کم سنی کی شادی اور اسلام


رپورٹ میں کہا گیا کہ خصوصاً ہندوستان میں اگر والدین کو علم ہو جائے کہ ان کی پیدا ہونے والی اولاد لڑکی ہے تو وہ اسے پیدائش سے قبل ہی مار دیتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جنس کی بنیاد پر اولاد خصوصاً لڑکوں کا انتخاب سماجی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی سطح پر معاشرے میں سرایت کردہ مزاج اور سوچ کا مظہر ہے جہاں خواتین اور لڑکیوں سے واضح طور پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس طرح کے اقدامات سے ہی لڑکیوں کی اسمگلنگ یا جبری شادی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی 15 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی کر دی جاتی ہے جو دنیا بھر میں بچوں کی شادی (چائلڈ میرج) کی سب سے بڑی شرح ہے۔

خطے میں بچوں کی شادی کے حوالے سے سب سے بلند شرح کے حامل ملک بنگلہ دیش میں ہر تین میں سے دو لڑکیوں کی بلوغت سے قبل ہی شادی کر دی جاتی ہے جس کے باعث خواتین کا جنسی استحصال اور ان پر گھریلو تشدد کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوبی ایشیا میں بچوں میں غذائی قلت کے باعث پانچ سال سے کم عمر تقریباً 40 فیصد بچوں کی صحیح نشوونما نہیں ہوپاتی۔

یاد رہے کہ دنیا بھر میں صحیح نشوونما نہ ہونے کے باعث ہر سال تقریباً دس لاکھ بچے ہلاک ہو جاتے ہیں یا اس سے ان کی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 1990 میں یہ شرح 60 فیصد کے قریب تھی لیکن اب اس میں کمی آئی ہے اور اب یہ شرح 40 فیصد سے کم ہے۔ تاہم خطے میں شدید عدم مساوات ہے اور پانچ سال سے کم عمر تقریباً آدھے ہندوستانی بچے نشوونما کی شدید کمی کا شکار ہیں جن کی تعداد چھ کروڑ سے زائد بنتی ہے۔

یہ رپورٹ بچوں کے حقوق کے حوالے سے کنونشن کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر جاری کی گئی، جس میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں جنوبی ایشیا کے تمام آٹھ ملکوں ہندوستان، پاکستان، افغا نستا ن، نیپال، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بچوں کی زندگیوں میں واضح بہتری دیکھی گئی ہے۔ تاہم رپورٹ میں جنسی سطح پر امتیازی سلوک اور دن بدن بگڑتی صورتحال پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس سلسلے میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے شعبہ صحت، تعلیم اور معاشرتی سطح پر خرچ کی جانے والی رقم دیگر خطوں سے کہیں کم ہے۔

یونیسیف کی اس رپورٹ میں واضح اشارہ موجود ہے کہ کم عمری کی شادی اور بچوں کی شرح اموات روکنے کے لیے بجٹ میں اضافہ بے حد ضروری ہے۔ اسی نوعیت کا دوسرا انکشاف بچو ں کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی امدادی ادارے ’سیو دا چلڈرن‘ کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر 7 سیکنڈ میں 15 سال سے کم عمر ایک بچی کی شادی ہوجاتی ہے۔ یہ رپورٹ گزشتہ برس 11 اکتوبر کو ’لڑکیوں کے بین اقوامی دن‘ کے موقع پر جاری کی گئی۔ دنیا کی ایک ارب سے زائد لڑکیوں کے حقوق اور ان کو درپیش چیلنجز کو تسلیم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے 2011 میں اس دن کو منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان، یمن، ہندوستان، پاکستان اور صومالیہ سمیت کئی ممالک میں 10 سال تک کی عمر کی لڑکیوں کی اکثر ان کی عمر سے کئی سال بڑے عمر کے مردوں سے شادیاں ہوجاتی ہیں۔ رپورٹ میں لڑکیوں کی شادی کے حوالے سے دنیا کے مختلف ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ یہ درجہ بندی لڑکیوں کی کم عمری میں شادی، اسکول جانے، کم عمری میں حمل، زچگی میں اموات اور پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد کے مطابق کی گئی ہے۔

اس درجہ بندی میں نائیجریا، چاڈ، جمہوریہ وسطی افریقہ، مالی اور صومالیہ سب سے نیچے ہیں، جبکہ 144 میں سے ہندوستان، پاکستان اور افغانستان بالترتیب 88، 90 اور 121 ویں نمبر پر ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ تنازعات، غربت اور انسانی بحران لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کے اہم عوامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کم عمری میں شادی سے لڑکیاں نہ صرف تعلیم کے مواقع حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں، بلکہ کم عمری میں حمل اور زچگی سے ان کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ سیو دا چلڈرن انٹرنیشنل کی چیف ایگزیکٹیو ہیلے تھورننگ شمٹ کا رپورٹ کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’کم عمری میں شادی سے ناموافق صورتحال کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جس سے لڑکیوں کے سیکھنے، نشوونما پانے اور بچے رہنے جیسے بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ جن لڑکیوں کی کم عمری میں شادی ہوجاتی ہے وہ عام طور پر اسکول نہیں جاسکتیں اور ان کے ساتھ گھریلو استحصال، تشدد اور ریپ کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، وہ حاملہ ہوسکتی ہیں اور ان میں ایچ آئی وی سمیت جنسی طور پر منتقل ہونے والے دیگر انفکشنز کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ’رپورٹ میں کم عمری میں شادی کے سنگین نتائج اور نقصانات کے حوالے سے چند مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سیرالیون میں ایبولا کی وبا سے اسکول بند ہونے کے نتیجے میں تقریباً 14 ہزار کم عمر لڑکیاں حاملہ ہو گئیں۔ اسی طرح لبنان میں قیام پذیر شامی پناہ گزین سحر (اصلی نام ظاہر نہیں کیا) کی 13 سال کی عمر میں ایک 20 سال کے لڑکے سے شادی ہوگئی تھی اور اب وہ 14 سال کی ہیں اور دو ماہ کی حاملہ ہیں۔ دریں اثنا اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کم عمری میں شادی کے واقعات، جو آج تقریباً 70 کروڑ ہیں، ان کی 2030 تک بڑھ کر تقریباً 95 کروڑ ہوجائے گی۔

یہ سماجی خرابی مختلف حوالوں سے عربوں میں بھی پائی جاتی ہے، چنانچہ گزشتہ چند برسوں سے عرب ممالک میں کم سنی کی شادی کے خلاف سیمینار اور محاضرات کے ذریعہ اسے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چناں چہ 8 نومبر 2012 کو سعودی عرب میں کم سنی کی شادی روکنے سمیت شادی کی عمر متعین کرنے کے موضوع پر ایک سمینار منعقد کیا گیا جس میں سعودی عرب کے سینئر علماء پر مشتمل کونسل کے سابق رکن شیخ عبداللہ آل رکبان کا کہنا تھا کہ مملکت کے دیہی علاقوں میں بدّو کمیونٹیز میں آج بھی کم سن بچیوں کو مال دار افراد کے ہاں شادی کے نام پر فروخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

انھوں نے خاوند اور بیوی کی عمروں کے درمیان تناسب کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے یہ بات امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام ”شادی کی عمر: مذہبی اور سماجی تناظر“ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے کہا کہ ”اگر کسی لڑکی کی عمر پچیس سے زیادہ ہے تو وہ باشعور سمجھی جاتی ہے اور اسے اپنی پسند کے مرد کے ساتھ شادی کا حق حاصل ہے“۔ انھوں نے کہا کہ ”اگر لڑکی کی عمر بیس سال سے کم ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے والدین اس کو کسی مال دار بوڑھے سے شادی پر مجبور کرسکتے ہیں“۔

شیخ رکبان نے کہا کہ ”یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان عمر کا تفاوت مناسب ہو تاکہ وہ صحت مندانہ ازدواجی تعلقات استوار کرسکیں“۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان علماء سے متفق نہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ شادی کی کم سے کم عمر کے تعین کی مذہب میں اجازت نہیں ہے۔ ان کے بہ قول ایک حکمراں شادی کی عمر مقرر کرسکتا ہے اور ایک مخصوص عمر کے افراد کو خاص حالات کے سوا شادی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ امام محمد بن سعود یونیورسٹی کے کلیہ سماجی علوم میں سماجیات کے پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبدالرحمان الرومی نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی عرب میں پانچ ہزار چھے سو بائیس لڑکیوں کی چودہ سال سے کم عمر میں شادی ہوئی تھی اور یہ تعداد ملک کی کل آبادی کا ایک فی صد سے زیادہ نہیں ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments