اللہ وارث


اُس محترمہ اور میری پہلی ملاقات شہر کے مشہور ہوٹل کے ایک کمرے میں ہوئی تھی۔

میں ان دنوں بالکل بے کار تھا۔ میرے پاس کرنے کو کوئی کام نہ تھا۔ پھر ایک عجیب کام میرے ہاتھ لگ گیا۔ وارث جو ایک بڑے ہوٹل میں مینیجر کے بعد وہاں خاص آدمی تھا، نے مجھے پہلی مرتبہ اس کام کے بارے میں بتایا۔ پہلے تو سن کر عجیب لگا تھا کیوں کہ ہمارے ذہنوں میں اس کام کا تصور صرف ایک ہی تھا اور وہ یہ کہ عورتیں ہی مردوں کے آگے خود کو پیش کرتی اور ان کی ضرورت پوری کرکے معاوضہ وصول کرتی ہیں۔

گزرتے وقت کے ساتھ یہ تفریق ختم ہو چکی میرے دوست۔ وہ مجھے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا۔

وارث! بڑا عجیب ہے یار یہ، سوچ کر ہی بدن میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا ہے۔ میں نے مصنوعی جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔

وارث اور میں ایک ہی فلیٹ میں رہتے تھے۔ یہ فلیٹ کرایے کا تھا۔ میں ایک سرکاری محکمے میں کانٹریکٹ پر ملازم تھا۔ جب کانٹریکٹ ختم ہوا اور مدت بڑھائی نہ گئی تو میں فارغ ہوگیا۔ ایسے میں وارث نے میرا ہاتھ تھاما اور کہا ”اللہ وارث۔ “

دیکھو تم اگر کسی خاتون کو ذاتی طور پر پسند آ جاتے ہو تو سمجھو تمھارے دن پھر گئے۔ یہ روپے والی میمیں۔ ان کے اپنے مسائل ہوتے ہیں جو تمھارے میرے سمجھنے کے نہیں۔ پھر بھی تمھیں جتنا بتا سکتا ہوں بتا دیتا ہوں، باقی اللہ وارث۔

کچھ توقف کے بعد وہ پھر بولا:

دیکھ بھائی! ان سب کے شوہروں کے پاس گھریلو معاملات کے لیے بالکل وقت نہیں۔ بچے ان کے باہر ممالک میں تعلیم حاصل کرنے یا گھر بسا کر منتقل ہو چکے ہیں۔ ان کے شوہر چوں کہ ان سے اکتا چکے ہیں اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لائق نہیں رہے سو اُنھیں ان کی سرگرمیوں پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔

میں چونک پڑا۔

مطلب یہ سب ان کے علم میں ہوتا ہے؟ نہیں مانتا۔

بس یہی سمجھ لو۔ بہرحال یہ ایک دوسرے کے معاملات اور سرگرمیوں میں دخل نہیں کرتے۔ بلکہ دخل اندازی کرنے کو ایٹی کیٹس کے خلاف سمجھتے ہیں۔ بہرحال یہ تمھارا اور ہمارا مسئلہ نہیں۔ تم خود روپے کماو، کچھ فی صد ہوٹل کے حساب میں کٹوتی ہوگی کہ بہرحال وہ ہوٹل کے کسٹمر ہیں۔ ہاں زیادہ کمانا ہے تو گھماؤ جادو کی چھڑی اور ہو جاؤ ڈائریکٹ۔ باقی اللہ وارث۔

وارث عمر میں مجھ سے چھوٹا تھا۔ پتلا سامگر بڑا ہی پھرتیلا۔ باتیں بھی بہت تیز رفتار کے ساتھ کیا کرتا۔ نمازی تھا، کھانے پینے کا خاص شوق نہ رکھتا تھا مگر روپے اکٹھے کرنے کا شوقین اور ماہر تھا۔ میں نے کبھی غور نہ کیا کہ ایک ہوٹل کی نوکری سے وہ اتنا کیسے کما لیتا ہے۔ شاید ٹِپ مل جاتی ہوگی۔

تم کیوں نہیں کرتے یہ؟ اچانک میں نے اس سے پوچھ لیا

مجھے چھوڑ تُو۔ میری لائین اور ہے، تو بس مزے کر اور روپے کما، باقی اللہ وارث۔

”اللہ وارث“ کا نعرہ لگاتے ہوئے وہ بات گول کر گیا تھا۔ اس موضوع پر پہلے بھی ہماری ایک یا شاید دو مرتبہ بات ہو چکی تھی لیکن میں نے کبھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ روپے بنانے کے لیے وہ کسٹمرز کو ذاتی طور پر شراب کی سپلائی دے آتا ہوگا اور جو کام مجھے سونپ رہا ہے اسے گناہ جان کر دانستہ ترک کرتا ہوگا۔

میری زندگی میں یہ بالکل عجیب اور پہلا تجربہ تھا۔ میں ہوٹل کے ایک بند کمرے میں ایک نہایت معقول اور پوری عمر کی خاتون کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ وہاں میز کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھی ناک پر نظر کا چشمہ جمائے کوئی انگلش کتاب پڑھ رہی تھی۔ نظر والے چشمے کے اوپر سے دیدے گھما کر اس نے مجھے بیٹھنے کا کہا پھر پلکوں میں دیدے واپس گھما لیے اور کتاب پڑھنے لگی۔ کوئی دس منٹ کا عرصہ ہوا ہوگا کہ اس نے کتاب بند کرکے میز پر رکھی اور چشمہ اتار کر مجھے تاڑنے لگی۔ اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ اس کی آنکھیں بھی کوئی تاثر نہیں دیتی تھیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی مرد ہوتا یا کہ میں خود ہی ہوتا تو ضرور میری آنکھوں سے ٹھرک پن چھلک کر باہر آ جاتا۔

چند منٹ یوں گزر گئے۔

کیا وہ خود کو گرم کرنے میں یہ وقت لے رہی تھی؟

نہیں،

میں نے دماغ سے فوراً اس بچگانہ خیال کو جھٹک دیا۔

شاید وہ اس چہرے سے شناسائی کر رہی تھی جس کے ساتھ اسے اگلا کچھ سمعے گزارنا تھا؟

یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ میرے جسم کے خدوخال سے ستر پوش اعضا کے حجم کا اندازہ لگا رہی ہو۔

کئی فضول سوال اور واہیات خیال ذہن کے پردے پر آ کر گزر گئے بالکل ایسے جیسے نیوز چینل پر ٹی وی سکرین کے پیندے میں سرخ رنگ کی پٹی چل رہی ہوتی ہے۔ ان چند منٹوں میں میرا حلق یہ ناز و انداز دیکھ کر خشک ہو چکا تھا۔ وہ اٹھی اور فریج میں سے جوس کا ایک گلاس بھر کر مجھے تھما دیا۔ میں غٹاغٹ پی گیا۔ اس دوران وہ اپنی ٹانگوں اور کلائیوں پر لوشن لگاتی رہی۔ اس نے بڑے خوب صورت اور قیمتی کپڑے کی پنیر کے رنگ والی نائیٹی پہن رکھی تھی جس پر گلابی اور گہرے نیلے رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھول بنے ہوئے تھے۔

اس قدر مضبوط شخصیت والی خاتون کو اپنے سامنے پا کر میں اپنے بارے میں، یا یہ کہنا بہتر ہوگا کہ اپنی مردانگی کے بارے میں مشکوک ہو رہا تھا۔ مجھے خیال گزرا کہ خاتون کی شخصیت کے دباؤ کے اثر سے شاید میں اس عمل میں چاروں خانے چت ہو جاوں گا جس کے لیے میں وہاں موجود تھا اور ردعمل کے طور پر یہ مجھے انگریزی میں صلواتیں سنا کر یہاں سے چلتا کرے گی یعنی کِک آوٹ اور ہوٹل والوں کو سختی کے ساتھ شکایت بھی۔

خیر۔ وارث کے دوست کی عزت رکھی خدا نے۔ موقع پر دھوکا نہ ہوا اور خاتون مجھ سے بے حد خوش ہوئی۔ نہ صرف خوش ہوئی بلکہ اس نے اپنا ذاتی نمبر بھی مجھے دیا اور میرا نمبر اپنے موبائل میں لکھ لیا۔

یہ ہوٹل کے نظام کے خلاف ہے مگر ہر مرتبہ ہوٹل آنے کا موڈ بھی نہیں ہوتا سو ہم تمھارا نمبر استعمال کریں گے پیارے لڑکے۔ اس نے سنجیدگی سے کہا اور میں نے زیر لب تبسم لاتے ہوئے سر کو ہلکی سی جنبش دی جس کا مطلب تھا کہ مجھے اس کی دعوت قبول ہے۔

شام کو وارث اور میں فلیٹ پر اکٹھے ہوئے :

وارث! ایسا مزہ کہ یار لگتا نہیں تھا کہ سامنے کوئی ادھیڑ عمر خاتون ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر روشنی نہ ہو اور چہرہ نہ دیکھا ہو تو سمجھو سولہ اٹھارہ برس کی لڑکی ہے مدمقابل۔

میرے پیارے جدید کاسمیٹکس سرجری سے چھیاسی سے ڈائریکٹ سولہ سال پر آو تو پرواہ نہیں۔ یوں ہوتا ہے اب۔

کمال ہے یار۔ یقین نہیں آتا۔

بس اب لگے رہو اور کماؤ۔ ہوٹل کو یاد رکھو نہ رکھو اپنے اس وارث کو مت بھولنا۔ باقی اللہ وارث۔

اس کے بعد دو مزید خواتین سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انھوں نے وہیں روپے دیے اور نمبر کے لین دین کی ضرورت محسوس نہ کی۔ مجھے یہ خاص معلوم نہ ہوئیں۔

اس پہلی خاتون کی بات کچھ اور تھی۔ کاسمیٹکس سرجری سے روزن تولید کا دہن تو تنگ کیا جاسکتا ہے مگر اس میں وہ حدت مصنوعی نہیں بھری جاسکتی جو عورت کے اپنے اندر قدرتی طور پائی جاتی ہے۔ اس خاتون میں وہ حدت تھی۔ یا شاید، جوڑا جو ہر دو کا بن نہیں پاتا اور اس کا اور میرا میچ ہو چکا تھا، جسے وہ پہچان چکی تھی اور اسی وجہ سے اس نے نمبر بھی رکھ لیا تھا۔ مجھے اس کی کال کا انتظار رہنے لگا تھا اور میں سوچتا تھا کہ اب کے ایسی تیاری سے جاوں گا کہ اسے پہلے سے زیادہ مطمئن کروں گا۔

00

وہ گرمیوں کی سہ پہر تھی۔ دوپہر میں اس کی فون کال آئی تھی کہ میں اسے وزٹ کروں۔ جب میں اس کے بنگلے پر پہنچا تو گھنٹی بجانے پر ایک برقی آواز آئی جو میرا نام پوچھ رہی تھی۔ نام بتانے پر گیٹ خود کار انداز میں کھل گیا اور برقی آواز مجھے میزبان تک پہچانے میں میری رہنمائی کرنے لگی۔ اب میں میزبان کے روبہ رو تھا۔ وہ یوگا کر رہی تھی۔ سرمئی رنگ کے بال خوب کھینچ کر سر کی چوٹی پر خاص انداز سے یوں باندھے گئے تھے جیسے پہاڑ کی چوٹی سے پانی کا چشمہ بہہ نکلا ہو۔

اس نے اپنے دونوں بازو ہوا میں آسمان کی طرف سواگت کے انداز میں سیدھے کیے تو اس کی بغلوں میں چھوٹے چھوٹے بال دکھائی دیے جو سیاہ تھے اور مجھے یاد ہے کہ اس روز یہ یہاں موجود نہیں تھے۔ اس کے بعد اس نے کچھ مزید آسن یوں کیے کہ مجھے اپنی مردانگی پر بھرپور یقین بیٹھ چلا۔ اس کا انگ جو مجھے پکار رہا تھا، کو خود پر یوں لیپ کیا جیسے گیلی مٹی ہاتھ لگی ہو۔ کھلا وقت تھا۔ بنگلے میں میرے، اس کے اور برقی آواز والی کے کوئی دوسرا نہ تھا۔ مجھ سے سیر ہو چکنے کے بعد وہ سو جاتی اور جب کچھ دیر بعد آنکھ کھلتی تو پھر مجھ سے لپٹ جاتی۔

گزشتہ سے پیوستہ کا یہ عمل جاری رہا یہاں تک کہ صبح کی نیلی روشنی رات کی سیاہی پر حاوی ہونے لگی۔ سونے سے پہلے تک وہ خوب چست تھی جیسے اس نے ہار نہ مانی ہو۔ مجھے سخت بھوک لگی تھی۔ دوپہر سے کچھ نہ کھایا تھا۔ اب کہ وہ گہری نیند یوں سوئی تھی جیسے دوبارہ نہ اٹھے گی۔ میں پیٹ پوجنے کی غرض سے بنگلے میں یہاں وہاں گھومنے لگا۔ ڈر تھا کہ برقی آواز والی نہ ٹپک پڑے لیکن شاید وہ بھی سو چکی تھی۔ میں کچن دریافت کر چکا تھا اور فریج میں سے پڈنگ کا باؤل نکال کر چٹ کر رہا تھا جب میری سماعتوں سے مسکراہٹوں کی سرگوشیاں ٹکرائیں۔

یہ چھوٹے چھوٹے مردانہ قہقہے تھے جو میری جانب یعنی کچن کی جانب بڑھ رہے تھے۔ میں ڈر کر ایک کیبنٹ کے پیچھے چھپ گیا۔ پڈنگ کا باؤل میرے ہاتھ ہی میں تھا۔ اسے رکھا یوں نہیں کہ آواز پیدا ہو جائے گی۔ ایک قوی الجثہ مرد جو بالکل ننگا تھا، نے فریج کھولا۔ اس کے ساتھ ایک لڑکا تھا۔ کم روشنی میں چہرے واضح نہ تھے لیکن میں اتنا سمجھ چکا تھا کہ یہ قوی الجثہ اس خاتون کا شوہر ہے۔

پریشانی کی بات یہ تھی کہ میں جس گھر میں موجود تھا اس میں میرے اور اس خاتون کے سوا بھی لوگ موجود تھے جس سے میں مکمل بے خبر تھا۔ میں نے سوچا شاید میم کو بھی نہ معلوم ہو اور یہ صاحب ابھی آئے ہوں۔

لیکن یہ ننگے کیوں گھوم رہے تھے؟ اور ساتھ جو لڑکا تھا کم زور سا، وہ کمر سے باکسر لٹکائے ہوئے تھا۔

میں نے کیبنٹ سے ماتھا اونچا کر کے انھیں دوبارہ دیکھنے کی کوشش کی تو وہ دونوں بھی بھوک مٹانے کے لیے فریج سے کچھ نکال رہے تھے۔ کم زور لڑکا جب فریج میں جھانکنے کو جھک رہا تھا تو قوی الجثہ مرد نے اس کے چوتڑ پر زور دار چماٹ رسید کر دی تھی جس کے بعد وہ لڑکا سہلاتے ہوئے سی سی کی آواز نکالنے اور قوی الجثہ ہنسنے لگ گیا تھا۔

سر! میری طرح کوئی دوسرا آپ کی چماٹ سہ نہیں سکتا یہ میرا ایمان ہے اور ساتھ اس یقین میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ میرا ملک ان مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ باقی اللہ وارث!

کچن سے نکلتے ہوئے وہ لڑکا اور قوی الجثہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments