مرشد ہمارے واسطے بس ایک شخص ہے


دیو جانس کلبی اپنی غار میں بیٹھا ہے کہ دنیا کا فاتح سکندر اعظم اس کے پاس آتا ہے اورکہتا ہے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں درویش فلسفی سر اٹھا کر فورآ جواب دیتا ہے

” آگے سے ہٹ جاؤ اور دھوپ کو اندر آنے دو“
سکندر بے توقیر ہو کر واپس چلا جاتا ہے

دیو جانس کلبی ایک راہب فلسفی تھا جو ہمیشہ ہاتھ میں ایک چراغ لئے پھرتا رہتا تھا اور کہتا تھا ”مجھے ایک انسان کی تلاش ہے جو سورج کی روشنی میں تو دکھائی نہیں دیتا شاید اس چراغ کی روشنی میں مل جائے“

درویش صدیوں ایسے انسان کا منتظر رہا کتنے موسم آئے کتنے گزر گئے فلک کی بے شمار گردشوں کے بعد آخرکار اسے وہ انسان مل گیا تو درویش کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی وہ اٹھ کر ایک وارفتگی سے دونوں بازو پھیلائے اس کی طرف بڑھتا ہے کہ اسے آج گوہر نایاب مل گیا وہ اسی جوش و جذبے سے اٹھتا ہے اور عوام کو خوش خبری سنانے پہاڑی پر پہنچنے کا اعلان کرتا ہے۔

یہ پوری قوم کے لئے خوشی کا دن ہے ملک کے کونے کونے سے اس کے راہب ہاتھوں میں عصا لئے اپنی اپنی بھیڑوں کے ریوڑ ہانکتے پہاڑی کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ جہاں تک نظر پڑتی ہے پہاڑوں کے دامن میں بھیڑوں کا جم غفیر ہے۔ آسمانوں سے پرندے اتر کر درختوں، جھاڑیوں اور راہبوں کے سروں اور کندھوں پر بیٹھے ہیں بھیڑیں اور پرندے راہب اعظم کی زبان سمجھتے ہیں اور راہب ان پرندوں اور بھیڑوں کی زبان اور نفسیات پر پورا عبور رکھتا ہے اس لئے تمام چرند اور موسمی پرند پہاڑی کے گرد جوق درجوق جمع ہو رہے ہیں اور اپنے آقا کی آواز سننے کے لیے بیتاب ہیں لیکن اس انبوہ کثیر میں ایک گروپ Lyceum اکیڈمی کے نوجوانوں کا بھی ہے اور ان سب کی موجودگی میں پہاڑی کا وعظ شروع ہوتا ہے۔

” اے انس و جن! اے میرے دیوتاؤں کی پیاری مخلوق! تمہیں مبارک ہو کہ جس فاتح کا میں نے صدیوں انتظار کیا وہ آج ہم میں موجود ہے جسے آپ دیکھ سکتیہیں اولمپس کے پہاڑ سے اترے ہیرو کی طرح وہی شکل وہی شباہت۔ یہ ایک ایسا سورما ہے جس نے نہ صرف یہ ملک فتح کیا ہے بلکہ وہ دلوں کو مسخر کرنا بھی جانتا ہے لیکن افسوس اس نے حکومت کی باگ ڈور اس وقت سنبھالی ہے جب ملک تباہ ہو چکا ہے اخلاقی طور پر ہم دیوالیہ ہو چکے ہیں اور اس سارے ملک میں یہ ایک اکیلا دیانت دار انسان ہے۔

اس کے آگے بیشمار مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں یہ جھوٹی قوم ہے اس میں جہاں ہر طرف مکر و فریب کی آندھیاں چل رہی ہیں شرافت اور شائستگی کا جنازہ اٹھ چکا ہے وہاں بے حیائی اور فحاشی کی وجہ سے ہمیں وباوں کی جنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اب یہ سورما سارے محاذ سنبھالے گا یہ وہ پہلا شخص ہے جس کے لئے میرے دل سے دعائیں نکلتی ہیں لیکن مجھے دکھ ہے اسے اجڑا چمن ملا ہے دیوتاؤں کے دیوتا سے دعا ہے کہ اسے کامیابی حاصل ہو اور اسے من کی مراد ملے۔

اتنے میں شرارتی نوجوانوں کے گروہ سے آواز آئی کہ کامیابی کیسے ملے گی جب اس کے تمام اقدام اس کے اپنے دعوؤں کے برعکس ہیں اس نے جو جو دعوے کیے تھے ان میں سے ایک پر بھی پورا نہیں اترا اس کی پریشان خیالیوں سے جو ہم نے اتنے عرصے سے ناکامیاں دیکھی ہیں تو کون سی کامیابی اور کون سا محاذ۔ اب دیکھیں یہ جو نئی جنگ ہم پر مسلط ہوئی ہے اتنا عرصہ ہو گیا اس کی کوئی تیاری نہیں ہاں یہ گفتار کا غازی ضرور ہے۔ اس فاتح اعظم نے اپنے لوگوں کو ہی اپنا دشمن قرار دے دیا ہے اور اپنے ہی سپاہیوں کو بے دست و پا کر کے رکھ دیا ہے لڑنے کے لئے ان کے پاس اسلحہ نہیں ہے الٹا ان کو صفوں سے نکال کر زخمی اور بے آبرو کیا جا رہا ہے ان کے سر پھٹ رہے ہیں صرف اس بات پر کہ وہ لڑنے کے لئے ہتھیار مانگتے ہیں یہ کیسا کمانڈر ہے جس کی کمان میں اسلحہ مانگنے پر اپنے سپاہیوں کو سزائیں دی جا رہی ہیں اور سوچنے کی بات ہے یہ نہتے زخمی سپاہی دشمن کا خاک مقابلہ کر سکیں گے اور حیرانی کی بات ہے کہ اپنی سپاہ کو چھوڑ کر جنگی حکمت عملی ان مذہبی راہبوں سے مل کر تیار کی جا رہی ہے جن کا دور دور تک جنگی معاملات سے نہ تعلق ہے اور نہ اس کا تجربہ۔ جو خود کچھ نہیں کرتے بلکہ دیوتاؤں کے نام پر ہر وقت ہمارے وسائل پر تاک لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ انہوں نے دشمن کے ساتھ خاک لڑنا ہے۔

پہاڑی کا وعظ جاری رہتا ہے۔

لیکن سنو عزیزو! جیسا کہ ہمارا سورما کہتا ہے گھبراؤ نہیں اس لئے آپ نے گھبرانا نہیں دیوتاوں پر بھروسا کرو تم پر جتنی بھی وبائیں نازل ہوتی ہیں اور وباوں کے حملے ہوتے ہیں یہ تمہارے اپنے گناہوں کا نتیجہ ہیں آپ نے ان وباوں سے لڑنا نہیں ڈرنا ہے کیونکہ یہ تمام مصیبتیں دیوتاؤں کی طرف سے آتی ہیں اس لئے ان سے گستاخانہ مقابلہ نہیں کرنا ڈرتے رہنا ہے اور مسلسل اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا ہے۔

ایک گستاخ نوجوان پھر بول اٹھتا ہے کہ دشمن جب ہماری سرحد عبور کرکے ہم پر حملہ آور ہو چکا ہے آپ کہتے ہیں اس سے لڑنانہیں ڈرتے رہنا ہے کیا ہم خانقاہوں میں بیٹھ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں اور جو دشمن دیوتاوں کی آشیرباد سے ہم پر حملہ آور ہوا ہے وہ آسانی سے واپس چلا جائے گا یا ہمیں تہس نہس کر کیجائے گا ہمیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ جو سپاہی لڑنے والے تھے انہیں سزائیں دی جا رہی ہیں ناکام حکمت عملیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے کتنے باضمیر انسانوں کو بے روزگار کیا گیا ہے ان کے گھروں کے چولہے سرد کر دیے گئے ہیں ان کو جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے ہر طرف زبان بندی ہے آپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہم خاموش رہیں کیونکہ ہم جھوٹے ہیں ہمارا کاروبار جھوٹ پر مبنی ہے۔

اسقف اعظم کی آواز بلند ہوتی ہے۔

میرے عزیزو! ایک بات ذہن نشین کر لو۔ اصول ہمیشہ ایک زاویے سے نہیں دیکھے جاتے نہ ہمیشہ ان کی تشریح ایک جیسی رہتی ہے سچ ہمیشہ وہی سچ ہوتا ہے جو دائیں بائیں سے نہیں بلندی سے دیکھا جاتا ہیچونکہ حکمران ہمیشہ بلندی پر ہوتا ہے وہ سچ کو بلندی سے اصل صورت میں دیکھتا ہے اس لئے حکمران کا سچ اصل سچ ہوتا ہے مجھے معلوم ہے کہ میری باتیں تم لوگوں کو بھلی نہیں لگ رہیں تو میں آپ سے معافی مانگ لیتا ہوں لیکن یاد رکھو سچ یہی ہے حکمران دیوتاوں کی آشیرباد سے آتے ہیں جو برے حکمران بھی تم پر مسلط کئیجاتے ہیں وہ تمہارے اپنے گناہوں کی وجہ سے مسلط کیے جاتے ہیں لیکن قدرت نے ہمیں ان کی شکل میں بہترین حکمران دیا ہے جو صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے۔

ایک دوسرے گستاخ نوجوان کی آواز ابھرتی ہے۔ مجھے تو یہ دیو جانس کلبی نہیں لگ رہا اس کے حلیے میں نئے زمانے کا کوئی راہب ہے اصلی دیو جانس کلبی تو بادشاہوں کے بادشاہ کو اپنے سامنے کھڑا نہیں ہونے دیتا تھا اور یہ نئے درویش تو ہر وقت محلات کی غلام گردشوں میں غلام بن کر گھومتے رہتے ہیں ان کی باتوں پر نہ جاؤ ہم نے اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہیں اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا ہے اور سچ کو ہی سچ سمجھنا ہے یہ سچ کہنے سے تو رہے۔

ابھی اس نوجوان کی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ ان نوجوانوں پر چیلوں اور کوؤں نے حملہ کر دیا دوسری طرف بھیڑوں کے ریوڑ کے ریوڑ ان پر اس طرح حملہ آور ہوئے جیسے وہ بھیڑیں نہیں بھیڑیے ہوں اورنوجوانوں کی تکا بوٹی کر دی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments