میرے بابا احفاظ الرحمان کا بھپ کرنا


”بھائی میرے، بھپ کرنا پڑتا ہے، خبردار، دور ہو جاؤ، میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں ہے، کہنا پڑتا ہے۔ کیا؟ کیا کرنا پڑتا ہے؟“ بابا (احفاظ الرحمٰن) نے مجھ سے پوچھا۔

”کہنا پڑتا ہے“ ، میں نے جواب دیا۔ پھر ہمت کر کے میں بولا:۔ ”بابا میں اپنے طریقے سے ڈیل کر لوں گا نہ“

”نہیں! بھپ کہنا پڑتا ہے، جب بھی انٹیلی جنس ایجنسیز والوں نے مجھے اپروچ کیا، میں شروع ہی میں ان کو شٹ اپ کال دے دیا کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اپنی ماں کی طرح ’شرما حضوری‘ میں لگے ہوئے ہو، نو سر، شٹ اپ کال دینی پڑتی ہے“ ۔

’نو سر‘ ، کہتے ہوئے بابا نے اپنے مخصوص انداز میں سر ہلایا۔ مجھے ہنسی بھی آئی، وہی ہنسی جو باجی اور مجھے بچپن سے بابا کی اس قسم کی ادائیں دیکھ کے آتی تھی۔ بابا ہم دونوں کے لیے، دوسری اچھی چیزوں کے علاوہ تفریح کا ذریعہ بھی تھے۔ جیسے لوگ ایل پچینو کی اداؤں کو سرپیکو میں یا دوسری بیشمار فلموں میں دیکھ کے ہنستے ہیں، وہی تفریح ہمیں بھی میسر تھی، مگر بغیر سنیما کا ٹکٹ خریدے ہوئے۔

میں نے یہ بھی سوچا، لو جی بابا پھر اپنے اسٹائل میں شروع ہو گئے ہیں، ایک تو میں یہاں ویسے ہی نمونہ بنا ہوا ہوں : ابھی ابھی طلاق ہوئی ہے، بچی کی ’جوائنٹ گارڈین شپ‘ کے لیے کورٹ کے چکر لگارہا ہوں اور بابا ہیں کہ لیکچر شروع۔ لیکن انٹیلی جنس ایجنسی والے حضرت نے مجھے کیوں اپروچ کیا، اس کے بعد کیا ہوا؟ کیا میرا ’شرما حضوری‘ کا طریقہ صحیح تھا یا بابا کا بھپ والا؟ یہ میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا۔ اس سے پہلے کچھ اور بات:

نومبر 2019 میں بابا کی بچوں کی نظموں کی کتاب، ’تتلی اور کھڑکی‘ شائع ہوئی۔ اس کتاب کی اچھی طباعت کے لیے (اقبال خورشید بھائی کی مدد سے ) بابا نے سخت بیماری میں بہت محنت کی۔ بابا نے کتاب میری بیٹی مینا کے نام کی۔ میں نے ہالینڈ سے بابا کو فون پہ کہا: ”بابا بعض نظمیں تو بہت ہی مزاحیہ ہیں“ بابا بولے : ”ہاں، حالانکہ لوگ مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ بہت غصے والا ہے، جبکہ میری نیچر میں بہت ہیومر بھی ہے“.

”میں جانتا ہوں بابا، لوگوں کا کیا ہے، وہ آپ کو صحیح سے نہیں جانتے۔ ۔ ۔“

بابا پر ابھی لوگوں نے بہت لکھا ہے اور بہت اچھا لکھا۔ اس کے لیے میں، باجی اور ماما سب کے ممنون ہیں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ بابا کی شخصیت کے اس پہلو پر لکھوں جس سے صرف چند لوگ واقف تھے : ان کا ہیومر : کبھی ارادی اور کبھی غیر ارادی ہیومر۔

چین کی بات ہے۔ اک دفعہ اک ٹکنیشن ہماری واشنگ مشین صحیح کرنے آئے۔ آپ کو یہاں یہ بتاتا چلوں کہ 80 کی دہائی کا چین آج کے چین سے بالکل مختلف تھا۔ اس وقت ٹکنیشن چین میں بڑی مشکل سے ملتے تھے اور جو ملتے تھے وہ نیم حکیم ملتے تھے، لیکن دماغ آسمانوں پر ہوتا تھا۔ بابا نے اپنے دفتر سے شیاؤ چانگ انکل کو بلا لیا تھا کہ اگر ٹکنیشن کوئی مشکل تکنیکی بات چینی میں کرے تو اس کا ترجمہ ہو سکے۔

ٹکنیشن صاحب ہماری واشنگ مشین صحیح کرنے میں گھنٹہ بھر لگے رہے، کر کچھ نہیں پائے۔ آخر میں کہا کہ نکالیں 50 یوان۔ 50 یوان اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ بابا نے شیاؤ چانگ انکل سے کہا کہ اس سے پوچھیں یہ کس بات کے پیسے مانگ رہا ہے۔ ٹکنیشن بولا: ”میں نے پورا کام کیا، مشین صحیح نہیں کر پایا تو کیا؟“

بابا نے شیاؤ چانگ انکل سے کہا، ”اس سے کہیں، مکاری نہ کرے“ ۔ شیاؤ چانگ انکل جھجھکے۔ ان کے لیے بھی ٹکنیشن اک اہم فرد تھا۔ چین میں ٹکنیشن ققنس کی مانند تھے اس وقت۔

”آدمی کو بتا دینا چاہے کہ وہ مکاری کر رہا ہے، بتانا چاہے یا چپ رہنا چاہے؟“ بابا نے انکل کی جھجھک دیکھ کر اصرار سے پوچھا۔ شیاؤ چانگ انکل خاموش رہے۔ ”حضرت میں پوچھ رہا ہوں کہ آدمی کو بتانا چاہے کہ وہ مکار ہے یا نہیں؟“

”بتا دینا چاہے“ بیچارے شیاؤ چانگ انکل ہار مان کے بولے۔
”بہت خوب، بہت خوب۔ تو کہیں اس سے“۔

شیاؤ چانگ انکل نے ڈرتے ڈرتے بابا کی بات ٹکنیشن کو بولی۔ ٹکنیشن صاحب نے چینی میں کچھ لمبا چوڑا جملہ کہا۔ شیاؤ چانگ انکل بابا کو بتانے سے ڈریں۔ بابا نے پوچھا ”مکار آدمی کیا کہہ رہا ہے؟“ شیاؤ چانگ انکل بولے، ”مکار آدمی کہتا ہے : میں جب آیا تو انھوں نے مجھے صرف چائے پوچھی۔ کچھ بسکٹ نہیں پوچھے، اس کے علاوہ میرا خیر مقدم صحیح سے نہیں ہوا یہاں پر“ ۔

بابا کو یہ بات سن کر غصہ آیا یا مزہ، یہ تو نہیں معلوم لیکن انہوں نے یہ سنہری جملات ادا کیے : ”تو یہ مکار موٹو (ٹکنیشن موٹا تو تھا اور بابا کی نظر میں وہ اب مکار موٹو تھا ) یہ چاہتا تھا کے جب یہ گھر میں داخل ہو تو میں اور میرے بیوی بچے اس کے لیے گانے گائیں، پدھاریں سرکار والا، بہت احسان آپ کا ہم پر۔ اس کو چاکلیٹ کیک کھلائیں گے ہم“۔

شیاؤ چانگ انکل نے یہ پیغام جیسے تیسے ٹکنیشن تک پہنچا دیا۔ ٹکنیشن کو اپنے راجہ ہونے کا اتنا یقین تھا کہ طنز و مزاح کے سستے احساسات سے بالاتر ہو کر، اس نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا : ”مجھے بسکٹ اور کیک پسند ہیں، اور گانے بھی۔“

”موٹو سے پوچھیں اسے اور کس قسم کی مٹھائیاں پسند ہیں“ ۔ موٹو کا بے داغ احساس خود اعتمادی دیکھ کر بابا شاید اب محظوظ ہو رہے تھے۔

شیاؤ چانگ انکل نے پوچھ کر بتایا: ”موٹو کہتا ہے کہ اسے آئس کریم بہت پسند ہے“ ۔ میں بیٹھا ہنس رہا تھا کہ شیاؤ چانگ انکل کیسے بابا کا لفظ ’موٹو‘ استعمال کرنے لگے تھے۔

”موٹو سے کہیں میٹھا نہ کھایا کرے، اسے دل کا دورہ پڑ جائے گا، بیمار ہو جائے گا“ ۔
”موٹو کہہ رہا ہے : ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اس کی صحت بہت اچھی ہے“
”موٹو ہارٹ اٹیک ہو جائے گا“
”موٹو کہتا ہے : نہیں ہوگا“
”اس سے کہیں کہ موٹو مشین صحیح کرو، ورنہ ایک پیسہ نہیں ملے گا“

موٹو کو آخر کار بات سمجھ آ گئی۔ اس نے ایک اور گھنٹہ اپنی نیم حکیمی دکھائی اور مشین چلا ہی دی۔ جب وہ کام کر رہا تھا تو بابا نے اس سے اردو میں باتیں شروع کر دیں۔

۔ ”موٹو میں گانا سناؤں گا:
”پدھارو موٹو، خوب بنے ہو موٹو
شکل کتنی خوب صورت ہے موٹو
کم میٹھا کھانے کی ضرورت ہے موٹو“

اسی طرح کا کچھ گانا چلتا رہا، موٹو کو سمجھ تو کچھ نہیں آیا مگر وہ بابا کے گانے سے خوب لطف اندوز ہوا اور مناسب پیسے لے کر چلتا بنا۔

ایک اور چین کی بات ہے، میں غالباً بارہ برس کا ہوں گا۔ چانگ شی شوان انکل (اردو کے مشہور شاعر، انتخاب عالم تخلص) ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔

مہینے میں کئی مرتبہ آتے تھے۔ خوب مزہ آتا تھا ان کی باتیں اور ان کی اور بابا کی شاعری سن کے۔ لیکن اس دن چانگ انکل خاص مشن سے آئے تھے۔ ان دنوں ہمارے گیسٹ ہاؤس میں کوئی پاکستان سے سرکاری دورے پر آئے ہوئے ادیب آ کر ٹھہرے ہوئے تھے۔ (ہم اس مضمون کے لیے ان ادیب صاحب کو الف کے نام سے یاد کریں گے ) ۔

چانگ انکل نے بابا سے کہا، ”بھئی (وہ اپنا ہر جملہ ’بھئی‘ سے شروع کرتے تھے ) ، بھئی میں الف صاحب سے ملنے آیا ہوں۔ ہم دونوں ساتھ وہاں چلتے ہیں۔ یہ کیک بھی لے کر آیا ہوں ان کے لیے۔ بھئی!“

”بڑا حرامی آدمی ہے“ ۔ بابا نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ”ضیاء الحق کے دور میں خوب فائدے اٹھائے۔ چھوڑیں“۔
”ہی ہی ہی“ چانگ انکل تھوڑا سا پریشان ہو کر ہنسے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments