اقبال بانو کی یاد میں



سال 1985۔ پاکستان میں جنرل ضیا الحق کی آمریت کا زور تھا۔ نام نہاد اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریک کے لیے اقدامات کیے جارہے تھے۔ ساڑھی کو ہندوانہ لباس قرار دے کر ضیا الحق کے حواری سرکاری تقاریب اور سرکاری ٹیلی ویژن پر اسے پہننا ممنوع قرار دے چکے تھے۔ انقلابی شاعر فیض احمد فیض سے جزل ضیا کی ناپسندیدگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ بے انتہا مقبول ہونے کے باوجود فیض صاحب کی نظموں اورغزلوں کو ریڈیو اور ٹی وی پر پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

یہ ایک غیر علانیہ بندش تھی۔ فیض صاحب کی پہلی برسی کا موقع آگیا۔ تاریخ تھی 20 نومبر 1985 اور مقام تھا لاہور کا الحمرا آڈیٹوریم۔ ایسے میں ایک گلوکارہ ریشمی ساڑھی پہنے اسٹیج پر آتی ہے۔ وہی لباس پہنے جسے ہندوانہ قرار دے کر ضیا کی آمریت میں حقارت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ ’ڈریس کوڈ‘ کی شرط توڑنے کے بعد وہ دوسری گستاخی شروع کرتی ہے۔ وہ گانا شروع کرتی ہے فیض کی مشہور نظم، ’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ ۔

پورا آڈیٹوریم اس گلوکارہ کے ساتھ گانا شروع کر دیتا ہے۔ لوگوں کا جوش کم کرنے کے لیے ہال کی بتیاں بجھا دی جاتی ہیں، لیکن گانا جاری رہتا ہے۔ نہ جانے کتنی دیر تک۔ جوں ہی گلوکارہ گانا ختم کرنا چاہتی لوگ نظم کا مصرع پھر سے اٹھا لیتے۔ نظم کتنی ہی دیر تک، بار بار جوش و خروش کے ساتھ گائی جاتی ہے اور اس کے بعد بھی ہزاروں بار گائی گئی اور اس گلوکارہ کی پہچان بن گئی۔ یہ نظم جتنی فیض صاحب سے متعلق ہے اتنی ہی اس گلوکارہ سے بھی۔ اس گلوکارہ کا نام تھا اقبال بانو۔

اقبال بانو پاکستان کی نامور گلوکارہ تھیں۔ نیم کلاسیکی انگ کی غزل گائیکی میں انھیں خاص مہارت حاصل تھی۔ اس ضمن میں ان کا موازنہ بیگم اختر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

اقبال بانو کا جنم غیر منقسم ہندوستان میں، دلی شہر میں ہوا۔ بچپن سے ہی انہیں موسیقی سے لگاؤ تھا۔ اور انھوں نے چھوٹی عمر میں ہی دلی گھرانے کے استاد چاند خان کے زیر سایا موسیقی کی تعلیم شروع کردی تھی۔ استاد نے اقبال بانو کو کاسیکی موسیقی کی باریکیوں سے روشناس کرایا۔ اپنی تعلیم کے دوران انھوں نے ٹھمری، دادرے اور غزل کی گائیکی میں خوب مہارت حاصل کرلی اور کچھ ہی عرصے میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو سے گانا بھی شروع کر دیا۔

1952 میں ان کی شادی ملتان کے ایک زمیندار سے ہوگئی اور وہ ہجرت کرکے پاکستان چلی آئیں۔ پاکستان آکر انھوں نے اپنی گائیکی کا سفر دوبارہ شروع کیا اور فلموں میں بطور پس پردہ گلوکاری کا بھی آغازکردیا۔ انھوں نے کتنی ہی فلموں مین مقبول نغمے گائے جو ان کی پہچان بن گئے۔ کون ہوگا جسے فلم گمنام کا گیت ”پایل میں گیت ہیں چھم چھم کے“ اور فلم قاتل کا نغمہ ”ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں“ یاد نہ ہوگا۔

شوہر کے انتقال کے بعد اقبال بانو مستقل طور پر لاہور چلی آئیں جہاں فن کی نئی بلندیاں ان کی منتظر تھیں۔ انھیں آواز پر خاص طرح کا کنٹرول حاصل تھا اور ان کا اردو لب ولہجہ اور شین قاف غزل کی گائیکی کے لیے بے حد موزوں اور مناسب تھا۔ وہ ریڈیو پاکستان لاہور سے مسلسل غزلیں گانے لگیں اور جداگانہ طرز گائیکی کی بدولت ان کا نام جلد ہی بہترین غزل گانے والیوں میں لیا جانے لگا۔ انھوں نے اساتذہ کا کلام خاص مہارت سے گایا اور اردو کے ساتھ ساتھ فارسی غزلیات بھی گائیں۔

آغاز میں ان کی جرأت اور ہمت کا جو قصہ آپ نے پڑھا اس کی انھیں بھاری قیمت بھی چکانی پڑی۔ سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر ان کی غزلیں نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی لیکن اس سے اقبال بانو کی شہرت اور مقبولیت کو کوئی فرق نہ پڑا۔ ان کے مداح ان کی گائیکی کو اسی طرح پسند کرتے رہے۔ ان کی غز لوں کے ٹیپ بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتے تھے۔ لوگ انھیں نجی محفلوں میں گانے کے لیے مدعو کرتے تھے۔ کہاجاتا ہے کئی بار ایسی محفلوں میں سادہ کپڑوں میں سرکاری اہلکار بھی موجود ہوتے تھے، جاسوسی کے لیے نہیں بلکہ اس عظیم فنکارہ کی گائیکی سے لطف اٹھانے کے لیے۔

’ہم دیکھیں گے‘ نظم ان کی پہچان بن چکی تھی۔ شاید ہی موسیقی کی کوئی ایسی محفل ہو جس میں ان سے یہ نظم گانے کی فرمائش نہ کی گئی ہو۔ اور جب وہ گاتیں۔ ۔ ۔

جب ظلم وستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جا ئیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے۔ ۔ ۔
پوری محفل تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھتی۔ بلاشبہ یہ اقبال بانو کی گائیکی کا کرشمہ ہی کا تھا۔

اقبال بانو نے غزل کو کلاسیکی موسیقی کی پیچیدگیوں نکال کر سہل اور آسان انداز میں پیش کیا۔ وہ جتنی سہولت سے غزل گاتیں تھیں، اتنی ہی مہارت سے ٹھمری اور دادرا بھی گاتی تھیں۔ 1974 میں انھیں تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا۔ اقبال بانو جب تک گاتی رہیں انھوں نے اپنے معیار کو برقرار رکھا۔ ان کی مقبول غزلوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ 21 اپریل 2009 کو اس بے مثال گائیکہ کا 74 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اقبال بانو غزل گائیکی پرایسے نقوش چھوڑ گئی ہیں جنھیں کبھی مٹایا نہ جاسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments