مفتی منیب کا طنبورہ


ابتلا کا دور ہو، اپنوں سے دوریاں ہو، تو دل متضاد سی کیفیات کا شکار رہتا ہے۔ جہاں دیس سے آنے والی خبر دکھ دیتی ہے کہ امراء کے لئے اپنی زندگی کا معنی مختلف اور غریب کی کٹیا میں جلنے والے چراغ سے کچھ سروکار نہیں۔ غریب کی زندگی محل میں لگنے والی موری کی وہ اینٹ ہے، جو سرک بھی گئی تو دوسری لگ جائے گی۔ وہاں مفتی منیب کی نادان دوستی بہت سے سوال جنم لیتی ہے۔ اسلام کو جنم دینے والی سرزمین پہ مکہ و مدینہ کے دروازے بند ہو چکے، حرم پہ تالے پڑ چکے، پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ مفتی صاحب پہ وارد ہونے والے مضامین غیب کا ماخذ کون ہے آخر؟

 ہمیں پردیس کی اس سرزمین کے باسیوں پہ خوب رشک آتا ہے۔ کہنے کو پس ماندہ صحراؤں کے باسی، لیکن سیکھنے کی صلاحیت بلا کی ہے۔ جس دن سے اس ناگہانی آفت سے پالا پڑا ہے پوری قوم ایک ہی کشتی میں سوار ہے اور ایک ہی راگ الاپ رہی ہے۔

 شہر کے شہر بند اور ویران، دروازوں پہ تالے پڑ چکے۔ مسجد، منبر، چرچ، گردوارہ، مے خانہ، چائے خانہ، شاپنگ مالز، سکول، کالج، بیشتر دفاتر، سمندر کا کنارہ غرض ہر طرف ہو کا عالم ہے۔ صرف ہسپتال، اہم دفاتر، فارمیسی اور اشیائے خور و نوش کی دکانیں کھلی ہیں۔

ان لوگوں کے لئے جو مارکیٹ تک بھی نہیں جانا چاہتے، بےشمار ویب سائٹس وجود میں آ چکی ہیں۔ تازہ سبزی، پھل، گوشت، انڈے، دودھ، دوا، غرض کچھ بھی منگوا لیجیے، خواہش در تک آن پہنچے گی۔

ہر ادارہ ایک وقت میں اپنے تیس فیصد کارکنوں کو دفتر بلا رہا ہے۔ باقی گھر بیٹھ کے اپنی باری کے انتظارمیں ہیں۔ یہ اصول ادارہ صحت پہ لاگو نہیں ہوتا کہ ہم محاذ جنگ کے سپاہی ہیں۔

ہسپتال میں ہر دروازے پہ سکریننگ کرنے کا عملہ کھڑا ہے جو بخار اور کھانسی کی بابت پوچھ رہا ہے۔ مریضوں کی انتظارگاہ میں نشستوں کے درمیان فاصلہ قائم کر دیا گیا ہے۔ ہر جگہ ہاتھ پونچھنے کا محلول پڑا ہے۔ کیفے ٹیریا سے کرسیاں ہٹا دی گئی ہیں۔ کسی بھی کمرے میں جمگھٹا لگانے سے منع کر دیا گیا ہے۔ مریضوں کے ان گنت ملاقاتیوں کو روک دیا گیا ہے۔ سفید یونیفارم کو روز دھونے کی ہدایت کی گئی ہے۔

اور اس سب میں جو بات ہمیں اچنبھے میں مبتلا کرتی ہے وہ یہ کہ ہر فرد چاہے وہ شہری ہے یا دیہاتی، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے یا نہیں، امیر ہے یا غریب، صورت حال کی نزاکت کو پوری طرح بھانپ کے اپنا حصہ ذمہ داری سے نبھانا چاہ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پہ سپورٹ گروپس اپنے اپنے علاقے کو تازہ ترین اطلاعات اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن چکی ہے۔

کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ یہ وسائل کی کہانی ہے لیکن ہم سے پوچھیے تو یہ اسباب سے زیادہ سوچ کی جدیدیت اور طرز عمل ہے جو ہمیں حیران کرتا ہے۔ یہ لوگ طرز کہن پہ اڑنے کو مسترد کر کے آئین نو کو بھانپ چکے ہیں۔

حب ایمانی سے سرشار یہ لوگ بھی ہیں اور ہم بھی۔ اسلام کے شعائر سے محبت انہیں بھی ہے اور ہمیں بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں مفتی منیب جیسی کج فہم سوچ کو اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ ریاست کے کام میں دخل انداز ہو۔ یہاں کے باسیوں کو یہ دنیا جنت ارضی محسوس ہوتی ہے، اس پہ بسنے والے افراد کی سلامتی عزیز ہے اور اسے ہر افتاد سے محفوظ رکھنے کی خواہش ہے۔

جبکہ ہمارے ہاں مفتی منیب اور ساتھیوں کا کارنامہ یہ ہے کہ ایک ایسی طبقہ فکر کو جنم دیا ہے جو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا، ہر ذمہ داری سے بیگانہ، لکیر کے فقیر اور باتیں بنانے میں شیر ہے جسے ثواب کی پوٹلی بھاری کرنے اور اوپر والی جنت کا اشتیاق آج کی دنیا کی طرف دھیان کرنے ہی نہیں دیتا۔

مفتی منیب صاحب سے کہنا صرف یہ ہے کہ آپ اپنی ذات کے ذمہ دار ہیں سو جو چاہیے، کیجیے مگر خدارا اپنے اقوال زریں سے ان کو اپنے ساتھ مت ڈبوئیے جن کے دلوں میں ابھی زندگی جینے کی شمع فروزاں ہے۔

یہ بھی پڑھیے 

مساجد میں با جماعت نماز جاری رہے گی: مفتی منیب اور دیگر مذہبی پیشواؤں کا اعلان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments