مجید نے مضمون لکھا: ہوشنگ مرادی کرمانی کی کہانی


میں لکھ رہا تھا اور بی بی بات کرتی جاتی تھی۔ وہ حقے کے کش لگاتی ہوئی ضرب المثال پڑھتی جاتی۔ جس سے میرا دھیان بھٹک جاتا۔ میں جو لکھتا مجھے پسند نہ آتا۔ کاٹتا اور آخر میں کاپی کے صفحے پھاڑ کر الگ کرتا اور پھر سے لکھنا شروع کرتا۔

ایک مثالی ماں کے نمونے کے لئے، کبریٰ، عباس کی بیوی کی کہانی لکھی۔ جس کا شوہر چاہ کن ہے یعنی کنویں کھودنے کا کام کرتا ہے۔ ایک بار اسی کام کے دوران وہ زخمی ہو کر فوت ہو گیا ہے اور بچوں کا ایک ٹولا، جس میں بڑے چھوٹے اور شیر خوار شامل ہیں، اپنی بیوی کے حوالے کر گیا ہے۔ کبری بیچاری بچوں کا پیٹ بھرنے اور انہیں پال پوس کر بڑا کرنے کے لئے بہت محنت کرتی ہے۔ ہر صبح ایک برتن اٹھا کر ذبح خانے پہنچتی ہے۔ دنبوں کے ذبح ہونے پر ان کا خون برتن میں جمع کرتی ہے۔

گھر لا کر پکاتی ہے اور بچوں کو کھانے کے لئے دیتی ہے۔ جب کبھی اُس کے پاس دھلوانے کے لئے لائے گئے کپڑے نہ پہنچے ہوں تو بھٹے پر جا کر اینٹیں بنانے کا کام کرتی ہے۔ اس کے ہاتھوں کی جلد محنت مشقت کرتے رہنے سے آدمیوں کے ہاتھوں کی طرح کھردری ہو چکی ہے۔ اس کا جسم غذائیت کی کمی سے لاغر اور رنگ بھوک کی وجہ سے پیلا ہونے کے بجائے نیلا پڑتا جاتا ہے۔ کہہ جاتا ہے کہ جو کچھ بچا کھچا، یہاں وہاں سے لا کر وہ اور اس کے بچے کھاتے ہیں اسی کی وجہ سے اُن سب کا رنگ نیلا پڑتا جا رہا ہے۔

عباس کی بیوی اور اس کے یتیم بچوں کی کہانی مکمل کر کے بی بی کو سنائی۔ وہ غمگین ہو گئی اور کہنے لگی، ”یتمیوں کی کہانیوں سے میرا دل افسردہ ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا لکھو کہ لوگ غمگین ہونے کے بجائے سُن کر خوش ہوں۔ “ مجھے یہ بات ٹھیک لگی اور محسوس ہوا کہ یہ کہانی ٹھیک نہیں ہے اور نہ ہی مفید ہے۔ یہ کوئی ایسی خاص چیز معلوم نہیں ہو رہی کہ انشا کے پیریڈ میں معلم کو پسند آئے۔ مجھے اس کا تجربہ تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ خوبصورت اور ادبی رنگ میں ڈوبے ہوئے جملوں والی تحریر ہی پورے بیس نمبر دلوا سکتی ہے۔ چنانچہ ایک بار پھر صفحہ پھاڑ کر میں نے یوں لکھنا شروع کیا:

اس لمحے جب رات اپنی تاریکی کی چادر ہر چیز پر اوڑھا دیتی ہے۔ اس گھڑی جب تمام مخلوقات اپنے بستروں پر دراز سو چکی ہوتی ہیں۔ یہ ماں ہی ہے جو اپنی مترنم اور دل پذیر لوری سے اپنے فرزندِ دل بند کے کانوں کی نوازش کرتی ہے۔ ماں کی لوری کی آواز، فرشتوں کی پروں کی مانند ہے، جو بچے کو نیند کی پرسکون وادی میں لے جا اتارتی ہے۔ اپنے خوبصورت، پیارے اور معصوم بچے کو اپنی آغوش کے میں لے کر، ماں دنیا کے تمام غم بھلا دیتی ہے۔ ہاں! یہ ماں ہی ہے جو بچے کے گہوارے کو جھولتی جھولتی دنیا سے بے خبر ہو جاتی ہے۔ اپنے فرزند کے گہوارے کو جھولنا بہار کی اس مہک دار نسیمِ صبح کی طرح ہے جس سے شگوفے رقص کرنے لگتے ہیں۔ یہ بچے وہ ننی کلیاں ہی تو ہیں جو آئندہ اس سماج کے گلِ در سبد بنیں گے۔

تقریبا پندرہ لائنیں، اسی طرح کے جملوں سے پر کر کے لکھیں۔ آخر میں ایک عمدہ نتیجہ نکالا اور دو تین آب دار شعر لکھے۔ یوں پہلے مضمون کو مکمل کر کے سکھ کا سانس لیا۔ اب پیچھے دو مضمون لکھنے رہ گئے تھے۔

جتنا بھی ذہن پر زور دیا کہ کچھ اَور لکھوں جو اِس سے مختلف ہو۔ لیکن یہ ممکن نہ ہوا۔ اگر سچ پوچھیں تو اب مزید لکھنے کا حوصلہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے، ان باقی دونوں مضمونوں کو ہوبہو، بال برابر بھی تبدیل کیے بغیر، اس پہلے والے سے دیکھ دیکھ کر لکھنے کے بعد پرسکون ہوا۔

لکھنے کے دوران، چند بار گاہک اپنا آڈر وصول کرنے کے لئے آئے۔ میں نے کہا، ”صبح صبح میں خود ہی آپ کے گھر پہنچا دوں گا۔ “
اس رات، شاید سحری کے وقت تک بیٹھ کر لکھتا اور کام کرتا رہا۔ ایران کا نقشہ بنایا۔ لیکن اس میں رنگ نہ بھر سکا۔ میری آنکھیں دکھ رہی تھیں اور بار بار جمائیاں آ رہی تھیں۔ میں لحاف اوڑھ کر سو گیا۔

صبح منہ اندھیرے ہی انشا کی کاپیوں کو ان کے مالکوں تک پہنچایا اور شکریہ، مہربانی اور قدردان مسکراہٹ سمیٹی اور واپس اپنے کام کی طرف لوٹا۔
سکول میں دوسرے پیریڈ کے آخر میں ’مش رضا‘ ، سکول کا فراش (نائب قاصد) ، ہماری کلاس میں آیا، دروازے سے اندر سر کر کے کہا، ”مجید باغبانی کو پرنسل سر بلا رہے ہیں۔ “

معلم نے میری طرف رخ کر کے کہا، ”اٹھو اور دیکھو کہ تمھیں کیوں بلایا ہے۔ “
میں اٹھا۔ بینچوں کے درمیان سے گزرتا ہوا کلاس سے باہر آیا۔ مش رضا سے کہا، ”خدا تمھارے ابا کی قبر ٹھنڈی کرے۔ تم نے مجھے نجات دی، میں تھک گیا تھا اور تفریح کی گھنٹی بجنے کا انتظار کر رہا تھا۔ “

مش رضا نے کہا، ”تم نے ایسا کیا کام کیا ہے مجید؟ پرنسپل سر بہت غصے میں ہیں۔ “

میرا دل بیٹھنے لگا۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ میں نے کہا، ”ہوا کیا ہے؟ جانتے ہو مش رضا؟ “
بولا، ”اللہ ہی جانتا ہے۔ “

دفتر میں پہنچے۔ موٹی گردن والا ایک اجنبی جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، وہاں پر موجود تھا۔ میں نے پرنسپل سر کو سلام کیا۔ انھوں نے سلام کا جواب دینے کے بجائے تلخ نظروں کے ساتھ مجھے دیکھا۔ جس سے میری حالت تقریبا مرنے والی ہو گئی۔ میں نے گردن ٹیڑھی کر کے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ”آغا۔ میں نے۔ ایسا کیا کر دیا ہے کہ آپ اتنے غصے میں ہیں؟ “

بولے، ”اس بار تم نے اخیر کر دی ہے۔ اب تمھارا وہاں کیا کام تھا کہ تم لڑکیوں کے سکول گئے؟ “
میں نے کہا، ”آغا۔ خدا کی قسم۔ بی بی کی قسم، مجھے نہیں معلوم کہ ہوا کیا ہے؟ “

موٹی گردن والے بد شکل آدمی نے، جو وہیں دفتر میں ایک طرف کھڑا تھا، پرنسپل سر سے کہا، ”میرے خیال میں یہ نہیں ہے۔ آغا، پرنسپل میڈیم نے کہا تھا۔ مجید باغبانی۔ “

پرنسپل سر میز کی دوسری طرف سے اٹھے، سگریٹ سلگایا اور کہا، ”مجید باغبانی یہی ہے۔ اِدھر اس مجید کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے جو اس طرح کے کام کرے۔ “

میں وہیں حیران و مبہوت کھڑا تھا۔ میں نے پرنسپل سر کے قدموں کو ہاتھ لگایا اور کہا، ”اگر میری پٹائی ہی کرنی ہے تو سو بسم اللہ۔ میں نے بہت ماریں کھائی ہیں، لیکن کم از کم یہ تو بتائیں کہ میں نے کیا کیا ہے؟ “

اس چوڑے چکلے، بھاری جسم والے آدمی نے کہا، ”اجازت دیں تو میں اسے پرنسپل میڈیم کے پاس لے جاؤں۔ وہ دیکھ کر حیران ہوں گی کہ یہ وہی ہو سکتا ہے۔ وہ پہلے اس سے بات کر کے دیکھیں گی۔ پھر وہی آپ کو بتائیں گی کہ دراصل کیا ہوا ہے؟ پھر آپ جانیں اور آپ کا شاگرد جانے۔ “

اس نے بات کو مکمل کیا اور اپنا لمبا اور مضبوط بازو بڑھایا اور میرے کمزور بازو کو اپنے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں جکڑ کر کھینچا۔ میں رونے لگا۔ ساری عمر مجھے کسی نے کبھی یوں نہیں کھینچا تھا۔ ڈر سے میرا جسم کانپنے لگا۔ میں نے پرنسپل سر کی طرف رخ کر کے ان کی آستین کو زور سے پکڑ لیا اور کہا، ”آغا۔ آپ بھی میرے ساتھ آئیں، یا پھر کم از کم مش رضا کو ہی میرے ساتھ بھیج دیں۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ لڑکیوں کے سکول لے جا کر میری بوٹی بوٹی کر دیں گے۔ اس وقت بی بی غم سے مر جائے گی۔ آپ پھر اگلے جہان، خدا کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments