ڈائمنڈز آر فار ایور



کرونا کی وبا نے ہجر کی ایسی کیفیت طاری کر رکھی تھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے چہکتے پنچھیوں کو بھی ہجر کا روگ لگ گیا ہو۔ اداسی ہر طرف چھائی تھی۔ خامشی نے جیسے دل میں گھر کر لیا ہو اور سکوت ایسا تھا کہ سائیں سائیں کرتی بلا کی خاموشی کا طوفانی شور سن کر اسک کلیجہ پھٹنے کو آتا تھا۔ لاک ڈاؤن کی صورت میں تمام تعلیمی ادارے بھی بند ہو چکے تھے۔ ہوسٹل بھی غیر معینہ مدت کے لئے بند ہوگئے۔ اس کی انجان شہر میں ہوسٹل میں بسنے والی بیٹی کو گھر آنا پڑا۔

بڑی عجیب بات ہے نہ۔ کیا ہوسٹل میں بھی کوئی بستا ہے؟ اور جہاں کوئی مہمان بن کہ آتا ہے اسے کیا گھر کہتے ہیں؟ سب اینٹ کی دیواریں ہیں۔ سنگِ مرمر کے پتھروں کو معنی رشتے پہناتے ہیں۔ مکان ہو یا گھر پیا دیس ہو یا بابل کی نگری۔ نگر نگر اینٹوں سے کھڑے کیے جانے والے محلوں اور غریب خانوں کی اوقات میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ خوش نصیب ہوتا ہوگا وہ پتھر جو کسی محل کی زینت بنتا ہوگا اور کہیں بدنصیب پتھر راہ کی رکاوٹ ہے۔

اس کی بیٹی کو گھر واپس آنا تھا۔ اسے وبا زدہ انجان شہر نے ایک نئے امتحان میں ڈال دیا۔ امتحان کینسل ہونے کی کمینی سی خوشی اس کا جی کہاں للچاتی اس کے سامنے دوراہے پر زندگی اپنا امتحان لئے تیار کھڑی تھی۔ لاک ڈاؤن کا فیصلہ اچانک ہوا تھا اور اسے سجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے اور کہاں جائے؟ وہ اپنی گہری سوچوں کے پاتال میں کھو سی گئی تھی کہ اچانک یونیورسٹی بس کے بے ہودہ ہارن نے اس کی سوچوں کے تسلسل کو توڑ ڈالا اور اسے یہ تلخ حقیقت بھی یاد دلادی کہ یہ وقت ماضی کا نوحہ پڑھنے کا نہیں۔

بلکہ جلد کوئی فیصلہ لینے کا ہے۔ گھر جس میں باپ سوتیلی ماں سوتیلی بہن رہتے تھے وہاں پتہ نہیں پرانے رشتوں کے لئے کوئی جگہ تھی بھی یا نہیں؟ کیا رشتے استعمال شدہ پرانا سامان بھی ہو سکتے ہیں جنہیں کباڑخانے میں پھینک دیا جائے؟ اور پلٹ کر ان کی خبر نہ لی جائے؟ گھر آنے سے پہلے اس نے باپ کو اطلاع دینا مناسب سمجھا کہ اپنے گھر آنا چاہت ہوں۔ کیا آ جاؤں؟ پوچھنا تو یہ بنتا تھا مگر وہ کوئی کباڑ خانے میں رکھ چھوڑے جانے والا سامان تھوڑی نہ تھی۔

آخر کو بیٹی تھی۔ ہاں ٹھیک ہے زمانے کی ریت ہے بیٹیاں پرائی ہوتی ہیں مگر اس قدر پرائی؟ دوسری طرف گھنٹی بجتی چلی جارہی تھی۔ ایسے چند لمحوں میں وہ اکثر جیون کا بہت سا سفر کاٹ لیتی تھی۔ خدا خدا کر کے کال ملی تو اس نے لمبا گہرا سانس لیا اور کچھ کہے سنے بغیر باپ سے فی الفور کہہ ڈالا ”بابا۔ میں فلاں وقت پر گھر پہنچ جاؤں گی“ ”میں vacations پر گیا ہوا ہوں گھر پہ تالا ہے“ باپ نے اتنی ہی بے اعتنائی برتتے ہوئے جواب دیا ”“ بابا آپ نے مجھے بتایا بھی نہیں کہ آپ وکیشنز پر گئے ہوئے ہیں ”دوسری جانب سے رندھی ہوئی آواز آئی“ کتنے عرصے میں آنا ہے؟

”بیٹی پھر سے استفسار کرنے لگی۔“ بیٹا چھ مہینے تو لگیں گے ”“ اب میں گھر کیسے کھولوں گی ”بیٹی کی آواز باقاعدہ کانپنے لگی۔ بیٹی کے دل میں یہ اطمینان تھا کہ گھر کا تالا توڑا جا سکتا ہے۔ اسے یہ امید تھی کہ جو نظام گھر کا جس طرح سے پہلے چل رہا ہے اس کو واپس اسی طرح سے چلایا جا سکتا ہے نوکر چاکر ڈرائیور کار وغیرہ تو سب کچھ ہے۔ گھر بھی موجود ہے۔ یہ سوچ کر وہ اپنے دل کو جھوٹی ڈھارس بندھا ہی رہی تھی کہ باپ نے محض اتنا کہہ کر فون کاٹ دیا“ بیٹا مجھے دوبارہ فون مت کرنا۔ تم اپنی ماں سے رابطہ کیوں نہیں کرتی؟ میں دور بیٹھا ہوں۔ میں کیا کرسکتا ہوں؟” بیٹی کے گالوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ اپنی ماں کے حالات سے وہ واقف تھی لیکن کرتی تو کیا کرتی۔ ماں کو فون لگایا اور بولی“ اماں! بابا تو گھر پہ نہیں اور میرا ہاسٹل بند ہے۔ کیا میں آپ کے پاس آسکتی ہوں؟ ”ماں کیا کہتی۔ ماں کے دل سے بڑی کوئی سلطنت نہیں ہوتی“ میرے پاس چلی آؤ ابھی ”ماں نے جلدی سے کہا۔ وہ جانتی تھی اس کی بچی کا نازک دل ٹوٹنے کو ہے جس کی کرچیاں وہ کئی سالوں سے اپنے وجود میں محسوس کرتی رہی تھی۔

کیا ہے کہ ہر کسی کو اپنے حصے کی جہنم کاٹنا ہوتی ہے اور اسے یہ ڈر تھا کہ کہیں اس کے حصے کی جہنم اس کی بیٹی کے ناکردہ گناہوں کی سزا نہ بن جائے۔ اس وقت بحث مباحثہ اور کسی سے تبادلہ خیال کا وقت نہیں تھا۔ بچی نے جلدی جلدی سامان پیک کیا۔ بس پکڑی اور چند گھنٹوں میں ماں کے پاس آگئی۔ بیٹی جو اس بکھرے آشیانے کا اثاثہ نہ جانے بٹوارے کے وقت کس کے حصے میں آئی تھی؟ بیوپاری منافع بخش سودا کرتے ہیں! گھاٹے کا سودا تو کوئی بھی نہیں کرتا اور بیٹیاں تو شاید گھاٹے کا سودا ہوا کرتی ہیں!

چھوٹی سی عمر میں وہ بہت بڑی ہوگئی تھی۔ زندگی کا بوجھ اٹھانا جان چکی تھی۔ شاید اس کی بالی عمریا بھی اس سے یہ تقاضا کرتی کہ وہ کچی عمر کا عشق لڑا لے لیکن اس کے حالات نے اس کو اتنا موقع نہیں دیا اور وہ بہت جلد زندگی کی شطرنج کے ان پکے کھلاڑیوں میں سے بن گئی جو کبھی دھوکا نہیں کھاتے لیکن زخم تو انسان وہاں سے لے کر اٹھتا ہے جہاں چوٹ لگنے کا خطرہ نہ ہو اس پر بھی وار اس کے اپنے خون کے رشتوں نے کیا تھا۔ اپنے تمام اخراجات خواہ رہائش کے ہوں یا تعلیم کے وہ خود اٹھا رہی تھی۔

کچھ تو اس کے دادا اس کو جائیداد میں سے حصہ دے گئے تھے۔ اس کی آمدنی میں سے وہ ننھی جان اپنی زندگی کا بوجھ اٹھائے پھرتی تھی۔ لیکن اس وبا کی وجہ سے وہ آمدنی بھی رک گئی اور وہ مکمل طور پر ماں کے سپرد ہو گئی۔ ماں کرائے کے مکان میں رہتی تھی دو کمروں کا گھر۔ کما لیتی تھی لیکن اتنا کہ اپنی اچھی گزر بسر کر سکے۔ کچھ جو جمع پڑا تھا وہ دھیرے دھیرے خرچ ہونے لگا۔ پہلے مہینے میں ہی ماں کو یہ احساس ہوگیا کہ بچوں کو شام کے اوقات میں ٹیوشن پڑھانے کا کام شروع کرنا ہوگا ورنہ گزارا نہیں چلے گا۔ وبا سب سے پہلے مجبور انسانوں کو نگلتی ہے جو وبا سے بچ جاتے ہیں ان کو مجبوریاں نگل جاتی ہیں۔ وہ ایک گہری سوچ میں پڑ گئی۔

اس کی ماں کی آمدنی پر بھی وبا نے اثر ڈالا تھا وہ آمدنی جو کہ پہلے سے تین گنا کم ہوچکی تھی جس میں پہلے ایک عورت کا گزر بسر مشکل سے ہوتا تھا اب اس میں دو افراد کا گزارا کیسے ممکن ہوتا؟ نہ روپیہ گردش میں تھا نہ زندگی کا پہیہ گردش میں تھا۔ سب کچھ مفلوج ہوچکا تھا۔ ”اماں کیا ایک باپ اور بیٹی کا رشتہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ کوئی دوسری عورت آئے اور باپ یکسر بیٹی کو بھلا دے“ بیٹی ماں کی گود میں سر رکھے زندگی کے مشکل سوال پوچھتی رہی ”اس صورتحال میں بابا کو اتنا بھی خیال نہ آیا کہ میری بیٹی جو کہ کہ پہلے ہی اکیلی پڑ چکی ہے کہاں جائے گی؟

اماں آپ کے وسائل تو بابا کو پہلے ہی پتہ تھے اور آپ کے وسائل اتنے نہیں کہ وہ ایک اور فرد کو پال سکیں“ وہ مسلسل گلہ کرتی چلی گئی ”کیا والدین اور اولاد کا ناتا اتنا معمولی اتنا سرسری ہے جتنا سرسری میرے لیے بنا دیا گیا ہے اماں ایسا کیوں ہے؟“ ”آج کل کے رشتے شاید اپنے ساتھ ایکسپائری ڈیٹ بھی لے کر آتے ہیں“ ماں نے جواب میں کہا ”لیکن بابا نے یہ نہیں سوچا کہ میں کہاں سے کھاؤں گی؟ کہاں رہوں گی؟ میں کیا کروں گی؟“ بیٹی کے چہرے کی خفگی بڑھتی گئی ”اس نے تو ایسا میرے بارے میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں کیا کروں گی؟ میں کہاں سے کھاؤں گی؟ کہاں رہوں گی؟ لیکن دیکھو۔ ہو رہا ہے نہ سب۔“ ماں نے خالی آنکھوں سے چھت کو گھورتے ہوئے جواب دیا ”لیکن امی آپ کا اور ان کا رشتہ زمین پہ بنا تھا انسانوں کا بنایا ہے اور خام رشتہ۔ کہنے والے تو ایسے رشتوں کو بھی آسمانوں کی جوڑی کہتے ہیں لیکن میرا رشتہ اور ان کا رشتہ خون کا رشتہ ہے خدا کا بنایا رشتہ ہے۔ ذمہ داریاں ہیں۔ ماں باپ کے بیج طلاق ہو سکتی ہے علیحدگی ہو سکتی ہے اولاد کے اور والدین کے بیچ کیسی علیحدگی؟“ بیٹی نے سوالوں کا پنڈورا باکس کھول دیا ہو جیسے ”اماں کیا وہ میری خاطر اپنے ویکیشن کے دورانیہ کو بھی مختصر نہیں کرسکتے تھے“ ”اتنا نہیں سوچتے ماں بیٹھی ہے ماں ہے یہ بھی تو خدا کی دین ہے اس دین پر بھی خدا کا شکر ادا کرو“ ماں نے تسلی دی مگر سچ تو ماں بھی جانتی تھی۔ اندر ہی اندر ماں کو یہ فکر ستائے جا رہی تھی کہ اتنی معمولی سی آمدنی میں گزر بسر کیسے ہوگی؟ مکان کا کرایہ ہے یوٹیلیٹی بلز ہیں کھانا پینا ہے دوا دارو ہے۔ ایک جان کا گزارہ پہلے ہی مشکل سے ہو رہا تھا تھا لیکن ماں تو ماں ہے نہ چہرے سے نہ الفاظ سے اور اور نہ ہی آنکھوں سے پریشانی کو عیاں کیا۔

اپریل کی پہلی تاریخ کو کرایہ ادا کرنا تھا مالک مکان نے دس دن صبر کیا اور اس کے بعد پھر باقاعدگی سے کرائے کا مطالبہ کرنے لگا۔ مکان کا کرایہ ہی اتنا تھا جتنی کہ وبا کے دنوں میں آمدنی بچی تھی۔ اگر وہ دے دیا جاتا تو گھر میں کھانے کو کچھ نہ بچتا۔ ماں کی تسلی پر بیٹی بے فکر تو ہو گئی لیکن ایک دن چوری چھپے اس نے نے ماں اور کرایہ دار کی تکرار سن لی۔ وہ دروازے پر کھڑا بدستور کرائے کا تقاضا کر رہا تھا اور خاصا درشت ہو رہا تھا۔

ماں نے پلٹ کر دیکھا تو بیٹی بت بنی ماں کی بے بسی کا تماشا بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ”گزارہ کیسے چلے گا اماں؟“ پریشانی خوف بن کر بیٹی کے لہجے میں جھلکنے لگی تھی۔ ماں نے مالک مکان سے کچھ دن کی مہلت تو لے لی لیکن دل ہی دل میں ماں بھی یہ جانتی تھی کہ اس مہلت پر پورا اترنا ممکن نہیں۔ بیٹی نے پھر جھنجھلاہٹ میں سوال کیا ”اماں یہ کیسے ہو گا؟ ہم کہاں سے بندوبست کریں گے؟ گھر کا خرچہ کیسے چلے گا؟

“ اگلے دن صبح سویرے ماں کو ایک صندوقچی نکالتے دیکھا۔ ماں نے صندوقچی میں سے ایک انگوٹھی نکالی جس میں خوبصورت ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ ”یہ تو وہی ہے نہ جو آپ کو بابا نے منہ دکھائی میں دی تھی“ بیٹی کے چہرے پر ایک انجانی خوشی پھیل گئی۔ ”ہاں میری بیٹی وہی انگوٹھی ہے۔“ ماں نے حامی بھری۔ ”ہائے اللہ! کتنی خوبصورت لگ رہی ہے آپ کے ہاتھوں میں۔“ بیٹی جیسے سارے دکھ بھول گئی اور ماں کے ہاتھ چومنے لگی۔ ماں نے انگوٹھی ایک مخملی تھیلی میں بند کی۔ سر پہ چادر ڈالی تو بیٹی نے سوال کیا ”آپ کہاں جا رہی ہیں اماں؟“ ”آپا فرحت خوبصورت ہیرے کی انگوٹھی کی تلاش میں ہیں لیکن مل نہیں رہی ہے انہیں“ ماں نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا ”یہ انگوٹھی انہیں شروع سے ہی بہت پسند تھی ان کے بیٹے کی منگنی ہے۔ اسے بیچ کرمشکل وقت آسان ہو جائے گا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments