کورونا بحران: گوگل، فیس بک، ایپل اور ایمزون کا کاروبار کس طرح چمکا


گوگل

اس وقت دنیا کا بڑا حصہ لاک ڈاؤن کی زد میں ہے۔ صارفین خرچ نہیں کررہے ہیں اور بہت ساری صنعتیں تو دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔

لیکن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کچھ بڑی کمپنیوں پر اس عالمی وبا کا صرف معمولی اثر نظر آتا ہے۔

اور اب یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس بحران کے بعد یہ ٹیکنالوجی کی کمپنیاں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط شکل میں ابھریں گی۔

گذشتہ کچھ دنوں میں ‘گوگل’ کے مالکانہ حقوق رکھنے والی کمپنی ‘الفابیٹ’، ایپل، فیس بک اور ایمیزون کے نتائج سامنے آئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جی اے ایف اے (یعنی گوگل، ایپل، فیس بک اور ایمیزون) گروپ کے نام سے بدنام زمانہ یہ کمپنیاں خطرناک حد تک مضبوط ہو گئی ہیں اور اب ان کے پر کاٹے جانے کی ضرورت ہے۔

 

A screen shot of a Houseparty session

EPIC

گوگل اور فیس بک

گوگل اور فیس بک کا مکمل انحصار اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدن پر ہے۔

ایک طرف جب اشتہار دینے والی کمپنیاں اپنا مارکیٹنگ بجٹ کم کررہی ہیں تو آپ کو یہ خیال آیا ہوگا کہ گوگل اور فیس بک جیسی کمپنیوں کے لیے یہ مشکل بھرا دور ہوگا۔

مارچ میں ‘الفابیٹ’ کے سی ای او سندر پچائی نے کہا کہ اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اچانک بڑی گراوٹ آئی۔

لیکن جس طرح سے کمپنی کے شیئر یعنی حصص کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ کمپنی کی بیلنس شیٹ میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے۔

فیس بک نے بھی کہا تھا کہ کورونا وائرس کے سبب ان کے اشتہاری کاروبار پر کچھ اثر پڑا ہے اور یہ رجحان دیکھا گیا کہ آمدنی میں پہلے کی طرح اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔

دوسری طرف اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کے لیے کاروبار میں مندی تشویشناک حد تک پہنچ گئی ہے۔

نیٹفلکس

ایپل اور ایمازون

دریں اثنا ایپل کے ہارڈ ویئر کے کاروبار یعنی اس کے فون کی فروخت میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے لیکن کمپنی کی خدمات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔

آن لائن کاروبار کے ایک اہم کھلاڑی ایمیزون کا کاروبار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کا کلاؤڈ کمپیوٹنگ کا کاروبار بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

تاہم کورونا وائرس سے نمٹنے میں کمپنی کے اخراجات ضرور بڑھ گئے ہیں۔

اس کی وجہ سے مالک جیف بیزوس کو سرمایہ کاروں کو خاموش رہنے کے لیے کہنا پڑا ہے۔ یہ اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ ان کے لیے منافع ہی ہر چیز نہیں ہے۔

تاہم ترقی کرنے کے لیے خرچ کرو، خرچ کرو اور خرچ کرتے ہی رہو کی پالیسی نے انھیں دنیا کا سب سے امیر آدمی بنا دیا ہے۔

اور اس بات کی مکمل علامات سامنے ہیں کہ جیف بیزوس اور ان کی کمپنی کورونا بحران کے بعد پہلے کی نسبت زیادہ طاقتور ہو کر ابھرے گی۔

مائکروسافٹ کے حالیہ سی ای او ستیہ نڈیلا

مائکروسافٹ کے سی ای او ستیہ نڈیلا کے مطابق ان کی کمپنی نے دو سال کے برابر کا منافع صرف دو ماہ میں کمایا ہے

سخت قوانین و ضوابط نافذ کرنے کا مطالبہ

ایک اور بڑی ٹیک کمپنی مائیکرو سافٹ کے ستیہ نڈیلا نے رواں ہفتے کہا ہے کہ ان کی کمپنی نے دو سال کے برابر کا منافع صرف دو ماہ میں کر دکھایا ہے۔

ظاہر ہے کہ کمپنی کے نتائج اچھے رہے ہیں۔ نڈیلا کا کہنا ہے کہ اگر انقلابی ترقی کے اس عمل کو مزید تیز کیا گیا تو یہ کمپنی اور بھی بااثر ہو جائے گی۔

لیکن جس رفتار سے یہ کمپنیاں ترقی کر رہی ہیں اس نے انھیں پہلے ہی بہت طاقتور بنا دیا ہے۔

امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما کے معاشی مشیر جیسن فرمین ان لوگوں میں شامل ہیں جو ان کمپنیوں پر سخت قوانین اور ضوابط نافذ کرنے کے مطالبے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

جیسن فرمین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا بحران کی وجہ سے ان کمپنیوں پر دباؤ کم ہو جائے گا۔

ٹیکنالوجی

امریکی بازار حصص

جیسن فرمین کہتے ہیں: اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو پھر یہ کمپنیاں اپنی مضبوط پوزیشن کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے میں لگ جائیں گی۔ یا ممکنہ طور پر کورونا بحران کی وجہ سے ان پر عائد قواعد و ضوابط کے دباؤ میں ذرا بھی نرمی دی گئی تو یہ کمپنیاں کسی موڑ پر ہمارے لیے مالی پریشانی پیدا کردیں گی۔

رواں ہفتے امریکہ اور یورپ میں کچھ خوفناک معاشی اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی امریکی سٹاک مارکیٹ میں بہتری نظر آئی ہے۔ گذشتہ ماہ پچھلے تیس سالوں میں سب سے بہتر مہینہ رہا ہے۔

اور یہ سب کچھ ٹیکنالوجی کے کاروبار سے وابستہ ان کمپنیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ ایمیزون اور نیٹ فلکس کے حصص میں 15 مارچ سے اب تک 40 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

صدر ٹرمپ کے ایجنڈے میں ڈاؤ جونس انڈیکس پر بہت زیادہ توجہ دی گئی تھی۔ لیکن ان ٹیک کمپنیوں کی ترقی کا مطلب یہ ہوگا کہ ٹرمپ انتظامیہ ان پر کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے میں اپنی دلچسپی کھو دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32555 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp