس سے بڑا خدا کا نام لیوا کوئی ہو سکتا ہے؟ کون جانتا ہے کہ کسی کافر نے اپنی تنہائی میں خدا کو کتنا پکارا ہو؟ اور اس شخص کی جستجو کا کیا کریں جو ہمیشہ خواہش کرتا رہا کہ خدا ایک دن لوٹ آئے گا اس روٹھے ہوئے بچے کی طرح جو کھلونے خریدنے کی ضد پہ گھر سے نکلا تھا۔ جسے چند نا معلوم افراد نے اغوإ کر لیا اور وہ آج تک گھر واپس نہیں لوٹا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments