”جدیدیت کے بانی“ طنزو مزاح۔



جیسے ہی اس بات کا قصد کر لیا جائے کہ آج کچھ پڑھنا ہے مجال ہے پھر کچھ پڑھنے کے لئے مل جائے۔ کبھی یہ کتاب کبھی وہ۔

گھنٹہ اسی میں نکل گیا اکڑ بکڑ کیا۔ تو انگلی نے انتہائی ضخیم کتاب کی طرف اشارہ کیا۔ سوچا اکڑ بکڑ میں بے ایمانی ہو گئی لہذا آنکھ بند کر کے ایک بار پھر ٹرائی ماریں۔ اب کہ انگلی شیلف پہ جا کر ٹک گئی۔ کتاب پڑھنے کا ارادہ کر لیا تھا تو کوئی شیطانی چال ہم کامیاب تو نہیں ہونے دیتے بس اینی مینی، اکڑ بکڑ سب پر لاحول پڑھی اور ارادہ سے زیادہ دل مضبوط کر کے شاعری کی کتاب اٹھا ہی لی۔

ابھی کتاب کھول بھی نہیں پائی تھی کہ اس بار نظر ایک انتہائی بہترین بلکہ اردو کے شہکار ناول پر ٹھہر گئی پھر بھلا اس کے ہوتے شاعری کی کتاب کیوں کر منتخب ہو سکتی تھی۔ شاعری کی کتاب رکھی اور وہ اٹھائی۔ اس کتاب کی عظمت کا اندازہ یوں کریں کہ ہاتھ لگاتے ہی منہ سے بے اختیار واہ واہ نکلا۔ واہ واہ۔

ہمارے حساب سے اس ناول کی قدرومنذلت کچھ یوں بھی زیادہ تھی کہ ہم نے اس ناول کو بہت چھانٹ پھٹک کے خریدا تھا۔

اب یہ کوئی گھریلو ساز و سامان تو تھا نہیں۔ جسے ہم بلا ضرورت خرید لیتے۔ نہ ہی ہار سنگھار تھا کہ بغیر سوچے سمجھے بس اٹھا تے جاتے اور کاؤنٹر پر بل سن کر چاہے چیخیں نکل جاتیں لیکن سامان آرائش و زیبائش آتا ضرور۔ پھر میرا ماننا کچھ یوں ہے کہ لڑکیاں بنی ہی ہار سنگھار کرنے کے لئے ہیں دنیا کی تاریخی کتابوں میں عورت کی آرائش و زیبائش اس کے حسن کا چرچا ملے گا عورت ملے نہ ملے۔ کوئی کارنامہ ہو یا نہ ہو کسی کونے کھدرے میں چاہے کسی کے پہلو میں ملے پر بھرپور ہار سنگھار والی۔

اس سے کم کی کوئی وقعت بھی نہیں رہی۔ سو وہ بیچاری کسی تاریخ میں جگہ نہیں بنا سکی۔ تو بھئی پھر ہم بے دریغ پیسہ بھی نہ لٹائیں۔ واہ۔ یہ حسن سے بھلا کیسا انصاف ہوگا۔ اسی لئے زیادہ تر خواتین و لڑکیاں اس معاملے میں انصاف پسند واقع ہوئی ہیں۔ خیر۔ یہ تو کتاب تھی سوچنا تو لازم تھا اور اس وجہ سے اور توجہ درکار تھی کہ لوگوں نے اسے مستند مانا ہوا تھا۔

کتنی تحریریں مستند ماننے کی وجہ سے ہم نے بھگتائیں بعد میں کیا ہاتھ آیا۔ پچھتاوا۔ اسی لئے دو چار آرا کا موجود ہونا ہم نے سند مان لیا تھا۔ بھلا ہو ہمارے ہاں ادبی حلقوں کا۔ جس میں غیر ادبی حلقے زیادہ مستعدی اور جانفشانی سے برسرروزگار بھی ہیں اور مال بھی تھوک کے حساب سے تیار کرتے ہیں، نمایاں ہیں۔ سالوں بعد جا کر پتہ چلا کہ تین چار آرا، لابی کے زمرے میں آتی ہیں۔ اور اس کی بھیانک قسم یہاں ختم ہوتی ہے کہ تحریر نہ بھی لکھی گئی ہو ان کی آرا موجود ہوتی ہیں۔ یہ اپنے سرکل میں بڑے مصنفین قرار پا کر خود ہی خود ان قداور مصنفین کی صف میں لگ جاتے ہیں جو حیات نہ ہوں۔

ایسے مصنفین کا کام آج کل بھرا پڑا ہے۔ ان کی اپنی تحریر حوالہ جات سے شروع ہوکر حوالہ جات پر ختم ہوجاتی ہیں اور بیچارہ قاری یہ سمجھتا ہے کہ کیا تحریر ہے جو وہ سمجھ ہی نہیں پایا۔ کیا قابل مصنف ہے۔ جو کتابوں کے حوالے پہ حوالے دے رہا ہے کرداروں کے نام لکھ رہا ہے۔ خود کچھ نہیں لکھ رہا۔ پھر تین چار آرا تو پہلے ہی سے موجود ہیں وہ غچہ سمجھے بغیر غچہ کھا جاتا ہے۔

ہم نے بھی غچے سے بچنے کے لئے پہلے ہی یہ غچہ کھا لیا تھا۔ اور ستم ظریفی۔ پتہ تک نہ چلا۔ انھیں نہیں۔ ہم کو۔ خیر جی جب کان ہوگئے تو ایک ترکیب نکالی۔ مستند کی سند حاصل کرنے کے لئے ہم نے اپنا طریقہ واضح کیا۔ ناول کا نام لے کر آرا جمع کرنے کے بجائے بہترین کتابوں کے بارے میں معلوم کیا۔ یوں یہ ناول جو اس وقت ہمارے ہاتھ میں تھا ہمیں اس کا پتہ چلا، پھر رائے اکٹھی کی، چند ایک کی رائے کچھ یوں تھی کہ ”یہ شہکار ناول نہ پڑھا تو کچھ نہ پڑھا“ کچھ تو یہاں تک کہہ بیٹھے، ”مرنے سے پہلے پڑھ جانا ضروری ہے ورنہ گناہ دوگنا ملے گا“ ۔ اپنے گناہوں کا علم سب کو ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ وہ شخص ظاہر، بظاہر لاعلم ہی رہتا ہے۔ سو ہم تو ڈر گئے۔ گناہ تو موجود ہے گناہ کا ہونا باعث فکر و تکلیف، ہیبت و استغفار نہیں تھا۔ دوگنا۔ گناہ پرچونکی۔ اتنا گناہ پہلے ہی موجود ہے اسے دوگنا کرنا بھلا کہاں کی عقلمندی ہوگا۔ ناول پڑھنا ہی ہوگا۔

سوخرید کر ڈال لیا کم از کم دوہرا گناہ ٹلا رہیگا۔

پھر جب فرصت ملے ناول کو پڑھ لینا باعث اطمینان تو ہوگا ہی لیکن خرید کر رکھنے سے کیا پتہ ثواب بھی مل جائے۔

اس صدی کے نوجوان کو دین سے زیادہ تواہمات کو دین سمجھ لینے کا بھوت سوار ہے یہ اسی کو دین سمجھنا، کہتا ہے جہاں یہ اپنی رائے زنی کرسکے۔ اب کوئی اس سے پوچھے کہ بغیر پڑھے۔ رائے۔ اور رائے دینے کا حق پیدا کیسے ہوا۔ ہم بھی موجودہ صدی کی اسی سوچ و تواہمات کی پیداوار ہیں تو سمجھ لیا۔ کہ خرید کر رکھنے سے ثواب تو ہوگا۔

سوخرید ڈالا۔ اب پڑھنے کے لئے وقت نکالنا تھا۔ تو کتاب کے ساتھ معاملہ دینی نوعیت سے نمٹایا جاتا ہے۔ وقت ملا کر لیا وقت نہیں ملا۔ تو اللہ تو معاف کر دیں گے وہ غفورالرحیم ہیں۔ ایک دن دعا مانگ کے اگلے پچھلے سارے معاملات ڈگر پہ لے آئیں گے۔ فی الوقت۔ جب تک وقت نہیں ملتا۔ شیلف میں رکھی کتاب سے ثواب تو پہنچ رہا ہے۔

یہ رویہ پچھلے سالوں، صدیوں کا سفر طے کرتا جوں کا توں ہم تک پہنچا ہے اور اس نسل نے بھی پچھلوں کی طرح اسے ہاتھوں ہاتھ من و عن مان لیا ہے۔ اب الہامی کتاب کے بارے میں بات ہے یقین تو کرنا پڑیگا۔ وقت ملا تو پڑھیں گے۔ ورنہ طاق پہ رکھا ثواب تو دے گا۔

یو ں صدیوں سے برصغیر کے مسلمانوں کو، وقت میسر نہیں آسکا۔

خاص طور سے حضرات کو۔ ہزاروں مثالیں مل جائینگی اب میں کیا گھسی پٹی مثالیں دوں، یوں تفریق کریں کہ مرد حضرات کاروباری زندگی میں اولاد کی تربیت کے لئے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں دن رات ایک کیا ہوا ہے اور خواتین گھر پہ فرصت سے مزے اڑا رہی ہیں اسی کے پش نظر، خلق کی خدمت، حضرات نے خواتیں کی فراغت میں ڈال دی۔ انھیں انہی خدمات سے ملنے والی جنت کی بشارت دینے لگا۔ اور خود کاروباری سرگرمیوں سے ملنے والی جنت کا والی وارث قرار پایا۔ اسی کار ہائے کاروباری مصروفیات نے اس سوچ کا عظیم فلسفہ ’کتاب کو طاق پر رکھ‘ پیدا کیا جو ثواب لے کر وارد ہوا اور یوں ام کتاب کے ہوتے دوسری کتابوں کو پڑھنے میں وقت کا ضیاع۔ اور اس کتاب کو طاق پر رکھنے سے ثواب ہونے لگا۔

بہت بعد میں کتاب کی اہمیت واضح ہوئی لیکن ظاہر ہے اس میں ام الکتاب شامل نہیں ہے کہ کتاب کی اہمیت مغرب سے جلا ہو کر پلٹی تھی اس میں مغرب کی سازش کا عنصر تو ہے۔ دوسرا اس کا مقصد ثواب حاصل کرنا رہ گیا ہے کیسے بھی ملے۔ خیر ہمیں کتاب پڑھنے کا وقت مل گیا تھا۔ گویا دوسری صورت میں وقت کا ضیاع کرنا تھا۔

ناول اٹھاتے اٹھاتے برآمدے میں بیٹھی امی کا خیال آیا ایک نظر دیکھ آؤں کہیں ان کو باورچی خانے کے کام نہ یاد آ جائیں، اور شہکار ناول درمیان سے چھوڑنا پڑے۔ گو کہ گھر میں کھانا پکانے والی بوا بھی ہم وقت موجود رہتی تھی، مگر انھیں ہر دوسرے کام میں میری ہی یاد آتی ہے۔ لڑکی اور باورچی خانہ میری امی کے نزدیک ایک ہی چیز کے دو نام ہیں گویا۔

اکثر فرماتی ہیں

”کہیں جو ناقص تربیت ہوئی“ اور سسرال جا کریہ ناقص تربیت کا پول جو میری وجہ سے میرے سسرال پرظاہر ہوا تو شامت ان کی آئے گی اور اس باعث انھیں میری سسرال سے جوتے نہ کھانے پڑیں، اسی خوف سے انھوں نے مجھے گھر داری سکھائی۔

لڑکپن سے یہی کہتے سکھائی ”ابھی سیکھ لو گی تو آگے کام آئے گی پھر سیکھنے کے بعد جو مرضی کرنا۔“ ہماری حسرت رہی کہ کبھی کام سیکھنے سے رکے تو یہ بعد بھی آئے جس میں اپنی مرضی ہو سکے۔

آگے جو فرماتی تھیں وہ ابھی تک فرماتی ہیں

” بھلا جوان بچے بچیاں کب کسی کی سنتے ہیں اور لڑکیاں تو کالج جانے کے بعد باورچی خانے سے ایسا بدکتی ہیں کہ گویا یہی گھرداری، امتحانات کی تیاری میں سب سے بڑی آڑ تھی، رکاوٹ تھی جو خراب نتیجے کا باعث ہیں۔ جیسے ہم نے تو بال دھوپ میں سفید کیے ہیں۔ تمھاری عمروں کے بچے بچیاں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی توپ چیز ہیں باقی سب دقیانوسی۔ تمھاری گرمیوں کی چھٹیاں ہیں لہذا بہترین موقعہ ہے، یہی سیکھو“

میں امی کو اس وقت ایک ٹک منہ بنا کر دیکھا کرتی اور سوچتی رہ جاتی۔ کہہ صحیح رہی ہیں لیکن۔ اب ایٹم بم، مشین گن وغیرہ کر لیں توپ ذرا پرانی ہوگئی۔

گھرداری میں بھی کتاب کی کوئی سن گن نہیں ہوتی۔ بچوں کی کہانیوں کے لئے ہم بڑے اور بڑی کتابوں کے لئے ہم چھوٹے تھے۔

اور پھر بڑی بڑی کتابوں کے لئے وقت ملنا یا نکالنا تو صدیوں سے چند گنے چنے فارغ لوگ کر پارہے ہیں باقی تو کتاب پڑھنے کے لئے اب وقت کی کمی کا بین ڈال دیتے ہیں۔ رونا تو معمولی چیز ہے۔ یہ بین ڈالنا طالبعلموں میں بے حد مقبول ہے۔

تو جناب یہاں ایک اضافی خوبی کا ذکر کرتی چلوں

فرمانبرداری دیکھاتے ہوئے جو گھر داری سیکھنا شروع ہوئے تو پتہ چلا ک سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی بس ساری زندگی سیکھتے جاؤ۔ حیرت میں چند دن کاٹے دوستوں سے رابطے کیے چند سیانیوں سے پتہ چلا کہ کام سیکھنے کی عمر ختم ہو نہ ہو لیکن کام شروع کرنے کی عمرضرور ہوتی ہے کچھ لڑکیاں رشتہ آنے کے بعد، کچھ شادی کے شوق میں اور کچھ پہلے بچے کی چھٹی کے بعد بھی گھرداری کے کاموں کی ابتدا کرتی ہیں۔ یہی ٹرینڈ ہے اور آج کل اسی سوچ کی لڑکیاں سب سے زیادہ ہیں یہی عقلمند بھی گردانی جاتی ہیں۔ جو زمانے کے مطابق چل رہی ہیں اس حقیقت کے بعد مجھ پر دو انکشافات اور ہوئے ایک میں دقیانوسی ہوگئی اور دوسرا بیوقوف بھی۔ وہ بھی بیٹھے بٹھائے۔

نہ پوچھو جو دل جل بھن کرخاک ہوا، تہیہ کر لیا کہ کچن کے سامنے سے جب گزرونگی ناک مارتے ہوئے گزرونگی۔ ہونہہ۔ یوں ناک مارنا بھی اس صدی میں جدیدیت کی طرف ایک قدم ہے سو یوں نہ سہی یوں سہی۔ اب سیکھے کو گنوار پن سے تو لوٹایا نہیں جا سکتا تو دل کے پھپھولے کچھ یوں پھوڑے۔

امی خلاف توقع برآمدے میں اخبار پڑھنے میں مصروف تھیں ہم نے جھانکا اطمینان کیا ایسے وقت میں ان کو بحث و مباحثے کے لئے عموماً بوا کی ضرورت پیش آتی تھی۔ مجھے تو سیاسی پس منظر اور پیش منظر دونوں کے لئے کافی عرصے پہلے نا اہل قرار دیا جا چکا تھا۔

میں نے تشکر کی ٹھنڈی سانس بھری۔ پھر ہاتھ میں پکڑا شہکار ناول کھولنا ہی چاہا تھا کہ سوچا پہلے اس کے ساتھ ایک دو سیلفی ہو جائیں۔ زمانے کی روش بھی ہے موقع بھی اور دستور بھی بننے لگا ہے۔ سو سوشل میڈیا کی ڈیمانڈ اور اس سیلفی جیسی روشن خیالی کو نظر میں رکھتے ہوئے روش برقرار رکھنے کی ٹھانی۔ لے ڈالی موبائل فون سے تصاویر۔

پھر چیک کیا کہ ناول کا نام بھی صاف صاف نظر آتا ہو اور میرا چہرہ بھی۔ یہ کیا کہ شہکار ناول پڑھا جائے اور اس کا ڈنکا بھی شہر میں نہ پٹے۔ نا بھئی نا۔ یہ اس جدید دور کی اس عظیم سیلفی روش و روشن خیالی کے نہ قطعاً روح رواں ہے نہ جدیدیت کے اس خاکے پر پورا اتر رہا ہے جس میں نیا پرانا ساتھ ساتھ وزن کے ساتھ نظر انے سے کوئی بھی کام مستند و معیاری مان لیا جاتا ہے۔ چاہے کتاب کے ساتھ سیلفی ہو یا بحث و مباحث میں روما اور یونان کا نام لینا یا مشہور و معروف شخصیات کے ساتھ سلفیی بنانا۔

یہ سارے طرز عمل قابلیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ بھلا بیسویں صدی۔ بیسویں کیوں۔ اکیسویں کیوں نہیں۔ ہاں اکیسویں صدی کے اوائل میں یہ سوچا بھی جا سکتا تھا کہ محض کتاب کے ساتھ تصویر اور روم و یونان کے نام یوں آپ کو جدیدیت وترقی کے اس درجہ پر لاکھڑا کریں گے جس پر مغرب کو پہنچنے میں تقریباً ہزار سال لگے۔ ہزار سالوں سے مغرب نہ صرف پڑھ رہا تھا بلکہ علم کی کھوج کے لئے سرگرداں تھا۔ بے چارہ مغرب۔ مذاق نہ اڑائیں تو کیا کریں اتنی دقیانوسیت۔ کتابیں پڑھتا تھا۔ وہ بھی ہر قسم کی۔

اتنا لمبا سفر۔ چچ چچ۔ بیچارہ۔ جدیدیت کا رول ماڈل بننے میں کتنا وقت بے مصرف خرچ کر چکا۔ کاش ہمارا ملک اس وقت وجود میں آجاتا تو ہم ان کی بروقت ذہنی امداد کر سکتے پر خدا کو انھیں بھی تو سبق سیکھانا تھا سو اسی لئے اس مملکت خداداد کا تصور بھی ان کی بے مصرف صدیوں میں ظاہر نہ ہوسکا۔ مغرب بیچارہ۔ چچ چچ۔ حیف۔

ہمارا ملک جلد بن گیا ہوتا تو ہم اہل مغرب، گو یہاں نا اہل مغرب کہنا زیادہ مناسب ہے، کو بھی جدیدیت کا یہ مختصر فلسفہ دو لفظوں میں سمجھا سکتے۔ خیر اب جو ہوا۔ ہم نے اس مختصر فلسفے کو پا لیا۔

اکیسویں صدی کا یہی وتیرہ ہمارے لیے کافی ہے کہ ہم مشرقی تہذیب کے ہر گزرے کل کو اس قدر پرانا سمجھتے ہیں کہ گویا بابا آدم نے خود ہمارے لئے وصیت کی ہو اور جوں کی توں ہمیں ملی ہو، یوں دو دن پرانی بھی قدیمی، دقیانوسی و قدامت پسندی ہے۔ بھلا ہم کیوں پچھلی صدیوں کو کتابوں سے کھنگالیں اور قدامت پسندی حاوی کریں۔ جب کہ اس دقیانوسیت پر سیلفی اور قابلیت کے دو بول جدیدیت کے اصل روح رواں ہو چکے۔ اب حاوی بھی ہیں اور فیشن الگ۔ اور یوں ہم اکیسویں صدی میں آگئے بغیر پڑھے۔

اوہ یاد آیا۔ میں نے ناول تو سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا تھا اور یہ سب میں خود اپنی سیلفی لیتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ میں نے پھر شہکار ناول اٹھایا۔ پہلے پیج پرتاریخ اشاعت دیکھی۔ ہونہہ۔ اتنا۔ قدیم۔ انیس سو پچپن۔ میری چیخ نکل گئی۔ اتنا قدیمی نسخہ ہوتا ہے ناول نہیں۔ نا بھئی! یہ یقیناً مجھے گزرے کل یا بیسویں صدی کی دقیانوسیت میں دھکیلنے کی سازش ہے۔ میں نے اپنے خلاف سازش کو بھانپ کر ناول واپس شیلف میں رکھنا چاہا اور ناول کے ساتھ کھینچی سیلفی کو مسکرا کے دیکھنے لگی۔

تصویر میں، میں اور کتاب دونوں ہی صاف صاف نظر آرہے تھے۔ قابلیت اور اطمینان کی یہ سیڑھی جو ہم سب چڑھ رہے ہیں۔ بس کسی سوشل پیج پر اپ لوڈ ہونے کی دوری پہ ہوتے ہیں۔ میں کتاب اور تصویر کا موازنہ کررہی تھی کہ امی اور بوا چیخ سن کر دوڑے چلے آئے۔ بوا نے جو اتنی ضخیم کتاب ہاتھ میں دیکھی دل تھام لیا۔ بقول ان کے ایسے تو ہوچکی شادی، رشتہ تک نہیں آئے گا۔ دماغ تو یہ کتاب پی گئی سو وہ شربت بنانے گئیں۔ امی گردن مارتی سیل فون کو کوستی واپس چلی گئیں۔ ان کے خیال میں یہ سیل فون دماغ پی گیا کتاب کے لیے کہاں سے بچے گا۔

لیکن حقیقیت میں دیکھ رہی تھی۔ دور کہیں سوشل میڈیا کے کسی پیج پر ملکی ترقی جو صرف ہماری جدید سوشلیاتی حرکتوں کی وجہ سے بپا ہوگی۔ جو یہ پرانی نسل دیکھ نہیں سکتے۔

چار گھنٹے یوں ہی نکل گئے تھے اور میں خوش تھی کہ جدیدیت پہ میں نے کسی طور دقیانوسی سوچ حاوی نہ آنے دی۔ یہ اور بات ہے کہ مجھے ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ”طاق پر کتاب“ رکھنے کا فلسفہ انتہائی دقیق و پرانا ہے جو مجھ جیسے جدیدیت کے بانی آنکھ بند کر کے اپنائے ہوئے ہیں یہاں ان کی آنکھ کھلتی نہیں کبھی کھلتی ہے تو موبائل بھی ساتھ کھل جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments