گم شدہ


”ویل۔ تمہاری مرضی۔ کوئی دباؤ نہیں ہے تم پر۔ تم چاہو تو نہ ملو میری ماں سے۔ نہ کہو اسے کچھ۔ میں نے تمہیں یہ اس لئے کہا ہے کہ وہ یہاں صرف تمہیں جانتی ہے اور تمہیں پسند بھی کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے میری لمبی غیر حاضری کی وجہ سے وہ میرا پتہ دریافت کرنے یہاں آئے اور تم سے ملے۔ لیکن کوئی بات نہیں، نو پرابلم۔ “

”مگرکیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ آخر تم دونوں کے درمیان اتنا فاصلہ کیوں آ رہا ہے؟ جہاں تک میرا خیال ہے تم اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہو۔ “

”نہیں ہم دو بہنیں ہیں۔ سینڈرا مجھ سے چھوٹی ہے۔ اور وہ میرے والدین کے ساتھ بہت اچھی طرح رہتی ہے۔ اس کے اندر میری والی روح نہیں ہے۔ وہ مکمل ہے۔ پوری ہے۔ اسے اپنے گھر میں مکمل اعتماد اور پیار حاصل ہے۔ ہم جیسے ادھورے لوگوں کو گھر سے بھی آدھا ادھورا پیار ہی ملتا ہے۔ مگر میرا خیال ہے میں غلط ہوں۔ شاید ماں بلاتخصیص اپنی اولاد سے پیار کرتی ہے۔ جیسا کہ میری ماں مجھ سے کرتی ہے۔ مگر میری وجہ سے وہ اپنے شوہر سے جھگڑ کر اپنا گھر نہیں چھوڑ سکتی۔ اور میرے ساتھ رہنے کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اور میرا کوئی ٹھکانہ ہے بھی نہیں۔ دوسرے شہر جا کر نوکری ڈھونڈوں گی، اگرمل گئی۔ بس جینا ہے اپنے ڈھنگ سے اپنی زندگی کو۔ ممی کا احساس نہ ہوتا تو شاید یہ ڈگری بھی نہ کرتی مگر اب نکلنا ہے یہاں سے۔ سارے اسائنمنٹس جمع کرواچکی ہوں۔ رزلٹ آن لائن پتہ کر لوں گی۔ “

اوہ گاڈ۔ میں کس طرح ان دو کرداروں کے درمیان اندیکھی شاہراہ پہ اچانک بغیر کسی ارادے کے آ گئی تھی۔ مجھے پتہ تک نہ چلا۔ میں نے سنجیدگی سے معاملے کو دیکھنا شروع کیا۔
”کیا کچھ تمہاری ذاتی زندگی سے جڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے تم سب سے تعلق توڑ کر جا رہی ہو“ میں نے پوچھا۔

”دیکھو۔ میں وہ نہیں ہوں جو نظر آرہی ہوں۔ میں اندر سے اپنی ہی ضد ہوں۔ میں بھی عام برطانوی لڑکیوں کی طرح کوئی سولہ سال کے لگ بھگ پہلی بار جنسی تجربے سے گزری تھی اور سوچا تھا کہ ایسی بورنگ چیز کے لئے دنیا کیوں پاگل ہے۔ میں بارہا اسے بے لذت تجربے سے گزری، مطمئن ہونا تو دور کی بات ہے، ایسی بے چینی، انتشار اور الجھن نے مجھے گھیر لیا کہ زندگی اجیرن ہو گئی۔ مگر میں کس سے بات کرتی؟ کس کو بتاتی؟ یہ بوسیدہ معاشرہ لگی بندھی ڈگر سے آگے کچھ سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ میری یہ حالت اس وقت تک رہی جب تک میں نے مختلف جنسی تجربات نہیں کیے اور خود کو نہیں پہچانا۔ خیر۔ میں نے کہا نہ۔ میں اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی طرح خودکشی نہیں کروں گی۔ کم از کم ابھی تک تو نہیں۔ ابھی لڑنے کا حوصلہ ہے مجھ میں۔ “

اپنا چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے اس نے میرا کپ بھی اٹھایا اور اسے سنک میں رکھ کر دھونے لگی۔ پھر تولئے سے ہاتھ صاف کر کے۔ اپنا بیگ اٹھایا۔ ہینگر پہ ٹنگے کوٹ کو اٹھا کر، چہرے پہ عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے الوداعی نظروں سے دیکھنے لگی۔

میں نے بانہیں پھیلائیں۔ وہ کھٹ سے میرے گلے لگ گئی۔ چند لمحے میں اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتی رہی۔
اوکے۔ بائے، وہ بولی۔

بائے بائے، ہماری آنکھوں میں نمی آنا فطری عمل تھا۔
ایک سال کے کورس میں چند بار ملنے والے رفیق یوں ان اداروں میں جدا ہو جاتے ہیں کہ بعض تو بائے۔ کہنے کی نوبت بھی نہیں آنے دیتے۔ کام کیا، رزلٹ لیا۔ اور گُم۔

بہرکیف۔ روما اس ڈیپارٹمنٹ کی واحد لڑکی نہیں تھی جو اندرونی کشمکش یا اضطراب کا شکار تھی۔ مگراس کے حوالے سے اہم بات یہ تھی کہ وہ بہت منظم، آرگنائزڈ اور پُرسکون دکھائی دیتی تھی اور اپنی وضع قطع سے چاروں اور الارم نہیں بجاتی پھرتی تھی کہ۔ مجھے دیکھو۔ میں کیا ہوں۔ کئی دوسرے سٹوڈنٹس کی طرح۔ مثلاً انجلینا کا چمکتا گنجا سر اور دونوں بازوؤں پر سیاہ اور سرمئی ٹاٹوز اسے ایک دم مختلف ثابت کرتے تھے۔

جیسیکا کے کپڑوں کا سائز اسے دوسروں سے مختلف کرتا تھا۔ خواہ کوئی بھی موسم ہو، جیسے ہی وہ کوٹ اتارتی تھی اسے لگتا تھا صرف انرپہن کر آئی ہے اوراب سب کے سامنے لباس پہنے گی۔ افریقین امریکن لڑکیوں کا ہیپی گروپ بھی ایک منفرد نوعیت کا گروپ تھا۔ ایشیائی سٹوڈنٹس جن میں اکثریت ایسٹ ایشیائی سٹوڈنٹس کی تھی، نہایت مدلل انداز میں کھل کر جینڈرڈسکریمینشن کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں سے تھیں۔ ان کے ریسرچ کے موضوعات بھی مختلف جینڈرز کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش پر تھے اور ان میں سے اکثریت کی وضع قطع انہیں روایت و خود ساختہ تہذیب کا باغی ثابت کرتی تھی۔

سال ختم ہو رہا تھا۔ کافی سٹوڈنٹس دکھائی نہیں دیتے تھے۔ کئی ایک اکا دکا آتے، اسائنمنٹ کی ہارڈ کاپی جمع کرواتے اور روانہ ہو جاتے۔ اپنا آخری مضمون جمع کروا کر میں پرنٹر شاپ میں چلی گئی کیونکہ سنا تھا کہ وہاں کتابوں کی سیل لگی ہے۔ دو کتابیں میرے مطلب کی ملیں، جیسے ہی میں نے کتابیں خرید کر واپسی کی راہ لی، میری کھڑی ریچل پہ پڑی۔ نظر پرنٹر شاپ کے باہر، ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی طرف رخ کیے شیشے کے دوسری پار سے میں اسے دیکھ سکتی تھی، اس کا آدھا چہرہ صاف نظر آ رہا تھا۔

میرا دل چاہا کہ اس موضوع کو بند ہی رہنے دوں۔ آج ویسے بھی ڈیپارٹمنٹ میں میرا آخری دن تھا۔ مگر باہر نکلتے نکلتے میرا ارادہ بدل گیا۔
”ہیلو“۔ میں نے ہی ریچل کو مخاطب کیا۔

”اوہ“۔ اطمینان اور خوشگوار حیرت اس کے چہرے پر پھیل گئی۔
”کیا روما کا انتظار کر رہی ہو؟ “۔ میں نے ہلکے پھلکے سے انداز سے پوچھا۔
بجائے کچھ کہنے کے اس نے سر ہلایا۔

”روما یہاں نہیں ہے مگر وہ مجھ سے مل کر گئی ہے۔ میں گھر جا رہی ہوں۔ سامنے ہی پارکنگ لاٹ میں میری گاڑی ہے اگر آپ کے پاس وقت ہے تو چلیں۔ کچھ دیر ساتھ گزاریں گے۔ “
ریچل میرے ساتھ میرے گھر آ چکی تھی۔

میں آخری پیپر جمع کر کے مکمل ذہنی فراغت کا مزا لینا چاہتی تھی مگر ایک ذمے داری کی طرح روما کے آخری جملے میرے دل میں پھانس پن کر چبھے ہوئے تھے۔ تقریباً وہی جملے جو اس نے مجھ سے آخری بار ملتے ہوئے کہے تھے۔ میں نے ریچل کو رُک ُرک کر سنائے۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے لگتا تھا کہ اس کے لئے کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ اس نے ان جملوں کو متوقع یا سنے سنائے جملوں کے طور پر لیا۔ پھر آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا۔

”وہ پتہ نہیں کب سے۔ کیا کچھ اندر ہی اندر سہہ رہی تھی۔ اس نے کبھی عام بچوں کی طرح فرمائشی‍ں نہیں کیں۔ کبھی جیب خرچ نہیں مانگا۔ کبھی ٹین ایجر لڑکیوں کی طرح میک اپ نہیں خریدا نہ ہی میرا میک اپ استعمال کیا۔ ہمیشہ میں نے اس کے مزاج میں تابعداری دیکھی۔ یس مام، یس ڈیڈی، کے ساتھ اس نے بچپن گزارا۔ نو کہنا تو جیسے اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ وہ ہر ایک کے لئے آئیڈیل بچی تھی۔ سب اپنے بچوں کو اس کی مثال دیتے تھے۔

مگر میں تمہیں بتاؤں۔ میں دل ہی دل میں دکھی رہتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح حکم چلائے۔ بحث کرے۔ ۔ ہم سے اختلاف کرے۔ فرمائشیں کرے۔ اور پھر یوں ہوا کہ خاموش رہتے رہتے۔ وہ اداس رہنے لگی اور یہ بات میرے لئے نہایت تکلیف دہ بن گئی۔ کبھی تم نے غور کیا، اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی خاموشی، شکایت اور خود ترحمی ہے۔ میں نے کئی بار اس کی آنکھوں کی تحریر کو پڑھنا چاہا ہے۔ مگر درد پڑھنے ہی نہیں دیتا۔

یقین کرو۔ میں سکون سے سو نہیں سکی جب جب میں نے اس کی آنکھوں میں بے وجہ آنسو دیکھے۔ کسی ماں کا بچہ بے سبب، بے وجہ اداس رہے، غمزہ رہے۔ اور کچھ شیئر بھی نہ کر سکے۔ سوچو تو سہی۔ کتنے غم کی بات ہے۔ معلوم نہیں کیسے اور کیونکر میری بچی کی روح میں کوئی ازلی دکھ سمو دیا گیا تھا۔ جو نہ اسے چین سے رہنے دیتا تھا نہ مجھے۔ ”

”اور جب اس نے۔ اپنی ٹیچر کی مدد سے مجھے بتایا کہ وہ، وہ نہیں ہے جیسا سب اسے سمجھتے ہیں بلکہ وہ خود کو، کسی اور کے جسم میں قید پاتی ہے اور اپنے جسم کی متلاشی ہے۔ تو یقین مانو مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ جینڈر ایشوز وغیرہ پر میرا مطالعہ کچھ زیادہ نہیں تھا۔ میں نے ٹرانس جینڈر، ٹرانس سیکشؤل اور اینڈرو جینس وغیرہ کے بارے میں کچھ پڑھا ضرورتھا مگراپنے بچے کو ایسی صبر آزما اور الجھن آمیز صورتحال میں دیکھ کر۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments