وبا اور خوف کا سامنا کیسے کریں؟


موجودہ حالات میں جہاں کورونا کی وجہ سے لوگ ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہیں اس کا خوف بھی موت کے احساس سے کم نہیں ہے۔ نہ صرف روزانہ کے معمولات تبدیل ہو چکے ہیں بلکہ سوشل آئسولیشن کی وجہ سے جذباتی طور سے بھی لوگ ایک تکلیف دہ احساس سے گزر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو روٹین کے مطابق گھر سے باہر جایا کرتے تھے اب گھر میں محصور ہو کر نہ صرف ان کی معاشی اور معاشری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں ساتھ ذہنی صحت بھی متاثر ہے۔

اس صورتحال میں منفی کیفیات نے انسان کے ذہن کو جکڑ رکھا ہے مثلاً غصہ، اضطراب، چڑچڑاپن، سستی، کاہلی، نیند کا نہ آنا اور توجہ متحرک رہنا عام ہوتا جا رہا ہے۔ طب کی زبان میں ان کیفیات کو ڈپریشن، اینگزائیٹی یا کیبن فیور کہا جا سکتا ہے۔ والدین، دوستوں اور رشتہ داروں سے دوری اُداسی کا باعث ہے۔ زندگی میں چہل پہل، سیر وسیاحت، شاپنگ اور دیگر آؤٹ ڈور سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بچے پارک، پلے لینڈ اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کود کو یاد کر کے اُداس ہیں تو وہیں بڑے یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ یہ سب کب تک ایسے چلے گا؟ کیونکہ جب انتظار کی مدت نا معلوم ہو تو بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔

جن لوگوں نے اس وبائی مرض کی وجہ سے اپنے پیاروں کو کھویا ان کے لیے یہ وقت کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ ایک تو وہ اس بیماری کے دوران ان سے دوری کا شکار رہے دوسرا اپنے اقربا کی موت اور آخری رسومات میں شرکت نہ کرنا بہت کڑا امتحان ہے۔ جو لوگ کورونا کے علاوہ بھی کسی بیماری سے فوت ہوئے تنہائی کے احساس نے ان کا پیچھا بھی نہ چھوڑا۔ حال ہی میں ہندوستانی اداکار عرفان خان کی والدہ کا انتقال ہوا موجودہ صورتحال کے باعث وہ اپنی والدہ کی آخری رسومات میں شریک نہ ہو سکے، والدہ کی موت کے کچھ ہی دن بعد ہی عرفان خان کا بھی انتقال ہو گیا اور ان کے جنازے میں بھی چند قریبی لوگ ہی شامل تھے۔

قرنطینہ میں زیر علاج مریض بھی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق خوف قوت مدافعت کم کر دیتا ہے، تنہائی کا خوف انسان کے اعصاب کمزور کر دیتا ہے۔ ووہان میں وبا کے بعد تحقیق کی گئی اس کے مطابق تیس فیصد مریض شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔ پاکستان سائیکیٹرک سوسائٹی خیبر پختونخواہ کے سربراہ ڈاکڑ عمران خان نے اس ذہنی دباؤ کے پیش نظر ٹیلی فون اور ویڈیو کالز کے ذریعے لوگوں کو ڈاکٹروں سے رابطے کی سہولت فراہم کی ہے تا کہ وہ اپنے ذہنی دباؤ کو ختم کر سکیں۔

منفی خیالات اور ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے روزانہ کے شیڈیول کو بہتر بنایا جائے۔ نظم و ضبط جو کہ قانون قدرت بھی ہے اسے اپنی زندگی میں لا کر زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ہر کام کا ایک وقت معین کریں اور اسے مخصوص وقت پر انجام دیں۔ عبادت کرنے سے نہ صرف دل و دماغ کو سکون ملے گا بلکہ دعا کے ذریعے موجودہ مشکلات سے مقابلے میں آسانی ہو گی۔ ورزش انتہائی اہم ہے جو نہ صرف جسم کو فٹ کرتی یے بلکہ ذہن کو بھی چاک و چو بند رکھتی ہے۔

غذا میں پھل، سبزیاں، گوشت شامل کرنا اور تلی ہوئی چیزوں، جنک فوڈ اور باہر کے کھانے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ کتاب انسان کی بہترین ساتھی ہے اس لیے مطالعے کو اپنے روزانہ کے مشاغل میں ضرور شامل کرنا چاہیے۔ دوستوں عزیزوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر رابطے میں رہیں اور روزمرہ کی دلچسپ باتیں شیئر کریں۔ اپنی فیملی کو وقت دیں اکٹھے ہو کر گپ شپ کر کے، گیمز کھیل کر، فلم، ٹی وی یا اپنی پرانی تصاویر دیکھ کر وقت کو یادگار بنایں۔ خبریں دن میں ایک سے دو بار سنیں اور صرف مستند ذرائع سے سنیں ایسی خبریں سننے سے گریز کریں جو سنسنی پھیلانے کا باعث ہوں۔

حالات کے مطابق ایک قصہ پیش خدمت ہے ایک بادشاہ نے اپنی انگوٹھی پہ ایسا کچھ بنانے کا حکم دیا جس کو اگر وہ خوشی کے وقت دیکھے تو غمگین ہو جائے اور اگر غم کی حالت میں دیکھے تو خوش ہو جائے۔ تو اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایک بزرگ نے بادشاہ کی انگوٹھی پر بہت خوبصورت بات لکھی کہ ”یہ وقت بھی گزر جائے گا“

بے شک یہ وقت بہت ہی تلخ ہے مگر یقین جانیں یہ وقت بھی گزر جائے گا اور انشا اللہ بہتر وقت آئے گا۔ مگر ہم نے اس وقت سے کیا سیکھا یہ یاد رکھنا ضروری ہے۔ خدا پہ یقین کرنا، موت کو یاد رکھنا، غریب کی مدد کرنا، اپنے گھر والوں کو وقت دینا اور سب سے بڑھ کر اپنے ایمان اور قوت مدافعت کو مضبوط بنانا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments