گم شدہ


انگریز پروفیسرکا سارا لحاظ کافور ہوتا دکھائی دیا۔ اپنی نیلی آنکھوں کی پتلیوں کو پوری طرح پھیلا کر، جذبات سے سرخ ہوتے ہوئے صرف دو لفظ بولی،
”اینغم پلیز“

”پلیز“ کو ڈاکٹر این نے اتنا کھینچا کہ متوجہ کلاس مکمل طور پر ایک نقطے پر جمع ہو گئی۔ باقی لیکچر مکمل قطعیت لئے ہوا تھا اور سب ہمہ تن گوش تھے۔

میری پرانی عادت، بری یا اچھی کی بحث سے قطع نظر۔ لیکچر ختم ہونے کے فوری بعد پہلا کمنٹ کرنے یا پہلا سوال پوچھنے کی تھی۔ اس کے پیچھے شاید یہی منطق کارفرما تھی کہ جو کمنٹ یا آئیڈیا مجھے سوجھا ہے وہ اگر کسی اور نے پوچھ لیا تو میری پریزینٹیشن کیا ہو گی یا یہ کہ اگر یہ سوال کسی اور نے پوچھ لیا تو اس سوال کے نمبر اسے مل جائیں گے۔ اسباب یہی ہوں یا کچھ اورمگر حقیقت یہی ہے کہ ہر لیکچر کے خاتمے پر عموماً پہلا سوال میرا ہی ہوتا تھا۔ سوال پوچھنے کے بعد، میرے ذہن کی گرہ کھل جاتی تھی اور میں دوسروں کو سننے کے لئے تیار ہو جاتی تھی۔

روما، اس معاملے میں میری ضد تھی۔ جب تقریباً پوری کلاس جو کہ سولہ افراد پر مشتمل تھی، اپنا مطمع نظر پیش کر چکی ہوتی، یا کلاس ڈسکشن اپنے منطقی انجام پہ پہنچنے لگتی تب روما اپنے نرم لہجے میں نہایت شائستگی سے بات کا آغاز کرتی اور چند جملوں میں موضوع کو یوں آسمان پر پہنچا دیتی کہ سوچوں کے نجانے کتنے مقفل در یک دم وا ہو جاتے اورہم سب کے ڈھیرسارے تبصرے، سوکھے پتوں کی مثل چُرمرا کر رہ جاتے اور صرف اسی کی بات ذہن میں رہ جاتی۔ وہی سوال اہم ہوتے جو اس کے ذہنِ رسا نے تراشے ہوتے۔ وہی تبصرہ حاصلِ کلاس ہوتا جو اس نے کیا ہوتا۔

میرا دماغ چیخ پڑتا، غصہ سا آ جاتا۔ یہ نکتہ اسے ہی کیوں سوجھا، میرے دماغ میں یہ بات کیوں نہیں آئی۔ اس کی ذہانت و فطانت کتنی واضح تھی۔ 16 افراد بولے۔ ہر طرح سے لیکچر اور موضوع کو ادھیڑا گیا مگر روما کے تبصرے کے بغیر تو ساری بحث ہی ادھوری تھی۔ یعنی اس کی بات سے پہلے کی گئی ہر بات محض آغازِ بحث تھی۔ انجامِ بحث تو روما کی فکر تھی۔

یہ سلسلہ کسی ایک لیکچر یا موضوع تک محدود نہ تھا۔ یہ تو ایک مسلسل سلسلہ تھا۔ روما کی شخصیت بھی بڑی متاثر کن تھی۔ گوری چٹی، لمبی، کافی کلر کے کمر تک کھلے ریشمی بال، ہر طرح کے رنگوں سے بے نیاز چہرہ۔ عام طور پر کیمل کلر کا کوٹ پہنے ہوئے آتی جسے کلاس میں پہنچتے ہی کرسی کی پشت پر ڈال دیتی۔ جب کہ ہم ایشیائی اور عربی سٹوڈنٹس پوری کلاس کے دوران مکمل پیک رہتے۔ سر پر اونی کیپ، ہاتھوں میں دستانے۔ اونی سوئٹر کے اوپر گرم کوٹ۔ لانگ بوٹس۔

ریڈی ایٹر کی گرمی سے امریکی، برطانوی اور یورپی سٹوڈنٹس کے چہرے تمتمانے لگتے۔ لیکچر دیتے پروفیسرز اپنی ہاف آستینوں کو بھی غیر ارادی طور پر اوپر چڑھانا شروع کر دیتے۔ ان کے چہرے کے بے ترتیب سے سرخ سرخ دھبے مزید دہکنے سے لگتے، مگر ہماری کیفیت دیکھ کر ہیٹر بند کرنے کی بات نہیں کرتے تھے۔

باقی سٹوڈنٹس نے روما کو کیسا پایا۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتی مگر میرے لئے وہ واقعی انٹلکچؤل تھی۔ دانشوراور دانشمند، بے حد سمجھدار۔ الجھی ہوئی ڈور کا سرا یوں دھیان سے پکڑتی کہ ڈور خود بخود سلجھتی چلی جاتی۔ کیا ظالم ذہانت پائی ہے۔ میں دل ہی دل میں اس سے متاثر تھی۔ اب ہر کلاس میں، حسب عادت میں بحث کا آغاز کرتی اور وہ انجام۔ بات کا آغاز کرنے سے قبل میری نگاہ غیر ارادی طور پر اس کی طرف اٹھتی۔ اور آخر میں بات شروع کرتے ہوئے، سب سے پہلے اس کی نگاہ مجھے ہی مخاطب کرتی۔ سنجیدہ، بڑی بڑی بھوری آنکھیں جو اس کے لفظوں سے پہلے بول اٹھتی تھیں۔ ابتدائی لیکچرز ختم ہو گئے تھے۔ مختلف اسائنمنٹس جمع کروانے کی تاریخیں مل گئی تھیں اور سب سٹوڈنٹس یا تو اپنی اپنی آفیسز میں بند ہو چکے تھے یا پھر گھروں میں بیٹھ کر وقت پر اسائنمنٹ جمع کروانے کی تیاری میں مصروف تھے۔

ایک گہرے سرمئی دن، جب ماحول پہ عجیب سی دل گرفتگی طاری تھی ہر ایک خوامخواہ ہی اداس نظر آرہا تھا۔ میں اپنا پیپر آفس میں جمع کروا کر لفٹ سے باہر نکلی اور گھر کو جانے کی راہ لی۔ ڈپارٹمنٹ کے دائیں جانب لوہے کے مضبوط پائپ سائیکلوں کو لاک لگانے کے لئے لگے ہوئے تھے۔ اس جنگلے کے پاس، ایک نم نم آنکھوں والی تھکی تھکی سی نظرآنے والی بوڑھی عورت گہرے رنگ کے کوٹ پہنے کھڑی تھی۔ جیسے ہی میری نظر اس پر پڑی مجھے ایسے لگا وہ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہے۔ میں ایک لحظہ کے لئے ٹھہری تو اس نے قدرے جھجکتے ہوئے پوچھا،

” روما ڈپارٹمنٹ میں ہے؟ “
”نہیں۔ میرا خیال ہے روما نے تو پچھلے ہفتے ہی اپنا اسائنمنٹ جمع کروا دیا تھا۔ “ میں نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

”کیا فائنل ہو گیا ہے اس کا؟ “ بوڑھی نے جھکی جھکی نظروں سے دوسرا سوال پوچھا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ محسوس کر رہی تھی کہ شاید مجھے اس کا سوال پوچھنا معیوب لگ رہا ہے۔ ”میرا فائنل تو نہیں ہوا ہے تو میرا خیال ہے روما کا بھی نہیں ہوا ہو گا۔ “

”پھر کب آئے گی وہ ڈپارٹمنٹ کچھ اندازہ ہے۔ “ وہ معذرت خواہانہ انداز میں سوال پوچھ رہی تھی۔
”مجھے اس کا اندازہ نہیں۔ مگر۔ آپ؟ “

اِس سے پہلے کہ میں سوال مکمل کرتی وہ بولی ”میں روما کی ماں ہوں۔ “ متوقع جواب نے مجھے زیادہ خوش اخلاق بنا دیا۔

”آئیے چائے یا کافی پیتے ہیں؟ “
”نہیں۔ نہیں شکریہ۔ بہت بہت شکریہ۔ “
”کم آن۔ مجھے کافی لینی ہے۔ آئیے نا پلیز۔ “

چہرے پہ اداس سی مسکراہٹ لئے وہ میرے ساتھ نیچے کافی شاپ تک آئی۔ میں نے مطلوبہ سکے مشین میں ڈالنے سے قبل اس سے پوچھا کہ اسے کون سا فلیور پسند ہے۔ شکریہ کہتے ہوئے اس نے بغیر چینی اور دودھ کے بلیک کافی کہا۔

اپنے لئے چائے اور اس کے لئے کافی کا درمیانہ کپ میں نے سامنے والی ٹیبل پر رکھے اور اسے بیٹھنے کے لئے کہا۔ میں نے اسے ”روما کی ماں“ کہ کر مخاطب کیا۔ مگر وہ جتنی احسان مند نظر آرہی تھی، اس سے مجھے تکلیف ہو رہی تھی۔ ماحول کو قدرے ہلکا پھلکا بنانے کی غرض سے میں نے انگریز کے پسندیدہ موضوع یعنی موسم پہ لب کشائی کی۔ ”ہاں۔ بڑا غمزدہ ہوتا ہے یہ موسم“ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔ ”جب تک دھوپ نہیں آتی، پودے تک نہیں مسکراتے۔ “

”بالکل“ مجھے اس کاجملہ اچھا لگا۔

میرے ذہن میں خیال آیا کہ پوچھوں کہ وہ روما سے ملنے اس کے ڈپارٹمنٹ آئی ہے مگر جانتی تک نا تھی کہ کلاسز آف ہو چکی ہیں اور اب اسٹوڈنٹس صرف پیپر جمع کروانے ہی آتے ہیں دوچارمنٹ کے لئے۔ مگر یہ کہنا مناسب نہ لگا۔ لہٰذا میں نے بڑی مروت و شائستگی کے ساتھ پوچھا کہ ”روما کے ساتھ اس کی آخری ملاقات کب ہوئی تھی؟ “ بوڑھی آنکھوں کی تھکاوٹ مزید گہری ہو گئی۔

”چار مہینے ہو رہے ہیں۔ آج میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس سے ملوں گی۔ کچھ جانتی ہو تم اس کے بارے میں؟ میرا مطلب ہے تمہاری دوستی ہے اس سے؟ “ اس نے پوچھا۔ ”اچھا تعارف ہے ہمارا ایک دوسرے سے۔ دراصل کافی لیکچرز ہم دونوں نے ساتھ اٹینڈ کیے ہیں، یکساں ماڈیول ہونے کی وجہ سے۔ “ میں نے جواب دیا۔

”وہ بے حد اچھی، مہربان، کہنا ماننے والی، صاف ستھری لڑکی ہے جب وہ بالکل چھوٹی سی تھی تب سے کتابوں سے خاص شغف ہے اسے۔ بہت کتابیں پڑھتی تھی۔ بجائے دوسرے بچوں کی طرح کھیل کھیلنے یا گھومنے کے اس نے کتابوں کے ساتھ بچپن گزارا ہے۔ بچپن سے ہی میرا ہاتھ بٹانا اسے اچھا لگتا تھا۔ سائیکل پر گھر کا سامان لاتی تھی۔ مگر پھر کچھ ایسا۔ “

بولتے بولتے وہ ہچکچائی۔ ”آج بمشکل میں نے روما کے باپ کو منایا تھا کہ میں روما کو لے کر گھر آؤں گی۔ بہت زیادہ مِس کر رہی تھی میں اسے۔ میرا خیال ہے اس کا باپ بھی اسے یاد کر رہا ہے۔ اور اسے دیکھنا چاہتا ہے۔ چار مہینے ہو گئے ہیں اس سے ملے۔ “

”اوہ۔ آئی سی۔ “ میں نے کچھ زیادہ نہ سمجھتے ہوئے بھی ظاہر کیا کہ مجھے اس سے ہمدردی ہے۔
”کیا آپ کے پاس روما کا سیل نمبر نہیں ہے۔ “
”ہے، مگر شاید اس نے نمبر تبدیل کر لیا ہے۔ بار بار کال کرنے کے باوجود بھی وہ نمبر بند ملتا ہے۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments