قاتل جراثیم کے خلاف تاریخ کی مہلک ترین جنگ


ڈاکٹر مائیکل ٹی۔ اوسٹر ہولم کی کتاب ”مہلک ترین دشمن: قاتل جراثیم کے خلاف ہماری جنگ“ اور جَون ایم بیری کی کتاب ”عظیم انفلوئنزا: تاریخ کے مہلک ترین بین الاقوامی وبائی مرض کی کہانی“ کا ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مال آف امریکہ پر جراثیمی حملہ ہو سکتا ہے اور کیا متعدی امرض یک دم پوری دنیا میں وبا کی صورت پھیل سکتی ہیں؟ تو اس کا جواب ہے، جی ہاں، یہ حملہ ہو سکتا ہے اور یہ کہ متعدی امراض کسی بھی وقت پوری دنیا میں وبا کی صورت پھیل سکتی ہیں اور یہ کہنا ہے ڈاکٹر مائیکل ٹی۔ اُوسٹر ہولم کا اپنی کتاب ”مہلک ترین دشمن: قاتل جراثیموں کے خلاف ہماری جنگ“ میں۔ یہ کتاب پہلی دفعہ 2017 ء میں شائع ہوئی، اب مارچ میں اس کا نیا ایڈیشن شائع ہونا تھا، لیکن بوجہ اسے 12 مئی تک موخر کر دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر اوسٹر ہولم نے وارننگ دیتے ہوئے یہ کہا تھا ”ہمیں انتہائی مہلک اور پوشیدہ دشمنوں کی ایک ناقبل بیان فوج کا سامنا ہے، ایک جراثیمی فوج، ایک ایسا دشمن جسے ہم ننگی آنکھ سے دیکھ نہیں سکتے، جن کو دیکھنے کے لئے مخصوص خوردبینیں درکار ہیں۔ ہمیں اس پوشیدہ دشمن کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، ان سے نپٹنے کے لئے ہمارے پاس ایک قابل عمل قومی منصوبہ ہونا چاہیے، قدرتی آفات کے برعکس، جن کی تباہی کے اثرات محدود مدت تک کے لئے کسی مخصوص علاقے میں موجود رہتے ہیں۔ وہاں چند دن بعد حالات اپنی مخصوص ڈگر میں واپس آ جاتے ہیں۔ لیکن ایسی بیماریاں جو متعدی نہیں ہیں، اِن کے اثرات تباہ کن تو ہوتے ہیں لیکن ان کے اثرات بیمار افراد اور ان کے اہل خانہ تک ہی محدود رہتے ہیں۔ ان کے برعکس، کسی بھی متعدی بیماری میں عالمی سطح پر روزمرہ کی زندگی کو درہم برہم کرنے کی خوفناک طاقت موجود ہوتی ہے۔ بہت زیادہ سرکاری اور نجی وسائل نے تجارت اور نقل و حمل کو انسان کو کچلے جانے والی ایسی جگہ پر لاکھڑا کیا ہے، جہاں متعدی امراض کو پھیلنے سے روکنا نا ممکن ہو گیا ہے۔

اس انفراسٹرکچر نے ایک طرف، اگر آج کی اس دنیا میں، اس کرے کے اردگرد، انسانوں، جانوروں اور مواد کو منتقل کرنا پہلے سے کہیں زیادہ آسان بنا دیا ہے، تو ساتھ ہی دوسری طرف، اِسی پیش قدمی نے جدید انفراسٹرکچر کو اتنا موثر بنا دیا ہے کہ اب اس نے علاقائی وبائی امراض کو بھی بین الاقوامی وبائی امراض میں تبدیلی کو قریب قریب ناگزیر بنا دیا ہے۔ جیسا کہ ( Covid۔ 19 ) کورونا، ایبولا، MERS، یرقان یا زَرد بخار اور زیکا کی وبا پوٹھنے کا عملی مظاہرہ پہلے ہی ہوچکا ہے، یہاں ان کو پھیلنے میں قطعاً دیر نہیں لگی۔

اَب ہم تکلیف دَہ حد تک یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ان کے نتائج سے نمٹنے کے لئے طرح تیار نہیں تھے، یہ ہماری کوتاہی ہے۔ اب بھی ہمارے پاس وقت ہے، ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم خود کو بنی نوع انسان کے مہلک ترین دشمنوں، ان متعدی امراض سے، بچانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں اور ہمیں ان کے فوری تدارک کے لئے کیا کرنا چاہیے۔ ماہرین ظاہر کررہے ہیں کہ ان حقائق کی موجودگی میں ہم کیسے سوئے رہ سکتے ہیں، جس میں بہت سارے اینٹی بائیوٹکس اب علاج نہیں کرتے، جب کہ حیاتیاتی دہشت گردی ایک یقینی بات ہے اور تباہ کن وبائی امرض کا خطرہ بری طرح سے ہمارے اُفق پر منڈلا رہا ہے۔ اِن چیلنجوں کو جو ہمیں درپیش ہیں کی سمجھ بوجھ حاصل کر کے ہی ہم ان چیزوں، جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے، اُن کو ناگزیر ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے ہم مہلک انفلوئنزا کی ایک عظیم عالمگیر وبا بھگت چکے ہیں۔ ”

جہاں تک مہلک انفلوئنزا کا تعلق ہے، تو یہ 1918ء کا واقعہ ہے، جب پہلی جنگ عظیم کے عروج پر، امریکی ریاست کینساس کے ایک آرمی کیمپ میں تاریخ کا سب سے مہلک انفلوئنزا وائرس پھیلا اور اس کے ساتھ ہی وہ امریکی فوجیوں کی مشرق میں منتقلی کے ساتھ ہی مشرق میں منتقل ہوگیا۔ جہاں وہ ایک وبا کی صورت پھٹ پڑا اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں 50 کروڑ افراد متاثر ہوئے، ایک ناقابل یقین تعداد، اس وقت کی دنیا کا ایک چوتھائی حصہ۔

اس وبا میں کم و بیش پانچ کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔ چوبیس سال میں ایڈز سے مرنے والوں کے مقابلے میں، چوبیس ماہ میں انفلوئنزا کی اس وبا سے مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ اس کے مقابلے میں ایک صدی میں ہونے والی بلیک ڈیتھ یا طاعون سے مرنے والوں کی تعداد ایک سال میں انفلوئنزا سے مرنے والوں سے کہیں کم تھی۔ لیکن یہ قرون وسطی نہیں تھا اور 1918ء وہ نشان ہے جب سائنس اور وبائی بیماری کا پہلا تصادم ہوا۔

جَون ایم بیری کی کتاب ”عظیم انفلوئنزا: تاریخ کی مہلک ترین بین الاقوامی وبائی مرض کی کہانی“ ایک ایسی کتاب ہے جو نقطہ نظر کی وسعت اور تحقیق کی گہرائی لئے ہوئے ہے، انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ”گریٹ انفلوئنزا ہمیں آج ہمارے اُفق پر منڈلاتی اس وبا کا سامنا کرنے کے لیے ایک بہت واضح اور ہوش مندی سے تیار ماڈل مہیا کرتا ہے۔ 1918 ء کی اس عالمگیر وبا کا حتمی سبق، ایک آسان ترین حل، جس پر عملدرآمد کرنا سب سے مشکل ہے، وہ یہ ہے۔ وہ جن کے پاس اختیار ہے ان پر عوام کا اعتماد برقرار رہنا چاہیے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کیا جائے، کسی ایسی چیز کہ جس کا کوئی وجود نہیں ہے اس کا بہترین چہرہ پیش کیا جائے، کسی بھی طرح کی ہیرا پھیری کی کوشش نہ کی جائے۔ “

بین الاقوامی وبائی امراض سے بچنے کا ایک ہی موثر ترین ہتھیار ہے اور وہ ہے ”سچ“ جو حکومتوں نے بولنا ہے۔ عوام کا حکومتوں پر اعتماد اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب وہ سچ کو چھپانے کی بجائے عیاں کرنے اور کھل کر بتانے میں یقین رکھتی ہوں۔ پہلا جھوٹ جو سب حکومتوں نے بولا وہ تھا ہلاک ہونے والوں کی تعداد۔ حکومتوں کے نزدیک سچ نہ بتانے کا جواز یہ تھا کہ اس طرح عوام کا مورال ڈاون ہوگا اس لئے اصل تعداد کو چھپایا گیا۔ غذائیت کی کمی، ضرورت سے زیادہ بھرے ہوئے میڈیکل کیمپ اور ہسپتال، ناکافی احتیاتی تدابیر یہ ایسی وجہیں تھیں جنہوں نے وائرل انفیکشن کو بیکٹیریل سپر انفیکشن میں تبدیل کر دیا جو زیادہ تر اموات کی وجہ بنیں، یہ وبا دو سال تک جاری رہی۔

اوسٹرہولم تجزیہ کرتے ہوئے اپنی کتاب میں کہتے ہیں ”سب سے پہلے یہ اہم بات سمجھنا ضروری ہے کہ اس وقت ہم اپنی تاریخ کے کسی بھی دوسرے دور کی نسبت کہیں زیادہ متعدی بیماریوں کے حملے کی زَد میں ہیں۔ “ اگرچہ، یہ ہماری سائنسی پیشرفت کے پیش نظر، بدیہی انداز کے برخلاف، حقیقت سے متصادم لگتا ہے لیکن کرہ ارض پر موجود افراد کی مطلق تعداد کے بارے میں سوچیں : تقریباً 7.8 بلین یعنی سات اَرب اَسی کروڑ نفوس تو یقینا یہ بات سمجھ آتی ہے۔

”یہ صرف تعداد نہیں ہے جو اہم ہے بلکہ یہ بہت سارے ذی روح ہیں جو ترقی پذیر دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں رہتے ہیں، اِن شہروں میں نہ صرف متعدی بیماریوں کے مسائل کے شروع ہونے کا امکان موجود ہے بلکہ وہاں متعدی بیماریوں کے مسائل کو پھیلانے کی صلاحیت بھی بہت حقیقی ہے۔ “ اس کے بعد، جہاز رانی اور سفر کے معاملے میں ہم نے جو پیش رفت حاصل کی ہے اس کے بارے میں سوچیں، اس کے ساتھ ہی ہم نے جراثیم کے لیے بھی سپر ہائی ویز بنا دی ہیں۔

”ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں، جہاں اَب بروقت ترسیل اور تقسیم کا سسٹم موجود ہے، وہیں ہم نے سمندروں، پہاڑی سلسلوں، سیاسی حدود اور متعدی بیماریوں کو دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جانے سے روکنے کے کسی بھی طریقے کو ختم کر دیا ہے۔ “ جب کہ عالمی سطح پر ہمارے پاس کسی بھی متعدی بیماری کے وبا میں تبدیل ہو جانے کے واقعے کے سدِباب کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔

”آج، اگر ہم دنیا بھر کی بہت ساری حکومتوں کی نازک حالت کا جائزہ لیں تو یہ واضح نہیں ہے کہ انچارج کون ہے اور عوامی صحت کے مسئلے کا جواب دینے کے لئے کس طرح کا انفراسٹرکچر دستیاب ہے۔ لہذا جب آپ ان سب عوامل کو اکٹھا کرتے ہیں تو سب سے اوپر جو وجہ نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ دنیا بھر میں صحت عامہ کے کاموں کو انجام دینے کے لئے بہت ساری حکومتوں کی مالی اعانت کی کمی کو دیکھتے ہیں، تو واقعی ہمارے پاس کچھ بڑے چیلنجز موجود ہیں۔“

اس کتاب میں، آسٹر ہولم نے بائیوٹریر یا حیاتیاتی دہشت گردی کے معاملے اور جان بوجھ کر متعدی مرض کو پھیلانے کی آزادی دینے کے تباہ کن امکانات پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ ایک منظر نامے کا تصور کرتے ہیں جس میں مال آف امریکہ پر اینتھراکس کا حملہ ہو جاتا ہے۔ اس کے اثرات کیا ہوں گے یہ جاننے کے لئے ذیل میں مذکورہ باب کا ایک اقتباس پیش کیا جا رہا ہے :۔

آسٹرہولم کا کہنا ہے ”بائیس سال پہلے بائیو ٹیررزم کے سب سے زیادہ تشویش کے حامل پانچ اے کلاس ایجنٹ تھے، اینتھراکس، چیچک، طاعون، ٹولاریما اور ہیمرج بخار کا وائرس ایبولا۔ آج، میں بنیادی طور پر اینتھراکس، چیچک، اور کسی بھی دوسرے جرثومہ کے بارے میں فکر مند ہوں، جسے ہم اپنے نئے ہائپر سلیب ٹولز کے ذریعہ لوگوں یا جانوروں میں آسانی سے منتقل کرنے اور موجودہ علاج یا ویکسین کے خلاف مزاحم بنانے کے لیے انہیں تبدیل کر سکتے ہیں۔

خاص طور پر، انتھراکس جو ایک خطرناک بیکٹیرئیل انفیکشن ہے کو ایک موثر حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ بیکٹریا ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل نہیں ہوتا، لیکن جب یہ خشک ہوجاتا ہے تو یہ اپنے آپ کو چھوٹے، عملی طور پر وزن سے پاک spores یا نَباتیاتی تولیدی خُلیے کے طور پر اپنے آپ کو محفوظ کرلیتا ہے جو دہائیوں یا اس سے بھی زیادہ لمبے عرصے تک سخت جانی سے معقول تعداد میں زندہ رہ سکتا ہے۔

ماہرین آثار قدیمہ کو مصری مقابر میں بھی ان کی موجودگی کے شواہد مل چکے ہیں۔ جب یہ نباتیاتی تولیدی خُلیے سانس لینے سے پھیپھڑوں اور پھر معدے اور آنتوں کے مرطوب اور آرام دہ ماحول میں پہنچتے ہیں تو وہ وہاں جا کر نمو پانا شروع کردیتے ہیں اور یہ اپنی فعال شکل میں پلٹ کر تین مہلک پروٹین ٹاکسن یا جراثیمی زہر پیدا کر دیتے ہیں۔ جب پھیپھڑوں میں انتھراکس چلا جاتا ہے تو وہاں یہ انفیکشن پیدا کر دیتا ہے جس سے نمونیا ہوجاتا ہے، جب کہ نمونیا کے شکار ایسے مریض جن کا علاج نہیں ہو پاتا، ان میں سے 45 سے 85 فیصد کے درمیان تک لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ خشک شکل میں، انتھراکس کو کسی بھی سفید پاؤڈر میں چھپایا جاسکتا ہے اور یہ ہوائی اڈے کے سیکیورٹی کارکنوں یا کسی اور کے شک و شبہے کو اکساتا بھی نہیں ہے۔ ”

1993 میں، کانگریس کے ٹیکنالوجی اسیسمنٹ کے محکمے نے ”بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ: خطرے کا اندازہ“ کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی جس میں واشنگٹن۔ ڈی سی پر کیمیائی، حیاتیاتی، اور جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ اثرات کا موازنہ کرتے ہوئے، یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایک چھوٹے ہوائی جہاز سے صرف 100 کلو گرام اینتھراکس کے نباتیاتی تولیدی خلیے بکھیرنے سے، ایک سکڈز کلاس میزائل جو ہائیڈروجن بم لے جا رہا ہو کے مقابلے میں کہیں زیادہ افراد ہلاک ہو جائیں گے۔ انتھراکس کا یہ پھیلاؤ دس سے تیس لاکھ لوگوں کو ہلاک کر سکتا ہے۔

آسٹرہولم کا کہنا ہے ”مارک اور میرا دونوں کا ایک مشترکہ دوست، مرحوم ولیم بل پیٹرک ایک ماہر سائنسدان تھا۔ وہ فورٹ ڈیٹرک میں امریکی بائیو ویپنز پروگرام کی سربراہی کرتا تھا۔ بل کی یہ عادت تھی کہ وہ 7.5 گرام بے ضرر بیکٹیرئل کلچر جو ایک خوردبین کے نیچے اینتھراکس کی طرح دکھائی دیتا ہے پر مشتمل ایک شیشی اپنے ساتھ لے جاتا۔ مارچ 1999 میں، سینٹ کی مستقل سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس کے سامنے کیپیٹل ہل میں گواہی دیتے ہوئے، اُس نے اپنی یہ شیشی نکالی اور وضاحت کی کہ یہ کیا ہے اور بتایا“ میں تمام بڑے ائیرپورٹس سے گزرا ہوں اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سیکورٹی سسٹم، پینٹاگون، یہاں تک کہ سی آئی اے کسی نے بھی مجھے نہیں روکا۔ ”ویسے بھی، ساڑھے سات گرام، ایک ایسی ہی عمارت میں جو سینیٹ یا ہاؤس آفس کی عمارت کی جسامت کے برابر ہو، کے لیے اتنی ہی مقدار چاہیے جو وہاں موجود ہر ایک کو مارنے کے لئے کافی ہو گی۔ “

مزید بتاتے ہوئے آسٹرہولم کا کہنا تھا کہ ”بائیو ٹریر پروگرام کے ایک واقعے کے ساتھ، دن کا اختتام محض آغاز ہوگا اور کسی کو بھی اس وقت تک اس کا پتہ تک نہیں ہوگا۔ ممکنہ طور پر ہم اسے ایک ہفتہ تک پہچان نہیں سکتے، اس وقت تک ابتدائی متاثرین اپنے مہلک انفیکشن کو ریاستہائے متحدہ کے تمام حصوں اور پوری دنیا میں پہنچا چکے ہوں گے، حتی کہ ایسے بائیولوجیکل ایجنٹ جو ایک انسان سے دوسرے انسان تک منتقل نہیں ہوتے، اس حوالے سے بھی یہ ایک مشکل چیلنج ہے۔

مینیسوٹا کے شہر بلومنگٹن میں واقع مال آف امریکہ، جہاں میں رہتا ہوں وہاں سے زیادہ دور نہیں ہے، ریاستہائے متحدہ امریکہ کا سب سے بڑا شاپنگ سینٹر ہے، یہاں ایک دن میں اوسطا ًدنیا بھر سے ایک لاکھ سے زیادہ وزیٹر آتے ہیں۔ اگر اینتھراکس کو پورے وسیع مال میں مؤثر طریقے سے پھیلا دیا جائے تو، بڑی آسانی سے یہاں ہزاروں لوگ متاثر ہوں گے، جب کہ ہزاروں لوگ آسانی سے ہلاک ہو جائیں گے کیونکہ صحت کی دیکھ بھال کا مقامی نظام مغلوب ہو جائے گا۔ متاثرہ افراد کو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ وہ نشانہ بن چکے ہیں جب تک کہ کئی روز گزر جانے کے بعد بخار، سردی لگنے، سینے میں درد، سانس میں رکاوٹ، تھکاوٹ، قے، اور متلی کی حالت میں لوگ مبتلا نہ ہو جائیں، ان میں سے بہت سے لوگوں میں اس کی پہچان بہت دیر سے ہو گی۔

یہ تاریخ میں کائناتی حجم کا ایسا واقعہ ہوگا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، نہ صرف ان تمام اموات اور بیماری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ناقابل تصور گھبراہٹ کی وجہ سے، بلکہ اس وجہ سے کہ اس سارے مال کی آلودگی کو صاف کرنا ایک بہت ہی بڑا اور پیچیدہ کام ہو گا۔ جب کہ آپ اسے مکمل طور پر ختم بھی نہیں کر سکتے۔ فلوریڈا میں اے۔ ایم۔ آئی کی عمارت کو اس خطرے کے پیش نظر نہیں کھولا گیا کہ یہ آس پاس کی کمیونٹی میں انتھراکس کے نباتیاتی تولیدی خلیے کو پھیلانے کا باعث نہ بن جائے، ا سے پانچ سال سے زیادہ عرصے کے لئے بند رکھا گیا۔

آخر کار، یادگار قسم کی صفائی کے بعد 2007 ء میں اسے انتھراکس فری قرار دیا گیا۔ ایسی صورت میں امریکہ کا ایک آلودہ شاپنگ سینٹر جو اے۔ ایم۔ آئی کی عمارت سے کئی گنا بڑا ہے۔ منیسوٹا کے سبزہ زار پر ایک جسیم لیکن متروک ڈھیر کی صورت بیٹھا ہوگا۔ جیسا کہ روس میں زہریلا اور ناقابل رہائش چرنوبل۔ اور یہ ہمیں ڈرا رہا ہو گا”۔

کتاب ”مہلک ترین دشمن“ عوامی صحت کی ہنگامی صورتحال کا پتہ لگاتی ہے۔ ماضی، حال اور ممکنہ مستقبل۔ جنہوں نے کرہ ارض کو خطرہ بنا دیا ہے۔ کورونا، ملیریا۔ ایڈز۔ تپ دق۔ سارس ایبولا، زیکا۔ انفلوئنزا، اور ابھی یہ فہرست نامکمل ہے۔ ایک جاندار اور ضروری کتاب جو واضح اور حقیقت پسندی کے ساتھ ابھرتی ہوئی بیماریوں کے خطرے کو دیکھتی ہے۔ جس میں ڈاکٹر اوسٹر ہولم نے لوگوں کو خوف میں مبتلا کرنے کی بجائے واضح پلان دیے ہیں، جب کہ امریکہ سمیت پوری دنیا ان پلانز پر عملدرامد کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے کورونا کی وبا آج پوری دنیا میں ایک گمبھیر صورت حال اختیار کر چکی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس طرح متعدی بیماریوں سے دفاع کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے جس طرح ہم قومی سلامتی کے دیگر خطرات کے لئے تیار رہتے ہیں۔ کیا ہم جنگ میں جانے اور پھر لڑائی کے لئے عین وقت پر طیارہ بردار جہاز یا دیگر ہتھیاروں کے نظام پر کام کرنے کا حکم دینے پر غور کریں گے؟ ابھی بھی وقت ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کیے جائیں اور ان پر عملدرامد کو یقینی بنایا جائے ورنہ کورونا وائرس کی وبا کو 1918 ء کے گریٹ انفلوئنزا جیسی وبا بننے میں دیر نہیں لگے گی اور بہت زیادہ نقصان ہو گا۔ خدا ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور حکمرانوں کو بروقت صحیح فیصلے کرنے کی توفیق دے ورنہ ہم نابود ہو جائیں گے اور ہمارا کہیں نام نہ ہو گاجب کہ ہم عوام کو بھی سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا تبھی ہم اس وبا سے بچ پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments