گم شدہ


”اچھا“۔ میں خاموش ہو گئی۔
”اگر تمہیں روما مل جائے تو بتانا کہ میں اس سے ملنے آئی تھی۔ اور ہاں میرا نام ریچل ہے۔ “ اس نے مسکرا کر کہا۔
”اچھی ملاقات ریچل۔ چائے پر میرا ساتھ دینے کے لئے شکریہ۔ “ میں نے مسکرا کر کہا۔
”تمہاری کافی کا شکریہ۔ “ وہ کوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے بولی۔

جنریشن گیپ دنیا کے ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔ اور برطانیہ میں تو اٹھارہ سال کی عمر کا مطلب ہی یہ ہے کہ اب لڑکا یا لڑکی، زندگی کو سمجھنے کے لئے خود پر انحصار کریں۔ لہٰذا عموماً ایک شہر یا قصبے کے بچے دوسرے شہر یا قصبے کے کالج یا یونیورسٹی میں ایڈمشن لیتے ہیں اور ہر ویک اینڈ یا پھر دو ہفتوں کے بعد والدین سے ملنے آتے ہیں۔ مگر میرا خیال تھا کہ شاید روما کی اپنے والدین سے اَن بن ہو چکی تھی اور اسی لئے وہ چار مہینوں تک گھر نہیں گئی تھی۔

گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد جیسے ہی کلاسز شروع ہوئیں مجھے روما نظر آئی۔ اس بار ہمارا کوئی سبجیکٹ مشترک نہ تھا لہٰذا صرف کبھی کبھار ٹکراؤ ہی ممکن تھا۔ آتے جاتے، لائبریری یا سٹاف روم میں، یا پھر پارکنگ لاٹ میں۔ مجھے اچھا نہیں لگا کہ اب اتنے دنوں بعد میں اس کو روک کر بتاؤں کہ تمہاری ماں سے ملاقات ہوئی تھی اور وہ تمہیں ملنے ڈیپارٹمنٹ آئی تھی۔

مگر ایک دن اس نے خود ہی اپنی دلپذیر مسکراہٹ سے مجھے بتایا کہ ”ممی تمہاری بہت تعریف کر رہی تھیں۔ “
”اوہ۔ ان کا شکریہ۔ وہ خود بہت نفیس خاتون ہیں۔ بہت اچھا لگا تھا مجھے ان سے مل کر۔ کیسی ہیں وہ؟ “

”ممی“۔ وہ ہنس پڑی۔ میں نے غور کیا۔ آنکھیں بھی جوان اور بوڑھی ہوتی ہیں، بس یہی فرق تھا ماں بیٹی کی آنکھوں میں۔ حیرت انگیز مماثلت تھی، گہرا بھورا رنگ جیسے بہار جاتے جاتے اپنا ہر رنگ لے گئی ہو اور سارا سبزہ سوکھ گیا ہو۔ ایک اور چیز مشترک تھی، اداسی۔ جو دونوں کی آنکھوں سے ہویدا تھی۔

”ممی آئیں گی آج ملنے۔ انہوں نے خاص طور پر کہا تھا کہ میں تمہیں ہیلو کہوں اور اگر ممکن ہو تو تمہیں ان سے ملواؤں بھی۔ “
”ارے واہ یہ تو بڑا اچھا ہو گا۔ میں بھی فارغ ہوں آج۔ “ میں نے مسکرا کر کہا۔

”پندرہ منٹ میں ممی پہنچنے والی ہوں گی۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ “
”اوکے، مجھے تیار ہی سمجھو۔ “۔ میں نے اپنی کتابیں سمیٹنا شروع کیں۔

چند منٹوں بعد ہم دونوں لفٹ سے نیچے آئے۔ جیسے ہی گیٹ سے باہر نکلے۔ ریچل وہاں موجود تھی۔ آج اس کے چہرے پہ چھائے تفکر کے بادل اتنے گہرے نہ تھے۔ شفیق چہرے پہ مسکراہٹ بہت جچ رہی تھی۔ روما کو شوخ دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔

روایتی ہیلو۔ ہائے کے بعد، ہم نے ایک دوسرے کی خیریت پوچھی۔ موسم پہ تبادلہٴ خیال کیا۔ پھر روما اٹھلا کر بولی ”آج ہمارے لمبے پروگرام ہیں۔ آج میں اور ممی گرما گرم کافی پئیں گے۔ ٹرکی رول کھائیں گے اور اگر ممی کے پاس ٹائم ہو گا تو ہم شام کو بار بھی جائیں گے۔ کیوں ممی؟ “ اس نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ اپنی ماں کے چہرے کو دیکھا اور پھر ماں کی کمرکے گرد بازو حمائل کیا۔ میں نے ہنستے ہوئے ریچل کی طرف دیکھا۔ مسکراتے چہرے پر اداس آنکھوں میں مجھے کُل جہاں کا درد سمویا ہوا نظر آیا۔

میں نے بہت کم ایسی انگریز خواتین دیکھی تھیں جو میک اپ سے اس درجہ بے نیاز ہوں اور ایسی صوفیانہ ومنکسرانہ مسکراہٹ سے سجی ہوئی ہوں۔ دونوں کے لمبے براؤن بال کوٹ کا بدن بن گئے تھے۔ ہرے رنگ کا براؤن دائروں والا اسکارف ریچل کی گردن کے گرد، بوسیدہ سالوں کی کسی یاد کی طرح لپٹا ہوا تھا۔ سر کے جھڑتے براؤن بالوں میں، ماضی کی حسین لٹیں اب بھی جھانک رہی تھیں۔ مجھے ماں بیٹی کو ایک ساتھ دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔ روما کے روم روم میں جیسے خوشی کے چھوٹے چھوٹے قمقمے جل بجھ رہے تھے۔ ہم تینوں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ روما نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میں ان کے ساتھ سٹوڈنٹ کیفے میں چل کر کافی پیوں۔

”آج نہیں۔ “ میں نے معذرت چاہی۔ ”آج میں چاہتی ہوں کہ آپ دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرو۔ ڈھیر ساری اور جتنا وقت ایک دوسرے کو دے سکتے ہو، ضرور دو۔ وش یو اے گڈ لک۔ “ دونوں کے چہروں پہ مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ اور میں نے بائے کہہ کر آگے بڑھ گئی۔

اتفاق سے پھر ہمیں ایک سبجیکٹ اکٹھا اٹینڈ کرنا پڑ گیا۔ شاید روما نے کوئی ماڈیول تبدیل کیا تھا۔ یہ پروفیسر گابرئیل کا سبجیکٹ تھا جو کافی پروفیشنل سوچ کی مالک تھیں لہٰذا ذہنی دباؤ بھی کم تھا۔ میں فارغ ہی سٹاف روم میں بیٹھی فیمنسٹ رسائل دیکھ رہی تھی کہ روما اپنی چائے بنانے کے لئے اندر داخل ہوئی۔ چائے کا پانی کیتلی میں ڈالتے ہوئے میری طرف دیکھ کر بولی۔ ”چائے پیو گی۔ “

”بنا لو ایک کپ میرے لئے بھی۔ “ میں نے چائے کی ضرورت نہ محسوس کرنے کے باوجود کہا۔
الیکٹرک کیٹل کا بٹن آن کرتے ہوئے روما بولی،

”کیسا لگا تمہیں ڈیپارٹمنٹ؟ “
”ٹھیک ہے۔ تھوڑاچیلنجنگ یوں ہے کہ ان موضوعات پہ ہم اپنے معاشرے میں بات نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ٹاپکس ٹابوز میں شمار کیے جاتے ہیں مگر یہاں ان پر اس قدر ریسرچ ہو چکی ہے کہ یہ عام سے موضوعات بن گئے ہیں۔ “

”ارے نہیں۔ یہ بالکل عام موضوعات نہیں ہیں۔ یہاں بھی یہ ممنوع موضوعات ہیں۔ یہ تو اس ڈیپارٹمنٹ کا کمال ہے جس نے ہم جیسوں کو ایک پلیٹ فارم دیا ہوا ہے جس میں ہم نہ صرف اپنا کیس بیان کر سکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے مسائل بھی سمجھ سکتے ہیں اور پھر ریسرچ کے لئے تو یہ ڈیپارٹمنٹ ہے ہی آئیڈیل۔ امریکہ جیسے ملک سے بھی جہاں لوگوں کے خیال سے فریڈم آف ایکسپریشن سب سے زیادہ ہے، وہاں سے بھی سٹوڈنٹ یہاں آتے ہیں تاکہ اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے ریسرچ کر سکیں۔

اورشروع میں تو یہ ڈیپارٹمنٹ کھولنے پر بڑی لے دے ہوئی تھی۔ دو سال تک یوں لگتا تھا کہ انتظامیہ اسے چلنے نہیں دے گی۔ مگر اب چونکہ یہ ڈیپارٹمنٹ پیسہ بنانے کی ٹکسال میں ڈھل چکا ہے اور پیسہ سب کو پیارا ہے لہٰذا اب یہ یونیورسٹی کا چہیتا ڈیپارٹمنٹ ہے۔ بہرحال اس بہانے بہت سوں کا بھلا ہوا۔ کہیں تو ایکسیپٹنس ملی ہم جیسوں کو۔ ویسے کب آئی ہو تم انگلینڈ؟ ”بات کرتے کرتے اچانک اس نے مجھ سے سوال کر لیا۔

”دو ہزارہ گیارہ میں، کیوں؟ “

”ہاں توپھر تم نے نہیں دیکھا کس طرح د و ہزار دس میں اس شہر کا واحد گے کلب بھی بند کروا دیا یہاں کے لوگوں نے کاؤنسل کوشکایتیں بھیج بھیج کر۔ بلکہ دو نوجوانوں کو تو اس حد تک دھمکایا گیا کہ وہ یہ شہر چھوڑ کر چلے گئے۔ ہم لوگ گے رائٹس کے حق میں آواز بلند کرتے تھے تو ہمارا سماجی بائیکاٹ ہوتا تھا۔ اینی ویز۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ یہ ڈیپارٹمنٹ ہمارے لئے تو پناہ گاہ ہے۔ “

چائے کے دو کپ میرے سامنے والی میز پر رکھ کر، وہ میرے سامنے رکھے صوفے پہ بیٹھ گئی۔ آج پہلی بار روما نے میرے ساتھ تفصیلی بات کی تھی اور میرے ذہن میں کئی سوال اٹھا دیے۔

میں نے اس کی طرف توجہ سے دیکھنا شروع کیا۔ اس نے گہرے نیلے رنگ کے بغیر آستین کے بلاؤز کے ساتھ سفید ٹائٹس پہنی ہوئی تھیں۔ اس کے سفید بازو کسی جم کے شوقین نوجوان کی طرح نظر آرہے تھے۔ شروع میں جو بھورے بال کمر تک آ رہے تھے اب کٹ چکے تھے جس سے اس کا چہرہ کسی معصوم بچے کی طرح چمکتا نظر آرہا تھا۔ جو بے چینی مجھے اس کی گفتگو سن کر ہوئی تھی اسے میں اپنے چہرے کے تاثرات سے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔

”اچھا سنو۔ وہ بولی۔ اگر ممکن ہو تو میرا ایک کام سکو گی؟ “
” وہ کیا؟ “

”ممی شاید کسی دن میرا پوچھنے یہاں آ جائیں۔ ان کو بتانا کہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔ “
”وہ کیا؟ “ میں نے حیرت سے پوچھا۔

”میں ممی سے ملنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ ہو سکتا ہے ان کے آنسو دیکھ کر میں اپنا فیصلہ بدل دوں اور ساری زندگی اس جہنم میں جلوں۔ مگر میرا یہاں رہنا ان کی تکلیف میں اضافے کا سبب بنے گا اور کچھ نہیں۔ “
”روما۔ دیکھو۔ میں بہت زیادہ کچھ نہیں جانتی اس معاملے میں۔ مگر کیا تم سمجھتی ہو کہ میں تمہاری ماں کو کچھ بتانے کے لئے موزوں شخص ہوں؟ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments