علیل جبری نظریہ، حرافہ اور میری مرضی


اور ریاست پاکستان میں طالبانی شدت پسندی کا نیا جدید اور ”قابل فخر“ ورژن دستیاب ہے جس کا نام ہے علیل جبری نظریہ۔ جی ہاں یہ اسی سوچ اور نظریے کا تسلسل ہے جو عورت کو اس پدرسری سماج میں محض ایک ملکیت، ایک جائیداد کے طور پہ دیکھتا ہے، اس کے نزدیک وہ مرد کی جاگیر، ناقص العقل، گھر میں پالے مویشی کی طرح اس کے کھونٹے کی گائے سے زیادہ نہیں۔ سو جونہی اس کے اختیار کی محض آواز کسی نعرے، کسی پلے کارڈ، کسی احتجاج کی صورت سامنے آتی ہے تو ظلم کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہوجاتا ہے، طوفان آجاتا ہے، کیا ظالم واقعی اتنا ہی خوفزدہ ہوتا ہے؟

علیل جبری میاں نے جو کہاجو گند اچھالا اور اس کے جواب میں جو گند ہمارے معاشرے کے مرد وزن اچھال رہے ہیں اس میں ہم اس علیل جبری پدرسری سماج کی مکروہ شکل باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ مگر ایک لمحے کو ٹھہر جا ئیے میں کچھ باتیں واضح کردوں کہ مجھے ماروی سرمد جیسی دوسری انتہا بھی قابل قبول نہیں کہ مادر پدر آزادی ایک مہذب سماج میں نہ مرد کو دی جاسکتی ہے، نہ عورت کو۔ سماج دونوں پہ کچھ قواعد و ضوابط لاگو کرتا ہے مگر عورت مارچ اور ”میرا جسم میری مرضی“ کا مطلب یہ لینا کہ عورت مرد سے جنگ پہ آمادہ ہے بغاوت کررہی ہے اور یہ کہ وہ طوائف بننا چاہتی ہے، بوائے فرینڈ کے ساتھ سونا چاہتی ہے۔ وہ اس علیل جبری طبقے کے سر میں موجود جو عقل رتی تولہ ماشہ میں موجود ہے اس کی اختراع ہو سکتی ہے یا پھر کچھ انتہا پرست خواتین کی جن سے پاکستانی سماج کی خواتین اکثریت کا کوئی لینا دینانہیں اور کیا کسی بھی باشعور عورت کے لیے یہ ممکن کہ وہ ہر مرد کو نفرت کی توپ کے دہانے پہ رکھ لے؟

میں اپنی زندگی کو کھوجوں تو سب سے پہلے میری زندگی پہ جو آفتاب روشن ہوا۔ شعور، عقل، دانش اور علم کی روشنی بکھیرتا وہ میرا باپ ہے، میرے محترم استاد علامہ ضیا حسین ضیا جنھوں نے انسان اور رب کے رشتے کو سمجھایا، انسان سے بلاتخصیص جنس، محبت کرنا سکھایا، مشرف عالم ذوقی صاحب ان جیسی مضبوط فیمنسٹ آواز میں نے اب تک نہیں سنی، یونس خان جنھوں نے مجھے بھلا دیا کہ میرا کوئی بڑا بھائی نہیں۔ میرے اردگرد میرے محترم و مربی دوست احباب جنھوں نے مجھے صرف میرے ہنر سے پہچانا اور عزت دی۔ کس کس کا نام لوں اور پھر میرا بیٹا میرے بچے جن کو صرف آدھا اپنا کہتے میری پوری جان نکلتی ہے تو فیمنسٹ آواز کو یہ کہنا کہ مرد و زن کی جنگ ہے ایسی سطحی سوچ پہ تف ہی بھیجی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ میرا جسم مری مرضی کو صرف ایک مخصوص نظریے سے کیوں دیکھا جارہا ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ اس سلوگن کو لے کر فورا یورپ، ایران توران کیوں یاد آجاتا ہے؟ کوئی بھی عالمگیر تحریک سو رنگ بدلتی ہے، جب وہ سرحدیں طے کرتی ہے، یہ کہاں سے شروع ہوئی کیونکر ہوئی اور بقول ہمارے علیل جبری طبقے کے لبرل آنٹیاں کیا کہتی ہیں۔ یہ نعرہ ایک عام عورت، ایک عام انسان کے لیے کتنا ضروری اور ناگزیر ہے، اس کو ثابت کرنے کے لیے راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے کثرت سے ہوتے ریپس، پیڈیاٹرک کیسز، عورت کی تعلیم جائیداد تیزاب گردی ان سب پہ بہت بات ہوچکی مگر ہنوز یہ نعرہ علیل جبری طبقے کے لیے فحاشی ہی ہے۔

مگر سوال تو یہ بھی ہے کہ اس کی تکلیف اس علیل جبری طبقے کو کیوں ہے؟ بات یہ ہے کہ کسی گزشتہ کالم میں اس احقر نے یہ عرض کی تھی کہ نعرے۔ سلوگنز۔ ہمیشہ اسی مقصد کے تحت ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ وہ چونکا دیں۔ کچھ آگ دیں، چٹکی کی طرح چبھن چھوڑ جائیں تو جناب یہی ہوا ہے، چٹکی بھری گئی ہے اَب سی سی تو ہوگی اور مقصد کامیاب ہے، اس کو خوب خوب توجہ ملی، مذاکرے، مباہلے جاری ہیں۔ جاری رہیں گے اور یہیں سے تحریک ملتی ہے شعور کو، باشعور لوگ اس کی روشنی میں اپنا راستہ خاموشی سے اپنا کر گامزن ہوجاتے ہیں اور علیل جبری طبقہ سانپ کی لکیر پیٹا کرتا ہے۔

بالکل ویسے ہی جیسے مثال کے طور پر آپ کو فیصل آباد کے گردو نواح، سرگودھا روڈ، کینال روڈ، سوساں روڈ پہ کئی خواتین جو دکھنے میں دیہاتی پس منظر کی ہیں یا کچھ سکول کالج کی بچیاں اپنی بائیک پہ پراعتماد گامزن ملیں گی، کیا چند برس پیشتر یہ ممکن و متصور تھا؟ ایسی خواتین جو رکشے، ٹیکسی میں غیر مردوں کے ہاتھوں ہراساں ہو جائیں وہ شریف اور اپنی سواری چلاتی خود مختار عورت ٹیکسی، حرافہ۔ ایک پل کو ٹھر جائیے کیا آپ جانتے ہیں یہ حرافہ کون تھی؟

یہ حرافہ لفظ حرف سے نکلا ہے۔ سو آج سے سو دو سو برس پیشتر اس علیل جبری طبقے نے پڑھنے لکھنے والی عورت کو حرفوں سے پوری اور حرافہ کہا اردو لکھنے پڑھنے والی عورت بد قماش تھی، بڑا طویل سفر طے کیا ہے ہم نے اور ابھی کرنا ہے مگر یہ بیمار سوچ آج بھی اسی طرح گلا پھاڑ کر چیخ رہی ہے، چیخنے دیجیے اور آپ منطقی طور پہ درد مندی سے سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ جسم وہ لباس ہے جو ہمارے وجود کو عطا ہوا ہے اس میں آپ کے کندھوں پہ لدا آپ کا دو کلو کا کاسہ سر، آپ کے ہاتھ، آپ کے پاؤں سب شامل ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments