مجید نے مضمون لکھا: ہوشنگ مرادی کرمانی کی کہانی


میں نے کہا، ”جی میں نے لکھا ہے۔ “
پوچھا، ”کیوں لکھا ہے؟ “

میں نے جواب دیا، ”میں مضمون اچھا لکھ لیتا ہوں اور ان کے ماں باپ نے کہا تب میں نے لکھا۔ “
کہا، ”تم سرِ پیاز ہو یا تہہ پیاز؟ “

میں نے کہا، ”میں نہ سرِ پیاز ہوں اور نہ ہی تہہ پیاز۔ دوبارہ پھر یہی غلطی کروں گا۔ قلم ہاتھ میں اٹھاؤں گا اور ان کے لیے مضمون لکھوں گا۔ “ میں یہ بولا اور ایک ہاتھ سے پتلون کو تھاما۔

طاہرہ، شاطر آغا کی بیٹی، نے بولنا شروع کیا اور میری جگہ جواب دینے لگی۔ وہ باقی دونوں سے زیادہ تیز طرار تھی۔ بولی، ”خانم! ہماری کوئی غلطی نہیں ہے۔ میرے ابو نانبائی ہیں۔ یہ ہمارے گاہکوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی مالی حالت اکثر تنگ رہتی ہے۔ یہ مہینے کے مہینے ہم سے ادھار پر نان لیتے ہیں۔ مہینے کے آخر میں اس کی دادی آ کر پیسے دے جاتی ہے۔ کبھی کبھی دو دو مہینے یوں ہی گزر جاتے ہیں اور ان کے پاس دینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔

میرے ابو الٹا ان کی مدد کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ اپنے قرض وغیرہ واپس کر سکیں۔ میرے ابو نے اس سے کہا کہ مضمون لکھ دے۔ ورنہ میں ہر کسی کے سامنے التماس کرنے والی نہیں ہوں۔ البتہ مضمون جو اس نے میرے لئے لکھا، انھیں بھی وہی بالکل ہو بہو نقل کر کے دے دیا ہے۔ سب سے پہلے میں نے اپنا مضمون پڑھ کر کلاس میں سنایا۔ یہ دونوں پھر پیریڈ ختم ہونے پر یہ میری جان کے درپے ہو گئیں۔ پھر کچھ لڑکیاں میری طرفداری کرنے والی بھی آ گئیں تو جھگڑا شروع ہو گیا۔ میری کوئی غلطی نہیں ہے۔ ”

اس کے ساتھ ہی کل ربابہ کی بیٹی زہرا نے بولنا شروع کیا، ”میری ماں ایک رحمدل عورت ہے۔ وہ اس کی دادی کو جانتی ہے۔ میری امی نے میرے ابو سے ان کے لئے سفارش کی ہے کہ جب بھی یہ گوشت لینے کے لئے آئیں تو انھیں اچھا گوشت دیں اور پیسے بھی کم لیں۔ میرے ابو قصاب ہیں۔ میری امی کہتیں ہیں کہ یہ ثواب کا کام ہے۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ ثواب الٹا اپنے گلے بھی پڑ جاتا ہے۔ “

اس کی بات پوری ہو جانے پر، پرنسپل میڈیم نے نرگس کی طرف رخ کر کے کہا، ”خوب! تمھیں کیا کہنا ہے؟ “

نرگس میرے بارے میں بات کرنے سے شرمائی کہ کہیں میری باقی ماندہ عزت ہی نہ جاتی رہے۔ اس نے سر جھکا لیا اور رونا شروع کر دیا۔ شاید اسے اس بات کی توقع نہیں تھی کہ اس کے لئے لکھا ہوا مضمون دوسروں کو بھی دے دوں گا۔

”خانم! مجھے میری ماں کی قسم۔ میں۔ میں۔ اور مجید۔ “
اس کا رونا جاری رہا۔ میرا دل اس کے لئے پسیجا۔ خدا اسے لمبی عمر دے کہ اس نے دوسروں کی طرح مجھے بے آبرو نہیں کیا۔ چنانچہ میں نے خود ہر بات بتانے کا ارادہ کر کے یوں بولنا شروع کیا:

”خانم! یہ نرگس ہمارے ہمسایوں کی بیٹی ہے۔ اس کے ابو رجسٹریشن آفس میں کام کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میری بی بی نے اپنا اور میرا شناخت نامہ گم کر دیا تھا۔ اس کے ابو نے کافی دوڑ دھوپ اور سرکاری ملازموں کی منت سماجت کر کے دوبارہ شناخت نامے بنوائے تھے۔ اور جب کبھی بھی یہ کوئی دنبا ذبح کرتے ہیں تو ہمارے لیے بہت سا گوشت بھیجتے ہیں۔ ایک رات بی بی کی حالت خراب ہو گئی۔ اس کی امی ہمارے گھر آئی اور بی بی کو سہارا دے کر ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ایک بار ہماری حالت خستہ تھی۔ ہم نے ان سے پندرہ تومان قرض لیے اور ابھی تک پندرہ تومان واپس نہیں کیے ہیں۔ اور ایک بار میں بیمار ہو گیا تو اس کی امی عیادت کرنے آئی، تقریبا ڈیڑھ کلو لیموں میرے لیے لے کر آئی۔ یہ سب ہی مضمون لکھنے کا سبب بنا اور آخر اس کی وجہ سے لڑائی ہوئی ہے۔ “

میڈیم مسکرائی اور لڑکیوں کی طرف رخ کر کے کہا، ”خوب! اب تم جاؤ اور یاد رہے، آئندہ اپنا مضمون کسی دوسرے سے لکھوانے کے لئے نہیں دینا بلکہ خود لکھنا تاکہ تمھیں خود لکھنے میں مہارت ہو۔ “

نرگس ابھی تک رو رہی تھی۔ اس کا نچلا ہونٹ کانپ رہا تھا۔ وہ میری بات سے دل گرفتہ تھی۔ لڑکیاں چلی گئیں۔ میں نے میڈیم سے کہا:

”آپ کی اجازت سے میں بھی جاؤں؟ “
بولیں، ”نہیں، رکو۔ مجھے تم سے کچھ کام ہے۔ بیٹھ جاؤ۔ “

میں بیٹھ گیا اور میڈیم کی طرف دیکھنے لگا۔ گھنٹی بجی۔ وہی آدمی جو مجھے میرے سکول سے کھینچ کھینچ کر یہاں لایا تھا، چاے کی ٹرے کے ساتھ آیا۔ ایک پیالی چاے میرے سامنے کی۔ جب میں نے پیالی اٹھائی تو اس نے آہستہ سے کہا، ”اوئے شیطان! پہلے خود فتنہ پیدا کرتے ہو اور پھر اپنی جگہ بنا لیتے ہو۔ “ اور دفتر سے باہر نکل گیا۔

پرنسپل میڈیم نے جو کہ اب آگ سے پانی ہو چکی تھیں، کہا، ”بیٹا! جیسا کہ تم مقالہ لکھنا جانتے ہو۔ تمھارے پرنسپل صاحب بھی فون پر تمھاری تعریف کر رہے تھے۔ تو ایسا ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ تم میرے لیے بھی کچھ لکھو۔ کچھ روز بعد حقوق نسواں کا عالمی دن آ رہا ہے۔ میں نے عورتوں کی آزادی کے موضوع پر ایک تقریر کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ میں تم سے کہتی ہوں کہ ایک ایسی عمدہ تقریر لکھو جو کمال کی ہو۔ ایسے آب دار اور قابل داد جملے ہوں کہ عورتوں کے مقام کو کافی بلند کر دیں۔ دس صفحے کافی ہوں گے۔ یہ کام مفت نہیں ہو گا بلکہ میں اس کا پیسوں کی شکل میں معاوضہ دوں گی۔ “

میں چاے پی رہا تھا اور قند کے ٹکڑے کو منہ میں ایک جانب سے دوسری جانب لڑھکا رہا تھا بولا، ”یہی ایک مضمون جو میں نے لکھا ہے، میری سات پشتوں تک کافی ہے۔ کل کوئی شخص سامنے آئے گا اور مجھ سے پوچھے گا کہ تمہارے ان خانم کے لیے مقالہ لکھنے کی وجہ کیا بنی ہے؟ تو یہ ثابت کرنا کہ ہمارے درمیان کبھی کوئی ایسی چیز نہیں رہی ہے، میرے لئے یقیناً کسی آفت سے نمٹنے سے کم نہیں ہو گا، میں بہت ڈرپوک انسان ہوں۔ “

میڈہم قہقہے لگا کر ہنسنے لگی ور میں ان قہقہوں کے درمیان ہی کرسی سے اٹھا، قند کے ٹکڑے کو نگلا اور کہا، ”خدا حافظ میں جا رہا ہوں۔ “ اور ہوا کی سی تیزی سے دفتر سے باہر نکلا۔ لڑکیوں کے درمیان سے گزر کر گلی میں پہنچ کر سکھ کا سانس لیا۔
تقریبا اگلے تین چار مہینوں تک گلی میں سے گزرتے ہوئے، طاہرہ، نرگس اور زہرا کی ماؤں کی ناراضگی بھری نگاہوں کا سامنا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments