گم شدہ


میں بیان نہیں کر سکتی کہ میں کس کرب سے گزری۔ میں کہتی ہوں کہ تعلیم کے نصاب میں اس موضوع کو لازماً شامل کیا جائے، پتہ نہیں کتنے بچے اس خود اذیتی سے گزر رہے ہوں گے۔ خودکشیاں کر لیتے ہیں۔ ذہنی مریض بن جاتے ہیں، طرح طرح کے نشے شروع کر دیتے ہیں۔ یا پھر اسی صورتحال کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی کوشش میں شادی کر کے۔ اپنے لائف پارٹنر کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی زندگیاں بھی مشکل کر دیتے ہیں۔ سوسائٹی ابھی تک انفرادی مسائل سے لاتعلق ہے۔

لاتعلق کیا۔ میں تو اسے بے حسی کہوں گی۔ کوئی ان موضوعات کو سنجیدہ نہیں لے رہا۔ امریکہ نے گے میرج کو قانونی شکل دی ہے۔ یہاں بھی ہونے جا رہا ہے مگر ہمارے ہاں زیادہ تر لوگوں کا رویہ غیر جذباتی بلکہ جارحانہ ہے اس موضوع کو لے کر۔ مگر اس سب کے باوجود میں معاشرے سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ لوگ کون ہوتے ہیں میری بچی کی زندگی کا فیصلہ کرنے والے۔ مگر۔ میرا مسئلہ میرا گھر ہے۔ میرا شوہر کٹر کیتھولک ہے اور اس کی نظر میں ان تمام انسانی یا حیاتیاتی مسائل کا تعلق فحاشی، بے حیائی یا غیر اخلاقی قدروں سے ہے۔

یہ تضاد ہمارے گھر کے لئے عذاب بن گیا۔ اگر میں گھر چھوڑتی ہوں اور روما کے ساتھ جاتی ہوں تو میری دوسری بیٹی کی حق تلفی ہوتی ہے جو ابھی انڈرایج ہے۔ روما قانونی پر علیحٰدہ رہنے کی مجاز ہے۔ مگر۔ وہ اس کھینچاتانی سے دلبرداشتہ ہو چکی ہے۔ اس کا باپ اس ساری صورتحال کو جس طرح دیکھتا ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ کبھی روما کے مسئلے کو نہیں سمجھ پائے گا اور اتنے بے حساب اختلاف کو اپنے حق میں کرنے کی جدوجہد میں۔ میری بیٹی ٹوٹ جائے گی جو میں بالکل نہیں چاہتی۔ ”

ریچل ٹھہر ٹھہر کر بولتی رہی۔ کبھی اپنی گہری اداس آنکھوں سے آنسو خشک کرتی۔ پھر بھرائی ہوئی آواز پر قابو پا کر آہستگی سے بولنا شروع کر دیتی۔

میں نے ایک پرچی پر اپنا موبائل نمبر لکھ کر دیا۔ جسے اس نے شکریہ کے ساتھ پرس میں رکھ لیا۔ دروازے پر پہنچ کر اس نے پوچھا۔
”تمہاری امی کہاں ہوتی ہیں۔ تمہارے ساتھ نہیں ہیں؟ “
”نہیں۔ وہ تو پاکستان میں ہیں۔ بس ہم دعاؤں، محبتوں اور آنسوؤں سے ایک دوسرے کو محسوس کرتے ہیں۔ “

”شاید یہی ساری دنیا کی ماں بیٹیوں کا مشترک اثاثہ ہے۔ “ وہ غمزدہ لہجے میں بولی۔ اس کے لہجے کا دکھ اور نگاہوں میں بے بسی مجھے اضطراب میں مبتلا کر گئی۔
”میں تم سے ملنے آؤں گی۔ مجھے تم اچھی لگی ہو۔ “ گھر سے باہر نکلتے نکلتے اس نے میرے شانے کو تھپتھپا کر کہا۔

زندگی کے چاروں موسموں کے رتھ سدا رواں دواں رہتے ہیں۔ ایک موسم درختوں سے زرد ہوتے پتوں کو بے اماں ہونے کی بے رحم خبر دیتے آگے بڑھ جاتا ہے تو دوسرا، اجڑی شاخوں اور برہنہ درختوں کو اپنی پناہ میں لے لیتا ہے۔ انسان بے چارہ مقسوم کی پیچیدگیوں کو اُدھیڑتا، بُنتا، خود اُلجھتا اور اُدھڑتا جاتا ہے مگر اس اسیری سے چھٹکارا نہیں پا سکتا۔

ہوسکتا ہے، نئی رُتوں کی نئی سوچوں اور نئے تجربات و حوادثِ زمانہ کی تہوں میں دب کر، میں اس حیرت میں مبتلا کرنے والی ذہین لڑکی کو بھول جاتی۔ اس کی چال، اس کی بانہوں کی الجھانے والی ساخت کو بھول جاتی۔ بے نشان منزلوں کے سفر میں ریشہ ریشہ، سانس سانس، بوند بوند خود کو کھونے والے مسافروں کو آبلوں کا حساب کہاں یاد رہتا ہے بھلا۔ ہر پڑاؤ میں زادِ راہ کا کچھ حصہ متاعِ جاں کی طرح کھو جاتا ہے۔ لہٰذا بہت ممکنات میں سے ایک ممکن صورت حال یہ بھی ہو سکتی تھی کہ ماضی کی گٹھڑی سے کسی ننھی یاد کی طرح بندھی یہ اداس بھوری آنکھوں اور ناسی بالوں والی انوکھی لڑکی گر پڑتی۔ شاید میں اسے وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی یا پھر اسے اٹھا کرواپس گٹھڑی میں باندھ دیتی کسی انجان سوچ کے زیراثر۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔

کافی وقت گزر گیا۔ میں کام کے سلسلے میں دوسرے شہر منتقل ہو گئی تھی۔ ایک ویک اینڈ پرمیں ارادتاً، مدہم سروں میں بہتی، ”ایوان“ ندی کے کنارے چلی آئی۔ میرے لئے یہ دنیا کی سب سے حسین جگہ تھی۔ میرے دائیں ہاتھ کی طرف کچھ آگے اس آفاقی فنکار کا گھر تھا جسے دنیا شیکسپیئر کے نام سے جانتی ہے۔ ایک عجیب پُرکیف فضا ہے اس چھوٹے سے حسین قصبے کی۔ کبھی اس ندی نے شیکسپیئر کا لمس ضرور پیا ہو گا تبھی تو اب تک اتنی دلکش تھی۔

شیکسپیئر کے دروازے پرآویزاں تختی پر اس کی سن ولادت و وفات تحریر تھی۔ یہیں پیدا ہوا۔ یہیں مرا۔ پُرسکون موت۔ اپنی جنم بھومی میں، قابل رشک موت، قابل فخر زندگی۔ یہ گھر، بلکہ یہ پورا قصبہ ہی روایت، محبت اور تہذیب کی تفسیر ہے۔ خمیدہ کمر بوڑھے درختوں کی محبوبیت، ماضی کی حسین یادوں کی طرح شیکسپیئرہاؤس سے لپٹی ہوئی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ شیکسپیئر کی روح سٹریڈ فورڈ کی پرانی گلیوں میں رہتی ہے۔ اسے ”ایوان کا گوّیا“ یونہی تو نہیں کہتے۔

سانولی اداس شاموں، سرمئی بادلوں والی دوپہروں اور کاسنی صبحوں کی نمی سے کھلتے پھولوں میں اس کے کہے نغمے یقیناً خود کو دہراتے ہوں گے۔ وہ اپنے شہر کا الوہی نغمہ طراز تھا۔ انسان کے ان کہے غموں اور دکھوں کو زبان دینے والا فنکار، جس کے جذبوں کی سچائی اور لوگوں کے درد تک رسائی نے اسے ایسا ساحربنا ڈالا کہ اس کے لکھے لفظوں میں وہ تاثیر پیدا ہوئی کہ صدیاں اسے قراؑت کرتے گزر رہی ہیں۔

میں ایوان ندی کے پُراسرار، سانت بہاؤ میں اپنا عکس دیکھ کر سوچ رہی تھی، شیکسپیئر نے بھی شاید کبھی اس ندی کے کنارے بیٹھ کر کچھ لکھا ہو گا، کوئی خواب دیکھا ہو گا، کوئی کردار تراشا ہو گا، کوئی فقرہ، کوئی جملہ سوچا ہو گا۔ اور کسی پیکر کے درد کو زبان ملی ہو گی یا ہو سکتا ہے، اس نے یہاں بیٹھ کر کوئی تمنا کی ہو۔ مگرنہیں کہ تمناؤں کے سراب کو بے نیازی سے پار کرنے والوں کے مقدر میں ہی تو حیاتِ جاودانی درج ہوتی ہے۔

میرے خیالات کے تسلسل میں لرزش یوں پیدا ہوئی کہ ندی کے پانیوں میں کچھ عکس سے لہرا گئے۔ سائے سے لپکے تو میری نظر بے ساختہ بھٹک گئی۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کوئی نوجوان جوڑا تھا، جوانی اور حُسن کی دولت سے سرشار، اپنی دُھن میں مست۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ بہت سے نوجوان، بلکہ ادھیڑ عمر اور عمر رسیدہ جوڑے بھی باہم مسرور، بے خودی و سرمستی میں ٹہلتے نظر آتے تھے۔

میں نے پھر اپنی سوچ کی طرف پلٹنا چاہا۔ مگرایک عجیب کیفیت کے تحت اچانک میری نگاہ اوپر کو اٹھی تو پھر پلٹ کر نہیں آئی۔ وہاں بھی دو گہری آنکھیں میرے چہرے پر مرکوز تھیں۔ میری نگاہ بھی وہیں ٹھہرنے پر بضد تھی۔ ان شناسا گہری بھوری آنکھوں کے مالک نوجوان نے بڑی بردبار مسکراہٹ سے مجھے دیکھا۔ میرے لب بھی مسکرا اٹھے۔ خاموش فضاؤں میں، زمانوں کے سوال تھے۔ یُگوں کے ان لکھے جواب تھے۔ کچھ الجھے، کچھ سلجھے، فطرت کے تقاضوں کے بیان تھے۔ مجھے لگا، زندگیاں سنور بھی سکتی ہیں، بگڑے کام بن بھی سکتے ہیں، اداسی مسکرا بھی سکتی ہے۔ درد کو تریاق مل بھی سکتا ہے، اٹل فیصلے بدل بھی سکتے ہیں، قدرت کا لکھا مٹ بھی سکتا ہے۔

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments