میڈیکل کالج کی کہانیاں


یہ غالباً 6 اکتوبر دو ہزار چودہ کی ایک خُنک صبح تھی۔ شِدت کے موسم گرما کے بعد جاڑے کی آمد آمد تھی، پَت جَھڑ عروج پر تھا۔ ہر طرف بھورے بھورے پَتے بکھرے ہوئے تھے۔ لوگ اور موٹریں گرے ہوئے پتوں کے اوپر چلتے۔ گاڑیوں کے ٹائر انہیں بری طرح کچل دیتے۔ کچلے جانے پر پتے چَرچرر چَرر آواز پیدا کر کے اس توقیری پر صدائے احتجاج بلند کرتے۔

عام لوگوں کے لیے یہ ایک عام سا دن تھا۔ سڑکوں پر معمول کی ٹریفک رواں تھی۔ ہم ایسے کچھ طالبعلم تھے جو اس دلفریب منظر سے بے نیاز اِضطراب میں چلے جا رہے تھے۔ زیر لب قرانی آیات کا وِرد کرتے ہاتھوں میں بارہا پڑھی گئی کتابوں کے ورق تیزی سے پلٹ رہے تھے۔ آج طِب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند امیدواروں کا داخلی امتحان تھا۔ کچھ خوش نصیبوں کا انتخاب ہونا تھا اور ہزاروں ذہین طالبوں کے خواب وقتی طور پر ٹوٹ جانے تھے۔

انٹری ٹیسٹ ماضی کے برعکس خاصہ پیچیدہ تھا۔ سوال دہرائے نہیں گئے تھے۔ سب امیدواروں نے اضطراب اور دباؤ کی ملی جلی کیفیت میں پرچہ حل کیا اور گومگو کی حالت میں بہتر مستقبل کی امید کے ساتھ واپس چلے آئے۔

کچھ دنوں بعد نتیجہ نکلا۔ خوش بخت طلباء کا چناؤ ہوا اور ان کی نشستیں مختلف میڈیکل کالجوں میں مختص کر دی گئیں۔ ہم سب کو آزاد جموں و کشمیر میڈیکل کالج میں نشستیں الاٹ ہوئیں۔ نومبر کے آخر پر شروع ہونے والی کلاسز کسی انجانی وجہ سے شروع نہیں ہو سکیں۔ یہ وقت بڑا پر لطف تھا۔ فراغت کے لمحے تھے اور ہمارے مشغلے تھے۔ بے فکری سے وقت گزر رہا تھا۔

اکثر ٹیلی فون کالز کر کے کلاسسز شروع ہونے کی تاریخ معلوم کی جاتی مگر خالص مردانہ آواز سنائی دینے پر کال کاٹ دی جاتی۔ باآخر اکتا کر ہم نے کوشش چھوڑ دی اور انتظار کرنے لگے۔ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ خدا خدا کر کے خبر ملی کہ چھبیس جنوری کو حاضری ہونی ہے۔ اس سلسلے میں کالج والوں نے خط و کتابت کا کوئی تکلف نہیں کیا گیا۔ ہمیں یار دوستوں کے ذریعے ہی بلاوے کی اطلاع ملی۔

ہجر کی پہلی شام، شادی کی پہلی رات، سردیوں کی پہلی بارش اور کالج کا پہلا دن بڑا یادگار ہوتا ہے۔ رات کو ہی سب تیاری مکمل کر لی گئی۔ میڈیکل کالج کا پتہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ خوابوں کی منزل کسی جلال آباد نامی جگہ میں ہے۔ گماں گزرا کہ جلال آباد تو افغانستان میں واقع ہے کہیں ڈاکٹر بننے کے لیے سرحد پار کرنے کی اذیت نہ اٹھانی پڑ جائے مگر مگر پھر اپنی اس بد گمانی کو جھٹک دیا اور خوشی کے خواب دیکھنے لگے۔

صبح بڑی روشن تھی، ہم اجلے لباس پہنے، دمکتے چہروں کے ساتھ خوشی خوشی قریباً ساڑھے سات بجے ہی کالج کے باہر آ دھمکے۔ ہمارے فرشتے گواہ ہیں کہ پہلے دن اور بائیس جون کی ہڑتال کے علاوہ سات آٹھ بجے کالج آنے کا اتفاق پھر کبھی نہیں ہوا۔

یہ بڑا سنہرا وقت تھا، نئے نئے لوگوں سے واسطے ہوا۔ نئے چہرے دیکھنے کو ملے۔ ان میں سے قابل دید پری چہرے کلاس روم کی مخالف لائن میں بیٹھتے اور ناقابل دید ہمارے ساتھ یعنی ہمارے ہم جنس لڑکے۔

جس طرح برہمن پنڈتوں کے بچوں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ باقی ذَاتوں سے زبردست ہیں ایسے ہی ہمیں مسلسل یہ ٹریننگ دی گئی کہ یہاں ذریعہ تعلیم چونکہ انٹی گَریٹڈ ہے جو خالصتاً ولائتی طریقہ تعلیم ہے اور ابھی تک اس کی ہوا وطن عزیز کے کسی اور میڈیکل کالج کو نہیں لگی۔ ہمارا سینہ فخر سے پھول جاتا اور ہم اس امپورٹڈ نظام کا حصہ ہونے پر اِتراتے پھرتے اور باقی میڈیکل کالجوں کو شُودروں کہ بستیاں سمجھتے۔

خیر شروع کے کچھ آرام دہ دنوں کے بعد باقاعدہ پڑھائی کا آغاز ہو گیا۔ بَلیک سے وائٹ بورڈ اور وہاں سے سیدھا مَلٹی مِیڈیا تک کا سفر طے کرنے پر ہم خوش تو تھے البتہ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہمارے سمجھنے کہ صلاحیت پر پتھر پڑ گئے۔ رفتہ رفتہ لیکچر ہمیں بَس میں لگا ہوا ریڈیو لگنے لگا جو مسلسل بولے جارہا ہوتا ہے اور سواریاں اس سے بے نیاز باہر گزرتے ہوئے پَیڑ گِن رہی ہوتی ہیں۔ ایک چیز میں ہم شدید دلچسپی لیتے تھے اور وہ لیکچر کے آخر پر تَھینک یو سلائڈ ہوتی تھی۔

پہلے پہل کے موڈیول تو ہم نے اپنے سابقہ علم اور نقل کرنے میں خاص مہارت کی بنیاد پر پاس کر لیے مگر ہمیں دھچکہ تب لگا جب LMR کا نتیجہ لگا۔ اس میں ہماری کلاس کو اجتماعی شہادت نصیب ہوئی، کیا غضب کا دن تھا۔ کیمپس میں ہر وقت کلکاریاں مارنے والے چہرے بھی پُھوٹ پُھوٹ کر رو دیے۔ مسلسل آنسو اور ناک پونچھنے سے ان کے گال پھول کر سرخ گلاب ہو گئے اور ناک نمک کی ڈَلی۔ ہمارے کئی دوستوں کے دل مَچلے کہ گلے لگا کر درد بٹائیں یا کم از کم ٹشو پیپر سے ناک ہی پونچھ دیں مگر کسی وجہ سے وہ اس شر پسندی سے باز رہے، ہم بھی شہداء میں شامل تھے مگر یہ سارا منظر دیکھ کر دل میں شیطانی سی خوشی ناچنا شروع ہو گئی۔

اس سال کا سب سے پسندیدہ دور ہفتہ برائے کھیل و ثقافت تھا۔ ہم بُلو رائزنگ سٹار تھے اور ہم ستارے بن کر خوب چمکے۔ تازہ تازہ تھا اور بھری جوانی تھی۔ جذبات میں صرف خلوص تھا۔ میدان میں جان لگا کر کھیلتے اور میدان سے باہر گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتے۔ کوئی انفرادیت نہیں تھی۔ سب کا ایک ہی نیلا پرچم تھا۔ ہفتہ ختم ہوا تو سب کے سر فخر سے بلند اور چہرے خوشی سے تمتمائے ہوئے تھے۔ ویسی خوشی شاید ہی پھر کبھی نصیب ہوئی ہو۔

اس کے بعد دور شروع ہوا پہلے سالانہ امتحانات کا، اس سے پہلے تیاری کے واسطے تعطیلات شروع ہوئیں۔ ان میں طلباء کا ایک الگ روپ سامنے آیا۔ کچھ سر منڈوا کر سادھو بن گئے۔ اور کچھ زلفیں دراز کیے ملنگ بنے پھرنے لگے۔ کتابوں کی مسلسل عرق ریزی اور اکثر منہ نہ دھونے سے سے خواتین کے چہرے بھی اپنی اصل ساخت دکھانے لگے۔ بعد ازاں امتحانات کے دوران ممتحنوں نے ان کی تصاویر اور اصل چہروں کو ایک جیسا ماننے سے انکار کر دیا۔ قسموں، وعدوں اور اساتذہ کی شہادتوں سے جان خلاصی ہوئی اور پرچہ دینے کہ اجازت دی گئی۔

اس سال کے امتحانات کی سب سے دردناک بات ایک ایسا آسیب تھا جس کا سایہ بعد کے سالوں میں بھی قائم رہا۔ پرچہ دینے سے پہلے ہم چپ سادھے بیٹھے درود شریف پڑھ رہے تھے۔ اچانک دروازہ کھلا اور انتہائی کرخت آواز سنائی دی۔ سامنے دیکھا تو عجیب سے چیز کھڑی تھی۔ لانبے لانبے کان، کلین شیو اور ڈھیلی ڈھالی دھوتی نما پتلون۔ اس نے اعلان کیا کہ کوئی بھی نقل سے باز رہے اور وہ ہی یہاں کا سُپریڈنڈنٹ ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس چیز کا نام بٹ صاحب ہے۔ ان کا اعلان مسجد میں جنازے کے لیے اعلان سے کسی طور پر کم بلند نہیں تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا ان کی نمو کے دوران ووکل کارڈز کی جگہ صور اسرافیل فٹ کر دیا گیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ شخص اگر کسی مغربی ملک میں ہوتا تو صوتی آلودگی پھیلانے کے جرم میں تا حیات قید رہتا۔

خیر اس اذیت ناک مرحلے سے بطور خاص بفضل الہی، کچھ جَگ رَتوں، اور سامنے بیٹھے امیدوار کی جوابی شیٹ کے آپشن گِن گِن کر ہم دوسرے سال میں پروموٹ ہو گئے۔ یہ سال پانچ سالوں کا سب سے سہل سال ہے۔ آپ کے پَر نکل چکے ہوتے ہیں اور آپ کئی ایک وارداتوں کے گُر سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ دل و دماغ ہارتے ہیں۔ زندگیوں کے عہد و پیمان باندھتے ہیں اور بعد میں ان بیوقوفیوں پر پچھتاتے اور ہنستے ہیں۔

پہلے سال میں ہمارے دو ہم جماعتوں کے سوا ہماری ساری جماعت کامیاب ہو گئی تھی۔ ان دونوں کے نتائج بناتے وقت ضابطوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ وجہ امتحانی نظام اور اے جے کے یونیورسٹی کی نا اہلی تھی۔ ہماری جماعت نے اس پر احتجاج کا راستہ اپنایا۔ یہ ہمارے کالج کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی جماعت پوری کی پوری کسی احتجاج میں شریک ہوئی ہو۔ یہ اتحاد و اتفاق کا بے مثل مظاہرہ تھا۔ پہلے دن کلاسز کا بائیکاٹ کیا گیا مگر حکام کو چنداں فرق نہیں پڑا۔ دوسرے دن ہماری سینیر کلاسز بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئیں اور متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ مطالبات کی منظوری اور زیادتی کے ازالے تک تعلیمی سرگرمیوں کا بائیکاٹ کیا جائے گا اور کالج بند کیا جائے گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments