ہر گھر سے شاکا نکلے گا


کرونا کی وجہ سے دنیا بھر میں چلتی زندگی رک چکی ہے۔ کھیل ختم، ملنا جلنا ختم، باہر جانا ختم، دفتر بند، بازار بند۔ زندگی محدود ہو کے رہ گئی۔ ایک وائرس نے پوری دنیا کو روک دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم فخر کرتے رہیں کہ انسان نے چاند کو تسخیرکرلیا اور مریخ پر پہنچ گیا۔ اس وقت صرف کورونا کے مریض ہی خلوت خانوں یعنی قرنطینہ کا شکار نہیں ہوئے بلکہ پوری دنیا اسیر ہوکے رہ گئی ہے۔ لوگ گلے ملنے سے گریزاں کرتے ہیں، ہاتھ ملانے سے ڈرتے ہیں، انسان انسانوں سے دور بھاگتے ہیں۔ شاید ایسے ہی حالات کے لئے جون ایلیا نے کہا تھا کہ ”اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے“ ۔

اس جبری فرصت اور تنہائی (لاک ڈاؤن) کو جھیلنے کے لیے اپنے اپنے گھروں میں محصور افراد نے اپنی اپنی دلچسپی کے مطابق مصروفیات ڈھونڈ لی ہیں۔ کسی نے خود کو سوشل میڈیا کے جنگل میں گم کرلیا تو کوئی فلمیں اور ڈرامے دیکھ رہا ہے۔ کسی نے کتابوں کے مطالعے میں اپنا دل لگا لیا تو کوئی اپنی تخلیقی دنیا میں ہر پل مصروف ہے۔

بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اس وقت لاک ڈاؤن اور حجاموں کی دکانیں بند ہونے کی وجہ سے بزرگوں، مردوں، نوجوانوں اور بچوں کے سروں کے بال بڑھ گئے ہیں۔ ان کی ہیرکٹنگ کا اسٹائل خراب ہوگیا ہے۔ جبکہ بڑوں کی شیو اور جن افراد نے داڑھی رکھی ہوئی ہوئی ہے وہ بھی بڑھ گئی ہے۔ کئی افراد کے داڑھی کے خط بھی بے ترتیب ہوگئے ہیں۔ میری طرح ہر شخص بہتر جانتا ہے کہ کہ مرد عام طور پر مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ بال ترشواتے ہیں۔ تاہم جن لوگوں کے بال زیادہ گھنے ہوتے ہیں انہیں مہینے میں ایک سے زیادہ مرتبہ حجام کے پاس جانا پڑتا ہے۔

اللہ جانے میری بھی اس لاک ڈاؤن کے چلتے ہوئے مونچھیں کب نتھو لال جیسی ہوگئیں، پتہ ہی نہیں چلا۔ یہ راز اس وقت کھلا جب دوپہر کے کھانے میں لقمے کے ساتھ منہ میں بال بھی آگیا۔ میں نے کہا بیگم میں یہ مانتا ہوں کہ میرے سر پہ خزاں کے موسم نے بہت پہلے سے ڈیرے ڈالے تھے اور اپنی پت جھڑ مکمل کر کے چلی گئی۔ میرا مطلع اب بالکل صاف ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اب آپ کے بال بھی گرنا شروع ہو چکے ہیں اور سالن میں نکھر کے سامنے آ رہے ہیں۔

بیگم نے میری طرف کنکھیوں سے دیکھا اور بولیں۔ جاکے پہلے آئینہ دیکھیں پھر مجھ پہ الزام تراشی کریں۔ جب خود کو آئینے کے سامنے پیش کیا تو داڑھی اور مونچھوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا ”مونچھیں ہوں تو نتھو لال جیسی“ ۔ اگر یہی حالت رہی تو امید ہے کہ چند دنوں تک مجھ میں اور گوریلے میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ خط اتنا بڑھ چکا ہے چہرہ اب خود استرے پر پھر جانے کو بیتاب نظر آتا ہے۔ بس میں تو آپ لوگوں سے ہاتھ باندھ کر یہ درخواست کرتا ہوں کہ کوئی خداکے لیے ٹیوٹر پر، فیس بک، واٹس ایپ اور دوسرے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلا دو کہ ”حجام کو رہاکرو“ ۔ چلو زیادہ نہیں صرف ایک دن کے لیے ہی سہی، نہیں تو باخدا داڑھی اوران مونچھوں نے پورا منہ ڈھانپ دینا ہے۔ اور پھر کھانے کے لیے ان پر باقاعدہ چٹکیاں لگانا پڑیں گیں۔ یاد رکھیں اگر نائی کی دکانیں نہ کھلیں تو ہر گھر سے شاکا نکلے گا۔

اسی مسئلے کے حل کے لئے مختلف شخصیات نے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے اپنے بال خود ہی کاٹنے کی کوشش کی۔ کسی کی کوشش کسی حد تک کامیاب ہوئی اور کسی نے اپنی زلفوں کا ایسا حال کر دیا جیسے کسی لہلاتے کھیت میں خالی ٹریکٹر چلانے سے ہوتا ہے۔ کہیں سے زلف چھوٹی، کہیں پہ بڑی اور کہیں سے بالکل ہی مطلع صاف، یعنی آخر پر گنجا ہی ہونا پڑا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ایسے دوستوں نے اپنے ہاتھوں اپنا مطلع صاف کرنے بعد سوشل میڈیا پہ اپنے کمالات کے فوٹو بھی چڑھا دیے اور ساتھ میں یہ ٹوٹکا بھی فی سبیل اللہ بیان کر دیاکہ گنجا ہونے سے کرونا وائرس کی بیماری سے محفوظ ر ہا جا سکتا ہے۔

یہ تو اللہ بھلا کرے مشہور کالم نگار گلزار احمد خان کا جنہوں نے اپنے گھر میں اپنے ہاتھوں سے ہی گھر والوں کی حجامتیں بنائیں لیکن تصویر کا نہیں بلکہ تحریر کا سہارا لے کر اپنے فن کا اعلان خاص کیا۔ اگر کوئی تصویر بھی اپلوڈ کر دیتے تو شاید ہمیں بھی کچھ ہنسنے کا یا ان کو فون کر کے تسلی دینے کا موقع مل جاتا۔ جن نوجوانوں کی اپنی زلفیں اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے شانوں تک پہنچ چکی ہیں وہ بھی یہ مشورہ دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ شادی کرنے کا اصلی وقت یہی ہے۔ بیوٹی پارلرز بند پڑے ہیں کوئی دھوکہ نہیں ہو گا۔ جو اوریجنل چیز ہے وہ ہی ملے گی۔ بات تو سچ کرتے ہیں۔

جہاں حجاموں کی دکانیں بند ہیں وہیں پہ لاک ڈاؤن کے باعث بیوٹی پارلر بھی بند ہیں۔ جس کے نتیجے میں محلے کی کسی ایسی عورت پہ اگر نظر جا پڑے جو پہلے بڑی حسین و جمیل نظر آتی تھی، بیوٹی پارلر کی بندش کی وجہ سے یقین ہے کہ وہ مسٹر حسین جمیل دکھائی دینے لگے گی۔ مرد حضرات کے اتنے دنوں سے مسلسل گھر میں رہنا، اندیشہ ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران اپنی زوجاؤں کے مسلسل اور لگاتار میک اپ کے بغٰیر والی اصلی شکل دیکھ لینے کے بعد نہایت مشتعل ہو کر کہیں ان بیوٹی پارلروں پہ پتھراؤ نہ کرڈالیں، جہاں سے یہ خشک و بوسیدہ بیبیاں قطرینہ کیف یا عالیہ بھٹ جیسی بن کر گھر میں آتی تھیں۔

پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر کوورونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن اور اس کے اثرات پر گفتگو یوں تو ایک ماہ سے جاری ہے جس میں ذاتی دلچسپیوں سے لے کر اجتماعی مسائل تک زیربحث آتے ہیں۔ زیادہ تر حجاموں کی دکانوں اور بیوٹی پارلر کی بندش بھی زیر بحث رہی۔ اسی وجہ سے ٹویٹر نے ورچوئل سیلون متعارف کرایا۔ یہ اس لحاظ سے دلچسپ رہا کہ یہاں صارفین کی فوٹو شاپ حجامت کی جاتی رہی۔ چند گھنٹوں میں لاکھوں کمنٹس، لائکس اور ریپلائی حاصل کرنے والی ٹویٹ پر صارفین نے اپنی سیلفیاں بھیجیں تو ٹویٹر کے آفیشل ہینڈل نے نہایت پھرتی سے ان کے بال، داڑھی، مونچھیں حتیٰ کہ میک اپ تک کر ڈالا اور منٹوں منٹوں میں حاجی ابراہیم خان کو جان ابراہم اور زرینہ بی بی کو قطرینہ بنا ڈالا۔ یقین نہ آئے تو ٹویٹر کا ورچول سیلون استعمال کر کے دیکھ لیں اور اپنی حجامت و میک اپ بالکل مفت کرا لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments