غیر پیشہ ور صحافی اور عالمی یومِ آزادیٔ صحافت


تین مئی کو پوری دنیا نے ”آزادی صحافت کا عالمی دن“ منایا۔ پاکستان جیسے ممالک کی تو بات ہی چھوڑ دیں، دنیا بھر کے سدھرے ہوئے معاشرے بھی یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کو اظہار کی مکمل آزادی حاصل نہیں ہے۔ بادشاہتوں کا تو ذکر ہی نہیں کرتے، ذرا اپنے پڑوس میں ایران اور چین میں ہی جھانک لیں۔ کیا روایتی میڈیا، کیا سوشل میڈیا۔ آپ کو ”آزادی اظہار“ کا لگ پتا جائے گا۔ خود دنیا بھر کے حقوق غصب کرنے والا امریکا چیخ چیخ کر آزادی اظہار کو انسان کا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے، اس کے حق میں آواز بلند کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور خود اپنے صحافیوں کو مکمل حقوق نہیں دلا سکا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں صحافت کی آزادی یا اظہار کا حق کسی بھی ملک کو مکمل طور پرحاصل نہیں ہے۔ ہم اپنے ملک کی بات کریں تو، صحافیوں کے تحفظ کے عالمی ادارے ”کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس“ کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، صحافیوں کے لیے خطرناک ترین قرار دیے گئے ممالک میں آج پاکستان آٹھویں نمبر پر، جبکہ عراق پہلے نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں عراق کے بعد صومالیہ، فلپائن، سری لنکا، کولمبیا، افغانستان، میکسیکو، پاکستان، روس، برازیل، نائیجیریا اور بھارت شامل ہیں، جہاں صحافت کو خطرناک ترین پیشوں میں شمار کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں آزادی صحافت کے دن کی مبارکباد دینا ایسے ہے، جیسے سوگ میں ہم ایک دوسرے کو خوشی کی جھوٹی نوید سنا رہے ہوں۔

میرے سینئر صحافی دوست اگر مجھ سے ناراض نہ ہوں تو میں اس حقیقت کو قلمبند کرنے میں ایک لمحے کے لیے بھی جھجک محسوس نہیں کررہا کہ، ہمارے ملک کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں بیشتر صحافیوں کو بھی ”صحافت“ کی تعریف تک معلوم نہیں ہے۔ 70 اور 80 کی دہائی میں یا اس سے پہلے مختلف یونیورسٹیوں میں ”صحافت“ اور بعد میں ”ماس کمیونیکیشن“ کے شعبے ہوا کرتے تھے، اب تو ہر چھوٹی بڑی یونیورسٹی میں ”میڈیا اسٹڈیز“ بلکہ ”میڈیا سائنسز“ کے شعبے قائم ہیں، جہاں نہ صرف پرنٹ بلکہ الیکٹرانک میڈیا میں ریڈیو، ٹیلی وژن کی پیشکش، صحافت اور اس حد تک کہ فلم میکنگ کی بھی تربیت دی جا رہی ہے (وہ تربیت کتنی ”پیشہ ورانہ“ ہے، یہ اپنی جگہ پر بڑا اہم سوال ہے۔) کیونکہ گلی گلی میں دکانوں کی طرح کھلنے والی یونیورسٹیز نے دیگر شعبوں میں تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ صحافت کے معیار کو بھی کم کیا ہے۔

میری اور کسی بات سے کسی کا اتفاق ہو یا نہ ہو، مگر یہ بات یقیناً سب مانیں گے کہ اتنے وسائل، مواقع اور بظاہر اعلیٰ تعلم و تربیت کے باوجود بھی دور جدید میں ”عظیم صحافی“ پیدا نہیں ہو رہے۔ اگر قیام پاکستان سے لے کر اب تک نامور صحافیوں کی فہرست ترتیب دی جائے، تو ان میں اکثریت پرانے صحافیوں کی ہوگی، جس کی واضح وجہ 2002 میں اچانک نجی ٹی وی اور ریڈیو چینلز کی بھرمار بلکہ یلغار ہے، جن کے اچانک آ جانے سے ضرورت کے پیش نظر نوجوانوں کا ایک غیر تربیت یافتہ جم غفیر برسر صحافت آگیا اور اس سے بڑا المیہ یہ تھا کہ فیلڈ خواہ ڈیسک پر خدمات انجام دینے والے ان ہزاروں نوجوانوں کی نگرانی بھی (سوائے چند اداروں کے، باقی اداروں میں ) پیشہ ور صحافیوں نے نہیں کی۔

آپ خود نگاہ پھیر کے دیکھ لیں کہ بہت کم ایسے میڈیا ہاؤسز تھے اور ہیں، جنہوں نے ہزاروں رپورٹرز، نیوز ایڈیٹرز اور خبریں پڑھنے والوں کی نگرانی کے لیے سینئر صحافیوں کی خدمات حاصل کیں، نتیجتاً پرانے زمانے والا محاورہ ”املا درست کرنا ہو تو اخبار پڑھو! اور تلفظ درست کرنا ہو تو ریڈیو سنو اور ٹیلی وژن ملاحظہ کرو!“ الٹ ہو گیا۔ اب اگر املا بگاڑنا ہو تو کسی کو آج کے اخبارات پڑھنے کا مشورہ دیجئے! اور زبان کو توڑ مروڑ کر بولنا ہو، تو ٹی وی اور ریڈیو کی طرف متوجہ ہونے کا کہیے!

ہمارے ملک میں اب صحافت، روڈ پر قانون شکنی کر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچ نکلنے، ٹال ٹیکس ادا نہ کرنے، کینٹین پر مفت کی چائے پینے اور بے اختیار اہلکاروں پر دھونس جمانے کی خاطر ہی رہ گئی ہے۔ میں اپنے صحافی دوستوں کے ساتھ جب کبھی سفر کرتا ہوں تو یہ جملہ اپنے بیشتر دوستوں کے منہ سے ادا ہوتا ہوا سن کر میں ان کا منہ تکتا رہ جاتا ہوں کہ ”تمہیں پتہ ہے؟ میں کون ہوں؟ میرا تعلق میڈیا سے ہے۔“

ایسی عجیب صورتحال میں ایک ستم میڈیا ہاؤسز کے مالکان کا رویہ بھی ہے، جس پر الگ سے کئی داستانیں رقم ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک فطری اصول ہے کہ جو شخص جو کام کرنے کے لئے نہیں ہے، اس سے وہ کام کروایا جائے گا تو معاشرے میں بگاڑ ہی پیدا ہوگا، جبکہ ہمارے یہاں میڈیا ہاؤسز چلانے کا معیار صحافی یا صحافتی مزاج کا مالک ہونا نہیں، بلکہ ”پیسے والا“ ہونا ہے۔ جب لوہار اور کھلاڑی ملک اور سنار میڈیا ہاؤسزچلانے لگیں گے، تو معاشرے کا حشر نشر کیا ہو گا!

جب ملک کا ہر ادارہ سیکیورٹی رسک پر ہو، انسان اپنے گھر میں ہی محفوظ نہ ہو، ایسی صورتحال میں کسی ایک صوبے کی حکومت کے خلاف میڈیا ٹرائل کرنے کے لیے مختلف ڈرامے رچانے کا کام بھی ہمارے ملک کی صحافت ہی کا ”کمال“ ہو سکتا ہے، کیونکہ جب سیاستدانوں کے ہاتھوں صحافی بکنے لگیں تو ایسی ہی صورتحال سامنے آتی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز جب کسی ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں بھنگڑے ڈالتے رہیں اور آئے دن سجنے والے اس کے تماشوں کی بہ بانگ دہل تشہیر کرتے رہیں، اور اس دوران ملک میں کیا ہوا، وہ اس کی اسکرین کے اسکرول تک میں جگہ نہ پاسکے تو ایسی جانب دار صحافت کو آپ کیا نام دیں گے؟

جب رپورٹ کرنے والا واقعہ رپورٹ کرتے ہوئے، اس میں اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کو شامل کرے اور مبصر کا کام رپورٹرز اور خبریں پڑھنے والے کرنے لگیں، تو عوام تک صحیح اور غیر جانبدار خبر کی رسائی مشکل ہی نہیں، نا ممکن ہے۔ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں، جہاں ریاست کا یہ اہم ستون اس لئے کمزور ہے، کیونکہ اس کو چلانے والوں کے دام بہت کم ہیں اور ملک و قوم کے ساتھ ہمدردی کے جھوٹے دعوے کرنے والے ان کو با آسانی خرید لیتے ہیں۔

آزادی صحافت کے اس عالمی دن پر خواہ اس کے بعد بھی، جب دنیا بھر کے صحافی ایک دوسرے کو اس دن کی مبارکباد دینے میں مصروف ہیں، میں اپنے آپ سے پوچھنے اور اپنے دامن میں جھانکنے میں مصروف ہوں، کہ کیا مجھے ”صحافت“ کی بنیادی تعریف آتی ہے؟ یا نہیں؟ ساتھ ساتھ یہ سوال بھی ذہن میں گھنٹی کی طرح بجتا ہے کہ معاشرے کا آئینہ بننے کا حق رکھنے والا یہ شعبہ بھی کیا مکمل طور پر کبھی کرپشن سے پاک ہو سکے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments